یہ عینک اس کی نظر کی کمی کو کسی طور پورا نہیں کرتی۔ یہ بس اس کی تنہائی کی ساتھی ہے۔ اس کی صفائی میں کچھ لمحے بیت جاتے ہیں۔ زندگی موت کی طرف دو قدم آگے بڑھ جاتی ہے جیسے ٹرین نے دو اسٹیشن پار کرلیے ہوں۔
اس نے بوسیدہ کواڑ پہ لاغر ہاتھ کا بوجھ ڈالا۔ کواڑ چرچراتے ہوئے کھل گئے۔ لکڑی کے کواڑ کے ساتھ لگی لوہے کی کنڈی “کھڑاک”، “کھڑاک” کواڑ کے ساتھ بجتی رہی۔ اس نے اندر داخل ہو کر دونوں ہاتھ کمر پہ رکھ لیے ۔ وہ ہانپ رہا تھا۔ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ وہ جب وہ سانس لیتا تو اس کے سینے میں سیٹیاں سی بجنے لگتیں۔ جیسے ریل کا نجن کوکتا ہے۔ وہ کمر پہ ہاتھ رکھے صحن میں کھڑا ہے۔ سرونٹ کوارٹر کا صحن۔ یہ سرونٹ کوارٹر کوئی بھوت بنگلہ لگتا ہے۔ اسی سال کی عمر میں وہ خود بھی ایک بھوت بن چکا ہے۔ لاغر اور کمزور بھوت۔ وہ تنہائی کا شکار ہے۔ اس کے اردگرد سارا دن ایک ملازم کے سوا کوئی نہیں پھٹکتا۔ وہ تنہا ہے اور اکیلا ہے۔ وہ تو ایسا بھوت ہے جو کسی کو ڈرا بھی نہیں سکتا۔ وہ کمر سے ہاتھ اٹھاتا ہے تو کمر کچھ اور جھک جاتی ہے۔ اس کے ہاتھوں پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ کپکپی سی پھیل جاتی ہے۔
اس کی نظر کمزور ہوچکی ہے۔ ایک موٹے شیشوں کی پرانی عینک اس کے پاس ہے۔ اس عینک کے شیشوں پر گرد تہہ در تہہ جم چکی ہے اور شیشے دھندلا چکے ہیں۔ عینک کی ایک کمانی درمیان سے ٹوٹ چکی ہے۔ اس نے جھاڑ و کا تیلا رکھ کر اوپر دھاگا باندھ دیا ہے۔ اس بوجھ کی وجہ سے عینک ایک طرف جھکی رہتی ہے۔ یہ عینک اس کی نظر کی کمی کو کسی طور پورا نہیں کرتی۔ یہ بس اس کی تنہائی کی ساتھی ہے۔ اس کی صفائی میں کچھ لمحے بیت جاتے ہیں۔ زندگی موت کی طرف دو قدم آگے بڑھ جاتی ہے جیسے ٹرین نے دو اسٹیشن پار کرلیے ہوں۔
بھوت بنگلے کے صحن میں اس کی ٹوٹی پھوٹی چارپائی پہ کوئی بیٹھا ہے۔ یہ کون ہے؟ وہ جھکی کمر کے ساتھ دو قدم آگے بڑھا۔ اس نے آنکھیں سکیڑیں ہتھیلی کا چھجا بنا کے پیشانی پر رکھا۔ اس کا ہاتھ لرز رہا تھا۔ چارپائی پہ وہ خود ہی بیٹھا تھا یا اس کا کوئی ہم شکل، اس نے اپنا جسم ٹٹولا۔ وہ تو اپنی جگہ پر موجود تھا، سامنے کون تھا۔ وہ آگے بڑھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا چارپائی پہ جا کے بیٹھ گیا۔ اب اس کا ایک ہم شکل بوڑھا دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا۔ اندر آکر وہ رک گیا۔ اس نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا اور بغور اسے دیکھنے لگا۔
اوئے پتر اس عمر میں سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں سب دور دور رہتے ہیں۔۔۔۔۔اوئے نیند بھی پرائی ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھی پھیرا ڈالتی ہے۔
دروازے پر دستک ہوئی۔ کواڑ کھلے۔ ملازم شبیر حسین اندر داخل ہوا۔ اس نے ہاتھ میں ٹرے اٹھا رکھی تھی۔ شبیر کے اندر آتے ہی بوڑھے کی شبیہہ غائب ہو گئی۔ شبیر نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے چارپائی کی پائنتی کی طرف رکھ دی۔ ٹرے کے اندر سٹیل کا گلاس رکھا تھا۔ اس نے گلاس اٹھایا اور صحن میں ایک طرف لگے نلکے کی طرف بڑھا۔ اس نے نلکا چلایا۔ نل سے پانی کی دھار بہہ نکلی اس نے بہتے پانی کے ساتھ گلاس صاف کیا۔ پانی بھرا۔ واپس چارپائی کے پاس آ گیا۔
بابا جی آپ کی آنکھیں سرخ ہیں؟ سوجی ہوئی بھی ہیں۔
بابا جی آپ کی آنکھیں سرخ ہیں؟ سوجی ہوئی بھی ہیں۔
“ہاں۔۔۔۔۔” اس نے مختصر جواب دیا۔
“لگتا ہے رات بھر سوئے نہیں” اس نے پانی کا گلاس بابا جی کو پکڑایا۔
“اوئے پتر اس عمر میں سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں سب دور دور رہتے ہیں۔۔۔۔۔اوئے نیند بھی پرائی ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھی پھیرا ڈالتی ہے۔۔۔۔۔” باباجی کی آواز میں لرزش تھی۔ ابھی اس کی بات جاری تھی کہ اسے چکر سا آگیا۔ وہ لہرا کے چارپائی پر گرنے ہی لگا تھا کہ شبیر نے اسے تھام لیا۔
باباجی کے جسم کا لمس اسے اپنے بازوؤں پہ محسوس ہوا۔
“آپ کو تو بہت سخت بخار ہے“شبیر کے لہجے میں پریشانی تھی۔
“اوئے پاگلا! بڑھاپے میں بیماری ہی تو سب سے زیادہ وفاداری دکھاتی ہے۔ ساتھ ساتھ رہتی ہے قریب قریب پھرتی ہے۔ قبر تک ساتھ نبھاتی ہے“باباجی کو کھانسی کا دورہ پڑا۔
“آپ کھانا کھائیں ۔ میں ڈاکٹر صاحب کو بلا کے لاتا ہوں” اتنا کہہ کر شبیر چلا گیا۔
ایک بار بتا کے وہ بھول جاتا تھا۔ پھر جب وہ بات بتاتا تو اسے لگتا کہ وہ پہلی مرتبہ بتا رہا ہے۔ بتاتے ہوئے اسے اچانک یاد آجاتا کہ یہ بات تو وہ پہلے بھی بتا چکا ہے۔
اس کے سامنے ٹرے میں ایک میلی کندوری کے اندر روٹیاں لپٹی تھیں۔ ٹھنڈی روٹیاں۔ سٹیل کی پلیٹ میں تھوڑا سا بچا کھچا سالن تھا۔ یہ سالن بھی اس کی ضرورت سے زیادہ تھا۔ اس نے دو تین نوالے منہ میں ڈالے۔ اس کا دل کھانا کھانے کا نہیں کر رہا تھا۔ اسٹیل کا گلاس اس نے منہ سے لگایا۔
پانی کے دو چار گھونٹ لیے۔ ٹرے نیچے زمین پر رکھ کر وہ چارپائی پہ لیٹ گیا۔ بوسیدہ چارپائی اس کے نحیف جسم کا زور پڑنے پر چرچرا اٹھی۔ وہ لیٹا رہا۔ کافی دیر گزر گئی۔ کواٹر کا دروازہ کھلا پڑا تھا۔ کھلے دروازے سے گھر کا پالتو کتا موتی اندر آ گیا تھا۔ اس نے چارپائی کے اردگرد چکر کاٹا۔ کھانے کی پلیٹ کو چاٹتا رہا۔ گلاس سونگھا۔ منہ اٹھا کے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر باہر نکل گیا۔
دس منٹ گزرے اور شبیر اندر داخل ہوا۔ اس کے ساتھ پینٹ شرٹ میں ملبوس خوش شکل ڈاکٹر تھا۔
“ڈاکٹر صاحب ! کریم صاحب کو بخار ہے جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا، ان کا بدن تپ رہا ہے” شبیر جو بات کو بار بار دہراتا تھا کلینک سے لے کر اب تک چوتھی مرتبہ ڈاکٹر کو بتا رہا تھا۔ ایک بار بتا کے وہ بھول جاتا تھا۔ پھر جب وہ بات بتاتا تو اسے لگتا کہ وہ پہلی مرتبہ بتا رہا ہے۔ بتاتے ہوئے اسے اچانک یاد آجاتا کہ یہ بات تو وہ پہلے بھی بتا چکا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے کریم بابا کا ہاتھ تھاما۔۔۔۔۔ ہاتھ کافی گرم تھا۔ انہوں نے پیشانی کو چھوا۔ پیشانی بھی تپ رہی تھی۔ ڈاکٹر نے بیگ میں سے تھرما میٹر نکال کر اس کے منہ میں ڈال دیا۔ نبض پر ہاتھ رکھ کے اس نے نظریں گھڑی پر جما دیں۔ نبض معلوم کرنے کے بعد انہوں نے بلڈ پریشر ماپا۔ بیگ میں سے نکال کے ٹیکہ لگایا۔ پیڈپر کچھ دوائیں لکھ کر شبیر کے حوالے کیں۔
“یہ دوائیں لا کر باقاعدگی سے کھلا دینا۔ امید ہے دو تین دن میں ٹھیک ہوجائیں گے۔” ڈاکٹر نے اتنا کہہ کر بیگ سمیٹا اور باہر نکل گیا۔ شبیر اسے کلینک تک چھوڑنے گیا۔ واپسی پہ وہ دوائیں بھی لیتا آیا۔
“کریم صاحب! میں نصیر صاحب کو بتاؤں گا کہ آپ کی طبیعت خراب ہے۔ آپ یہ دوائیں کھالیجئے گا”
باباجی نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ شبیر نے گلاس دھویا بھی نہیں تھا۔ وہی گلاس جسے کچھ دیر پہلے موتی سونگھ کے گیا تھا اس نے پانی کا بھرا ہوا گلاس چارپائی کے قریب رکھ دیا۔
وقت بھی تو انسان کا تعاقب کرتا ہے۔ پیچھے پیچھے آتا ہے۔ سائے کی طرح ساتھ ساتھ رہتا ہے۔
وہ بدستور چارپائی پہ لیٹا ہے۔ کوراٹر کے صحن میں چارپائی ہے ۔ کوارٹر کے دو کمروں میں کاٹھ کباڑ اور پرانا استعمال شدہ سامان رکھا ہے۔ ایک کمرے میں وہ رہتا ہے۔ وہ بھی تو کاٹھ کباڑ کی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ جتنا فائدہ اس کی اولاد اس سے اٹھا سکتی تھی اٹھا چکی۔ اب وہ ان پہ بوجھ بن چکا تھا۔ بے فائدہ بے مصرف بوجھ۔ وقت کی بساط پر فقط ایک پٹا ہوا مہرہ تھا۔ وہ ایسی بیساکھی کی حیثیت رکھتا ہے جسے ا ستعمال کرتے ہوئے اس کی اولاد اپنی منزل تک پہنچ چکی تھیں۔ اب اسے ایک کونے میں پھینک دیا گیا تھا۔ وقت بھی تو انسان کا تعاقب کرتا ہے۔ پیچھے پیچھے آتا ہے۔ سائے کی طرح ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ چالیس سال پہلے وہ اس گھر کا مختار کل تھا۔ اس وقت بھی یہ کوراٹر یہیں اسی جگہ موجود تھا۔ اس کے عالیشان بنگلے کے عقب میں۔ بنگلے کی سنگ مرمر کی اونچی دیواروں سے پھسل کر نظریں کبھی اس کے عقب میں واقعی اس کواٹر تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ چالیس سال قبل اس نے اپنے باپ کو بھی ایک بوجھ سمجھ کر اسی صحن میں لا کر اتار دیا تھا۔
وہ چارپائی پر لیٹا ہے۔ اس کی نظریں آسمان کو گھور رہی ہیں۔ آسمان پر تارے مدھم لو کے ساتھ جل رہے ہیں۔ تاروں کی مدھم روشنی شاید وقت کے ساتھ اس کی آنکھوں کی طرح مدھم ہوگئی ہے۔ اسے کم کم دِکھتا ہے۔ چارپائی پہ لیٹتے ہوئے اس نے دھندلے شیشوں کی عینک بھی اتار دی تھی۔ مدھم لوکے ساتھ چمکتے تارے۔ اس نے گردن گھما کے کمروں کی طرف دیکھا۔ سو واٹ کے بلب کی پیلی روشنی اس کے چبوترے پر پھیلی تھی اور صحن سے ہو کر داخلی دروازے تک جار ہی تھی۔
کمروں کے سامنے چبوترے پر اس کا ہم شکل بوڑھا بیٹھا ہے۔ اس نے عینک لگا کے غور سے دیکھا وہ اس کا بوڑھا باپ تھا جسے چالیس سال قبل اس نے یہاں دھکیلا تھا۔ اس نے گردن گھماکے دروازے کی طرف دیکھا۔ سوواٹ کے بلب کی پیلی یرقان زدہ روشنی میں اس نے دیکھا کہ دروازے سے نصیر اندر داخل ہو رہا ہے۔ شاید وہ اس کا پتا کرنے آیا ہے۔ اس نے سوچا یہ نصیر کی کمر کیوں جھکی ہے اور اس نے ہاتھ کمر پہ کیوں رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے کپڑے کیوں پھٹے پرانے پہن رکھے ہیں۔ اس کی آنکھوں پہ دھندلے شیشوں کی عینک بھی ہے ۔ یہ نصیر یک دم بوڑھا کیوں ہوگیا ہے۔ یہ پیشانی پہ ہاتھ رکھے اسے گھور کیوں رہا ہے۔ یہ کوارٹر اس کے لیے وقت کا بھوت بنگلہ بن چکا ہے۔ اس کی عینک کے دھندلے شیشوں کے سامنے کبھی چالیس سال پیچھے کبھی چالیس سال آگے کی شبیہیں ابھر تی رہتی ہیں۔
Original Painting: David Allen