Laaltain

پاکستان میں طلبہ تحریک کا مختصر خاکہ

13 جولائی، 2012
اگرچہ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا شمارپاکستان کی سب سے پہلی طلبہ تنظیم میں ہوتاہے مگر مسلم لیگ کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ یہ تنظیم بھی طلبہ میں اپنا اثر کھوتی گئی ۔ چنانچہ ۱۹۵۰ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی کے طلباء نے ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن(ڈی ایس ایف) کی بنیاد رکھی۔ پہلے پہل توڈی ایس ایف نے جامعات میں طلباء کو student-politics-2درپیش مسائل کے حل کے لیے کام کرنا شروع کیا مگرآہستہ آہستہ اس نے مختلف سیاسی و ترقی پسندمعاملات پر اپنے موقف کا اظہارکرنا شروع کردیا۔۱۹۵۳ء میں ڈی ایس ایف نے ایک جلوس کی شکل میں یوم مطالبات کا منانے کا اعلان کیا۔انتطامیہ نے بہیمانہ تشدد سے جلوس کا راستہ روکا جس سے ۶ طلباہلاک ہوگئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔غصے سے بپھرے ہوئے طلبانے وزیرتعلیم کی گاڑی کونذرآتش کردیا۔اس زبردست احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے نے ڈی ایس ایف کی قیادت سے ملاقات کا مطالبہ مان لیا۔بعد میں محمد علی بوگرا نے ڈی ایس ایف کی قیادت سے مل کر کراچی یونیورسٹی کی تعمیر کا حکم جاری کردیا۔اس کے علاوہ ڈی ایس ایف نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی مغرب نوازی کے خلاف کڑی تنقید کی اور ایک آزاد او رخود مختار خارجہ پالیسی کا مطالبہ کیاجس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ساتھ ڈی ایس ایف کی سرگرمیوں پرپابندی عائد کردی گئی۔
دریں اثنا مقتدر حلقوں نے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن(این ایس ایف) کی درپردہ حمایت شروع کردی ۔شروع میں این ایس ایف نے نہ صرف ایوب آمریت کی حمایت کی بلکہ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں فیلڈمارشل ایوب خان کا ساتھ بھی دیا۔اس کے برعکس اسلامی جمیعتِ طلباء جو کہ جماعتِ اسلامی کاطلباء ونگ تھا، نے دیگر طلباء تنظیموں کے ساتھ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔تاہم ۱۹۶۸ ء میں ایوب کے خلاف چلنے والی تحریک تک این ایس ایف بائیں بازو کی فکر کے تحت ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ تنظیم کے طور پر سامنے آ چکی تھی۔
۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے بعدمعاہدہ تاشقندکو جوازبناتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹونے وزیرِخارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دے کر عوامی سیاست کا آغاز کیا تو ان کی بے پناہ مقبولیت نے طلبا کو بھی بے حد متاثر کیا۔سیاسی خیالات میں ہم آہنگی اور ماؤنواز دھڑے کے ماسکونواز پر حاوی ہوجانے کی وجہ سے این ایس ایف کے بڑے حصے نے پیپلزپارٹی میں ضم ہونامناسب سمجھا۔بھٹو کے جمہوری دور میں طلباء تنظیموں پر عائد پابندیاں ختم کردی گئیں جس سے تمام طلباء تنظیمیں آزادانہ کام کرنے لگیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنی ذیلی تنظیم پیپلزسٹوڈنٹس فیڈریشن کو فروغ دیا جس میں این ایس ایف، ترقی پسند ، لبرل اور دوسرے ہم خیال گروہوں سے آنے والے کارکن شامل ہوتے گئے۔
طلباء تنطیموں کو جمہوری دور میں ملی آزادی ضیا آمریت میں اس وقت اپنی موت مرگئی جب تعلیمی اداروں میں اسلامی جمیعت طلباء کو ریاست کی حمایت سے کھلی چھٹی دے گئی ۔ جمیعت نے مخالف طلباء تنطیموں کو پر تشدد طریقے سے دبانے کے لئے اسلحے کاکھلا استعمال کیا۔ جواب میں مخالف تنظیموں نے بھی مسلح اسکواڈ ترتیب دیے۔ اسیّ اور نوے کی دہائی میں یونیورسٹی کیمپسز میں ہونے والی دہشتگرد کاروائیوں کے تانے بانے اسی ضیا دورکی تعلیمی اداروں میں پھیلائی ہوئی بدامنی سے ملتے ہیں۔جو طلباتنطیمیں پہلے نظریے اورسیاسی وابستگی کی بنیاد پر قائم کی جاتی تھیں اب انہیں ضیا مخالف عناصرکی بیخ کنی کے لیے لسانی ومذہبی بنیادوں پر بنایا جانے لگا۔ سندھ میں کراچی اور حیدرآبادکے شہری علاقوں میںآل پاکستان مہاجراسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام اور پنجاب میں جمیعت کو کھلی چھوٹ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
نوے کی دہائی میں سٹوڈنٹس تنظیمیں مزید تنزلی کا شکارہوتی گئیں۔طلباتنظیموں کا نظریے ، سیاسی وابستگی ، تحریک اورانقلاب جیسے رومان پرورنعروں سے شروع ہونے والاسفر ضیا دورمیں پھیلائی جانے والی نفرت ،تعصب، صوبائیت اورلسانیت سے بڑھ کر اب فرقہ پرستی و دہشت گردی کی طرف رواں دواں ہے۔ اگرچہ وکلاء تحریک نے طلباء تنظیموں کو دوبارہ ملکی سطح پرایک محدود سا سیاسی اندازفکر مہیاکیاہے مگراس تحریک کے دور رس اہداف نہ ہونے سے اس سے کچھ زیادہ فائد ہ نہیں ہوا۔پاکستان میں طلبہ تحریک آج ایک واضح سیاسی ونظریاتی نصب العین کی تلاش میں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *