تیز آندھی میں
زخمی پرندوں کی چیخیں
چٹختی ہوئی ٹہنیوں کی
اذیت میں ڈوبی ہوئی سرد ٹیسیں
بکھرتے ہوئے گھونسلے
تنکا تنکا ادھڑتی ہوئی زندگی
اور بارش میں بھٹکی ہوئی کونج کے گرم آنسو
کہاں تیری برفیں پگھلتی ہیں
اونچے پہاڑوں پہ پھیلے ہوئے آسماں سے پرے
کتنا محفوظ ہے تو !
وہ تتلی جو سپنا بناتے ہوئے دھوپ کا، سو گئی
جس کو طوفان نے بے خبر پا لیا —– نیند میں آ لیا
ساتواں دن ابھی جس نے دیکھا نہ تھا
رات اس کے لیے مستقل ہو گئی
وہ، جو سپنا بناتے ہوئے سو گئی !
وہ کبوتر جو چھتری سمجھ کر فلک کی طرف اڑ گیا
کس بصیرت نے دھوکا دکھایا اسے
جس نے جانا تھا ان لڑکیوں کی طرف
آسماں جن کی کھڑکی پہ کھلتا نہ تھا
جن کے پاؤں نے دہلیز دیکھی نہ تھی
کیسے گلیوں میں ان کے دوپٹے گرے اور روندے گئے
جن کی چھاتی کی آواز سن کر زمیں پھٹ گئی
عمر بھر رات روتے ہوئے کٹ گئی !
صبح اخبار میں سب وہی چھپ گیا
تو نے جو کچھ کہا