Laaltain

پرندے کے پیر پر

23 جولائی، 2016

[vc_row full_width=”” par­al­lax=”” parallax_image=“”][vc_column width=“2/3”][vc_column_text]

پرندے کے پیر پر

[/vc_column_text][vc_column_text]

اک اندیشہ چپکا ہوا ہے
پلکوں کو یوں جکڑے ہوئے ہے
جیسے آنکھوں میں سوزش ہو
کوئی علامت ہو آشوب کی
وہ سیّال ہو جس کے شر سے
آنکھیں مَلناٗ کھولنا مشکل تر ہو جائے۔۔۔
بس پلکوں کی درزوں سے کچھ روشنی باہر کی آتی ہے
ناکافی ہے۔۔۔
پھر بھی ناکافی منظر نے
دل کو تھپکی دے رکھی ہے
“سب اچھا ہے
اس کو اچھا ہی رہنے دو
باہر کی چبھتی کرنوں کو
آنا ہو تو آ جائیں گی
اندیشے کا مادّہ آنکھیں کھولنے سے جو روک رہا ہے
روکے رکھو
خواب سہیٗ پر خواب نہ توڑو
جب تک یہ ناکافی منظر دیکھ سکو
بس دیکھتے جاؤ”

 

اندیشہ لیکن آنکھوں میں گھس کر دہرائے جاتا ہے
“منظر بدلا تو کیا ہو گا
خواب ہوا تو
ٹوٹ کے اور بھی کرچیں آنکھوں میں بھر دے گا
خواب نہیں تو
دھو لینے پر شاید سوزش بڑھ جائے گی”

 

اندیشہ اب تک چپکا ہے
آنکھیں اب بھی بند نہیں ہیں
منظر اب بھی ناکافی ہے
خواب حقیقت جانے کیا ہے
سوزش تو بڑھتی جاتی ہے
اندیشہٗ آشوب کا چیلا
دھیرے دھیرے آنکھوں کو بھرتا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

Image: Out­burst of fear by Paul Klee
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=“1/3”][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *