ہمارے چینل کے لیے یہ بات باعثِ اعزاز تھی کہ میں سب سے پہلے خود کش بمبار تک پہنچا تھا ۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور رپورٹر یہاں پہنچے میری خواہش تھی کہ اس سے سب کچھ اگلوا لوں ۔
میرے پہنچنے تک پولیس اور عوام اس کی حسب توفیق خاطر مدارت کر چکے تھے ۔
اس کی عمر 17 ، اٹھارہ سال تھی ۔ اور شکل سے انتہائی غریب اور ہونق لگ رہا تھا ۔
تم خود کش دھماکہ کیوں کرنا چاہتے تھے ؟
جی مولوی صاحب کا حکم تھا ۔
مولوی صاحب ! مولوی صاحب سے تم کہاں ملے ؟
وہ پچھلے مہینے ہمارے گاؤں آئے تھے ۔ رات ہمارے گھر ہی رہے تھے اور ہم نے ان کے لیے بکرا بھی ذبح کیا تھا ۔
مولوی صاحب نے لوگوں کو مارنے کا حکم کیوں دیا؟
وہ کہتے تھے کہ یہ سب لوگ کافر ہو گئے ہیں اور ان کے خلاف جہاد فرض ہے ۔
تمہیں نہیں معلوم کہ تم بھی ان لوگوں کے ساتھ مارے جاتے؟
مولوی صاحب نے کہا تھا کہ تم جنت میں جاؤ گے۔ وہاں دودھ اور شہد کی نہریں ہیں اور حوریں تمہارا انتظار کر رہی ہیں ۔
تو مولوی صاحب خود کیوں خود کش حملہ نہیں کرتے ؟
جی پتہ نہیں
ہمہم ، اور کیا کہا مولوی صاحب نے ؟
جی وہ کہہ رہے تھے کہ اپریل فول منانا گناہ کبیرہ ہے اور حرام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گولی پیٹ کو چیرتے ہوئے گزر گئی تھی۔ شدید درد اور جلن کے احساس کے ساتھ معلوم نہیں وہ کتنے منٹ تک سرپٹ بھاگتا رہا اندھا دھند جھاڑیوں اور درختوں سے ٹکراتے ہوئے وہ مزید زخمی ہو چکا تھا ۔ اُس کی چیخیں پورے جنگل میں گونج رہی تھیں۔ دوڑتے دوڑتے وہ بے دم ہو کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔
جلد ہی وہاں ایک مجمع لگ گیا ۔ فوراَ بوڑھے حکیم کو طلب کیا گیا ۔ زخم کے بغور معائنے کے بعد اس نے سمجھنے کے انداز میں سر ہلا دیا ۔ شاید اس طرح کے زخموں سے اُس کا پالا پڑ چکا تھا ۔ سب اُس کی جانب سے کسی بات کے منتظر تھے ۔ مگر اُس کے چہرے پر گہری پریشانی کے سوا کچھ نہ تھا ۔ تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔
سوالیہ نظریں زیادہ دیر تک انتظار نہ کر سکیں ۔
بولتے کیوں نہیں ہو بڈھے ! آخر اس شیر کو کیا ہوا ہے ؟ اور یہ بچ تو جائے گا ناں ! لومڑی نے تند لہجے میں پوچھا ۔
بوڑھے بندر نے نفی میں سر ہلایا ۔ نہیں یہ "آدمی کی موت” مرے گا ۔
Image: Ben Walker
Leave a Reply