’’میں نے پہلی بار یہ منظر تبھی دیکھا تھا جب
جب رتھ بان نے مجھ کو بتایا تھا کہ مُردہ جسم کے
انتم چرَن کی یاترا میں
اُس کو اگنی کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔۔۔
تب اک بار پھر
اس جسم کے تینوں عناصر، مٹّی، پانی اور ہوا
چوتھے سے، یعنی آگ سے مل کر
حقیقی اور ازلی جزو میں تقسیم ہو جاتے ہیں ۔۔۔
۔۔۔ میں انجان تھا اس بات سے تب!‘‘
بات کا آغاز کرنے کے لیے آنند نے تو
بر سبیلِ تذکرہ اتنا ہی پوچھا تھا ’’۔۔۔تتھاگت
یہ بتائیں
راکھ ہی کیا سارے جیووں، جنتووں کی
آخری منزل ہے ۔۔۔؟‘‘
’’۔۔۔بے شک!‘‘ بُدھّ بولے تھے، ’’مگر سوچو تو آنند
جسم کے یہ مرحلے ۔۔۔
پہلے تو بچپن
پھر لڑکپن
پھر جوانی
پھر بڑھاپا
اور پھر ان سب کا حاصل ۔۔۔موت!
اس کے بعد اگنی
بھسم ہو جانا چتا کی راکھ میں!
ترتیب سیدھی ہے
اگر کروٹ بدل کر
یہ الٹ جائے تو پھر
کیسا لگے گا تم کو بھکشو؟‘‘
’’میں نہیں سمجھا، تتھا گت!‘‘
سیدھی سادی بات ہی تو ہے، سُنو آنند، لیکن غور سے
ترتیب کے اُلٹے مساوی رُخ کو اب دیکھو ذرا
۔۔۔ہم آگ میں پہلے جلیں
پھر اپنے مردہ جسم میں داخل ہوں۔۔۔
پھر ارتھی سے واپس
جانکنی کی سب اذیت جھیل کر لوٹیں ۔۔۔
۔۔۔ جہاں ’’سر کانپتے، پگ ڈگمگاتے‘‘ وہ بُڑھاپا ہے، جسے
برداشت کرنا موت سے بد تر ہے ۔۔۔
پھر الہڑ جوانی، پھر لڑکپن
لوٹ کر چلتے ہوئے آغوش ماں کی
شیر خواری کے دنوں تک
اور پھر تولید کا آزار ۔۔۔
کیسا سلسلہ ہے یہ؟ بتاو!‘‘
اپنے سر کو نیوڑھائے
گو مگو کی کیفیت میں
گم رہا آنند کافی دیر تک،
پھر سر اٹھایا
اور کچھ کہنے کو لب کھولے مگر تب تک تتھا گت
لمبے لمبے ڈگ اُٹھاتے جا چکے تھے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتم چرن: آخری قدم
Leave a Reply