امریکہ نے جب دوسری جنگ عظیم میں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر حملہ کیا تو وہ طاقت کے نشے میں دُھت تھا یا نہیں مگر چاغی اور شہ مرید کے عنوان سے لالٹین کوخط لکھنے والے صاحب حقائق کی غلط ترجمانی ضرور کر گئے۔ مکتوب نگار کے علاوہ بھی بہت سے افراد اس قسم کے مفروضوں پر یقین رکھتے ہیں۔ شاید وہ اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ آج کے ہیروشیما اور ناگاساکی کو بانجھ قرار دینا، وہاں سبزے کے ناپید ہونے اور ماؤں کا بچے پیدا کرنے سے مسلسل انکار کرنا ایک سفید جھوٹ ہے۔
ہیرو شیما کی آبادی آج 11 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، سبزہ بھی ہے، پانی بھی پینے کے لیے اچھا صاف پانی میسر ہے اور مائیں بھی بچے جن رہی ہیں۔
خط میں ضمناً اور بعض حلقوں میں عموماً راس کوہ، چاغی کے لوگوں پر 1998 میں کیے گئے جوہری تجربات کے تابکاری اثرات کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو حقیقت کی صریح نفی ہے۔ پاکستان کے جوہری دھماکے دنیا کے محفوظ ترین جوہری تجربات مانے جاتے ہیں جن کے لئے بالکل خشک 600 فٹ اونچی گرینائیٹ کی چٹان کا انتخاب کیا گیا۔ اس چٹان میں ایک کلومیٹر گہری اور 9 فٹ چوڑی سرنگ بنائی گئی جس کا ڈیزائن ایسا تھا کہ وہ تابکاری اثرات کو باہر نہ نکلنے دے اور توقعات کے عین مطابق تابکاری اثرات باہر نہیں پھیلے۔
اب بات کرتے ہیں خاران کی حاجرہ اور نوشکی کے شاہ مرید کی، جن کی بیماری کا سبب چاغی کے دھماکوں سے پیدا ہونے والے تابکاری اثرات کو قرار دیا گیا۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے بچے بہت خطرناک بیماری کا شکار ہو گئے ہیں خدا انہیں صحت سے نوازے اور اُن کی مدد کرنے والوں کو اجر دے مگر اِن کے کینسر کا کوئی تعلق چاغی کے تجربات سے نہیں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر تابکاری کے اثرات کے کیسز سامنے آنے کا دعوی بھی سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔
تادم تحریر خاران، نوشکی اور چاغی میں ایک بھی ایسا کیس سامنے نہیں آیا۔ اگر واقعی راس کوہ تجربے سے کوئی تابکاری اثرات پیدا ہوئے ہوتے تو ڈاکٹر عبدالقدیر اور ان کی ٹیم اگلے ہی روز پہاڑ کے دامن میں بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے کھڑے ہو کر خوشی اور فخر سے تصویر نہ کھچواتے۔
میں مانتا ہوں کہ بلوچستان میں طبی سہولیات سمیت تمام سہولیات زندگی کا فقدان ہے پر اس کا اظہار جھوٹ کا سہارا لے کر کرنا بدنیتی اور زیادتی ہے۔ چاغی اور ملحقہ علاقوں میں ہیپاٹائیٹس کے مریض کا ہر گھر میں ہونا بھی ایک بھونڈا جھوٹ ہے۔ پاکستان میں بھلا ہیپاٹائیٹس کہاں نہیں ہے؟ ہیپاٹائیٹس کے ہائی رِسک ڈسٹرکٹس (ضلعوں) میں بلوچستان کا موسیٰ خیل ڈسٹرکٹ شامل ہے جوچاغی سے سینکٹروں میل دور پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے بارڈر سے ملحق ہے اور باقی 10ہائی رسک ڈسٹرکٹس میں اسلام آباد بھی شامل ہے۔کیا وہاں بھی دھماکے ہوئے تھے؟

سچ تویہ ہے کہ بولان میڈیکل کمپلیکس کوئٹہ میں واقع PAEC سینار کینسر ہسپتال 1987 سے بلوچستان میں کینسر کے چالیس ہزار سے زیادہ مریضوں کا علاج کر چکا ہے اور مزید کر رہاہے۔البتہ حاجرہ کی بیماری کی پیچیدگی کی وجہ سے انہوں نے اس کے علاج سے معذرت کر لی۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس وضاحت کے بعد شہ مرید اور حاجرہ سے متعلق بھیلائی گئی بے بنیاد افواہوں کی تردید ہو گی۔
فقط
نذر مری
نذر مری
2 Responses
It is not quite often that we get to read nice words on laaltain.com . However a few pictures showing today’s modern and developed Hiroshima would have added substance to this and had given audience a clearer picture of the facts and prejudice Ihsan Mir.
Hiroshima Today