Laaltain

نولکھی کوٹھی – پہلی قسط

1 فروری، 2017

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32 ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوا اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

 

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

دور تک پھیلا سمندرمنظر سے خالی ویسا ہی بے لطف تھا، جیسا کئی دنوں کی مسافت میں اُس کا وہ بڑا حصہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ اُس کی وجہ سے وہ بیزار کر دینے والی تھکاوٹ میں مبتلا رہا۔ اب ساحل قریب آرہا تھا تو اُس پر جذباتی کیفیت طاری ہوگئی۔ آنکھوں کے پردوں پروسطی پنجاب کی یادیں تصویر یں بناتی چلی گئیں۔ مال روڈ پر موجود پُر آسائش بنگلہ، مامائیں، خادم اور دیگر ملازموں کی فوج ایک ایک کر کے یاد آنے لگی۔ آٹھ سال کا عرصہ کم نہیں تھا،جب وہ اپنے باپ،ماں اور گھر سے دور انگلستان کی اکتا دینے والی تعلیم اور ٹھٹھرا دینے والی سردی کے گھوروں میں بیٹھا انتظار کاٹتا رہا اور لڑکپن کی ہواؤں کو تصور میں لاتا رہا۔ مامائیں بابا لوگوں کو اپنے حصار میں لیے لارنس باغ میں آتیں۔ ایک ایک نخرے پر ہزار طرح سے جاں نثار ہوتیں۔ اُدھر جب بابا جان اورانگریزی سرکار کے افسر جیپوں پر دورے کو نکلتے تو دیسی لوگوں پر کیسی حسرت طاری ہوتی۔ وہ اُن کی تمکنت کو سڑک کنارے کھڑے پچکے ہوئے چہروں پر ٹکی اور بھنچی ہوئی بے نور آنکھوں سے تکتے رہ جاتے۔ یہاں تک کہ جیپ زنّاٹے سے اُن کے سروں پر خاک پھینکتی نکل جاتی۔ اُسے یاد آیا، جب وہ اپنے والد کے ساتھ اُن کے دفتر جاتا تو کس طرح آفس میں کام کرنے والا عملہ خوشامد کو آگے بڑھتا۔ چاکلیٹ اور عمدہ مٹھائیوں کے ڈھیر لگ جاتے۔ آدھا دفتر سب کام چھوڑ کر اسی فکر میں ہولیتا کہ بابا لوگ کی خوشی حاصل کرے۔ کیا عیاشیاں تھیں، ایسے ایسے پھل جن کی یورپ میں مہک تک نہیں پہنچی، بنگلے کے ڈرائنگ روم میں پڑے سوکھا کرتے۔ نہ کوئی فکر نہ فاقہ۔ ہر کام سے آزاد ایچی سن کالج کے برگدوں کی لمبی ٹہنیوں پر جھولا جھولتے سارا وقت کٹ جاتا۔ زندگی میں اُن دنوں سوائے مزے کے کچھ نہ تھا۔ پھر ایک دن جب بابا جان نے بتایا کہ اُسے اپنی تعلیم کے سلسلے میں انگلستان جانا ہے تو اُسے کتنا برا لگا۔ بہت رویا پیٹا لیکن بابا نے ضد کو پورا کیا۔ آج اُسے اُن کا فیصلہ ٹھیک نظر آرہا تھا۔ آٹھ سال کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا تھا۔ اگرچہ سردی اور روکھی پھیکی زندگی نے اسے کئی دفعہ بیزارکیا اور وہ فوراً ہندوستان بھاگنے کو تیار بھی ہوا لیکن کیتھی نے اُسے اِس حرکت سے باز رکھنے میں بڑا کردار ادا کیااور آج جب وہ اسسٹنٹ کمشنربننے کے لیے امتحان پاس کر کے ہندوستان میں داخل ہو رہا تھا تو کیسا سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ اُس نے سوچا دیسی لوگوں پر حکومت کرنے میں کتنا مزہ ہے۔ اِدھر انگلینڈ میں میں تو کوئی تمیز ہی نہیں۔ سب کام اپنے ہاتھ سے کرنا پڑتے ہیں۔ کھٹ بھیّے اور بھنگی تک بات نہیں سنتے مگر جیسے ہی ہندوستان کی ہوا لگتی ہے، بندہ ایک دم نواب ہوجاتا ہے۔ زندگی کا لطف تو بس ہندوستان ہی میں ہے۔ اُس نے سوچا، اب میں کبھی انگلستان کا منہ نہیں دیکھوں گا۔ دوسال بعد کیتھی کوبھی بلا لوں گا پھر ساری عمر مزے سے کمشنری کریں گے۔

 

دادا ہالرائیڈ کے بعد اُس کا باپ ڈپٹی کمشنر بنا اور اب اُسے بطورِ اسسٹنٹ کمشنر، لاہورسے اپنی پوسٹنگ کے آرڈر لینا تھے،جس کے لیے ابھی ایک سال مزید بطور ٹرینی ادھر اُدھر کی نوکری کرنی تھی لیکن یہ ایسی کڑی شرط نہیں تھی،جسے پورا نہ کیا جا سکتا۔ یہ ولیم کے لیے سرشار کر دینے وا لا خوش کن منظر تھا۔ آٹھ سال بعد اُسی جگہ وہ حکومت کرنے جارہا تھا،جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ پھر اُسے نہری کوٹھیوں میں گزرے ہوئے دن یاد آنے لگے۔ اُس وقت وہ ابھی چھ سال کا تھا۔ اکثر اپنے دوست ایشلے کے ساتھ کھیلتے کھیلتے لڑپڑتا۔ پھر آپ ہی آپ صلح ہو جاتی۔ وہ اکٹھے سکول بھی جانے لگے تھے اور ایک دوسرے کے بغیر اداس بھی ہو جاتے لیکن اب اُس نے کتنے برس ایشلے کے بغیر نکال لیے تھے۔ کیا موسم تھے، جب نہروں کے کنارے چھتنار درختوں کے سایوں میں مامائیں اُس کو لیے پھرتیں۔ برگد کے پیڑوں سے بندھے جھولوں پرپینگیں جھولاتیں۔ نہروں کا پانی، برگدوں سے لٹکے جھولے اور آموں کے باغوں سے پھوٹتی خوشبو اُسے کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ جب دادا مقامی لوگوں کے ہاتھوں بلوے میں قتل ہواتو اُسے گوگیرہ چھوڑنا پڑا۔ گورنمنٹ نے اپنا ضلعی دفترگوگیرہ سے اُٹھا کر منٹگمری منتقل کر دیا۔ پھرجب تین سال بعد جانسن کو منٹگمری کا ڈپٹی کمشنر بنادیا گیاتو وہ اُسے اپنے ساتھ منٹگمری لے گیا اور وہاں چارسال تک رہا۔ اس عرصے میں جانسن کے ساتھ کئی بار گوگیرہ میں سیر کے واسطے آیا۔ یہاں آ کر اُسے سکون مل جاتا۔ گوگیرہ جو اُس کے پردادا ہی کے نام پر تھا، اپنی دل فریبی میں اُسے کبھی نہ بھولا۔ وہ جانسن کے ساتھ گوگیرہ آتا تو اکیلا ہی ڈاک بنگلے سے نکل کر مضافات کی سیر کو نکل جاتا۔ اُس وقت کتنا مزا آتا،جب دیسی ملازم اور گارڈ فکرمندی میں حفاظت کے لیے اُس کے ارد گرد بھاگتے پھرتے۔ اُس وقت شرارتاً وہ اپنے گھوڑے کو ہلکے ہلکے بھگا دیتا اور لمبی سنگینوں والی بھاری بندوقیں پکڑکر پیچھے بھاگتے ہوئے گارڈز کودیکھ کر لطف اُٹھاتا۔ اُن میں سے کئی ہانپتے ہانپتے گِرپڑتے تو وہ نظّارہ لوٹ پوٹ کر دینے والا ہوتا۔ کھیتوں میں کام کرنے والی عورتیں بھی اُنھیں دیکھتیں اورہنس ہنس کر دوہری ہوجاتیں۔ آموں کا موسم تو اُسے کبھی فراموش نہیں ہوسکتا تھا،جس کے لیے اُس کے دادانے خاص انتظام کیا تھا۔ وہ اُس کا تصور کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہنے لگا،کیا جنت کا منظر تھا۔ تین نہروں کے درمیان دو سو ایکڑ پر موجود آموں کے گھنے سیاہ باغ۔ اگست ستمبر کے دنوں میں اُس باغ میں کوئلوں اور پپیہوں کی جان نکال دینے والی بولیاں اور راگنیاں جو تیز بارشوں میں کچھ اور تیز ہو جاتی تھیں،اُس کے لیے ایک ہری بھری جادو نگری تھی۔ اس جادو کی نگری کے بیچوں بیچ دو ایکڑ رقبے پر ان کا وہ سُر خ انیٹوں سے کھڑا کیا ہوا شاندار بنگلہ۔

 

دادا کہا کرتے تھے، بھلے وقتوں میں اُس پر نو لاکھ خرچ آیا تھا۔ جیسی بنگلے کی شان تھی، خیال ہے، یہ بھی کم بتاتے تھے۔ اُنہوں نے اُس کا نام نو لکھی کوٹھی رکھ دیا تھا۔ دادا جان نے بڑی نہر سے ایک چھوٹی نہر کاٹ کر، جوسانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی جاتی تھی، بنگلے کے صحن سے گزارتے ہوئے ایک کلومیٹر پرلے جاکر پھر اُسی نہر میں ڈال دیا تھا۔ لوئس نے دادا کے مرنے کے بعد اُس بنگلے کے پندرہ لاکھ لگا دیے لیکن بابا نے بیچنے سے انکار کر دیا۔ سچ پوچھیں تو اُس کی بہت خوشی ہوئی۔ بنگلے میں ہوا کا ایسا نظام تھا کہ چاروں طرف کے برآمدوں میں گھومتی ہوئی کمروں میں داخل ہوتی، جن کی چھتیں پچیس فٹ تک بلند تھیں۔ اس لیے گرمی کا ذرا احساس نہ رہتا۔

 

انہی سوچوں میں وہ آموں کے ذائقے بھی محسوس کرنے لگا۔ آم کھانے میں جو رغبت تھی، اُسے بیان کرنے سے قاصر تھا۔ بس چاندی کے بڑے تھال آموں سے بھر کر برف ڈال دی جاتی۔ چند لمحوں بعد ٹھنڈے ہولیتے تو کیا میٹھے ذائقے زبان اور حلق سے ہوتے ہوئے سینے تک اُتر جاتے۔ لورین اور ماما تو اس موسم پر جان چھڑکتیں۔ آم کھا کر لسّی پی لیتیں پھر گھنٹوں سوتیں۔ ایسے میں کوئی اُنہیں انگلستان یاد دلاتا تو عجیب طرح سے منہ بسورتیں۔ خاص کر بابا اس وقت ضرور چھیڑتے کہ اگلے برس انگلستان چلے جائیں گے، تمہاری عادتیں خراب ہو رہی ہیں اور وہ آگے سے سو طرح کوستیں۔ انگلستان کو سرد جہنم اور نہ جانے کیا بُرے بُرے خطاب دیتیں،پھر شوخی میں آکر باباجان کو چمکاتیں کہ میں نہیں جاؤں گی۔ یہیں کسی نواب سے شادی کر لوں گی۔ اس پر بابا چمک کر ایک دم شٹ اَپ کہتے اور بڑھ کر ماما کا بوسہ لیتے۔ یہ منظر لورین اورمیرے لیے محظوظ کیفیت پیدا کر دیتا۔ ویسے یہ سب تو چھیڑ خانی تھی، ورنہ بابا ہندوستان کو کسی قیمت چھوڑنے پر راضی نہ تھے۔ خاص کر وسطی پنجاب کے سر سبز میدانوں کو،جہاں اُن کے نوابوں کے سے ٹھاٹ تھے۔ ہزاروں مرغ، بٹیر اور گھوڑے پال رکھے تھے۔ بٹیر لڑانے کا شوق تو دادا کو بھی بہت تھا۔ حقے کا لپکا بھی اُنہی سے لگا۔ لوگ بابا کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے ایک سے بڑھ کر ایک چاندی کا حقہ تحفہ میں لے کر آتے۔ کئی لوگوں نے اُسی تحفے کے عوض بابا سے کئی کئی زمینیں الاٹ کروالیں۔ خود اُنہیں بھی زمین خرید کر باغات لگوانے کا بے پناہ شوق ہے۔ راوی کے کنارے ہزاروں ایکڑ اُن کی ملکیت ہوں گے۔ اُس نے سوچا، سب سے پہلے نو لکھی کوٹھی پر جاؤں گا۔ پھر کیتھی کے لیے بھی،جب وہ ہندوستان آ جائے گی، تو اُسی کوٹھی میں رہائش کا انتظام کروں گا۔ دوسرے ہی لمحے اُسے پھر ماما کا خیال آ گیا۔ وہ دل ہی دل میں ایشلے،لورین، ماما اور باپ سے آٹھ سال بعد ہونے والی ملاقات کا تصور کر کے مزا لینے لگا۔ لورین کی شادی کی اطلاع اُسے انگلستان میں مل گئی تھی، جو بمبے میں ایک مشہور وکیل جیک سے تین سال پہلے ہوئی تھی۔ دونوں کلکتہ میں دو سال ایک ہی کالج میں پڑھے اور ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے لیکن اُس کے ذہن میں لورین کی وہی صورت بیٹھی تھی۔ باغ میں ناچتے موروں کے پر چُننے والی اور کبوتر اڑا کر اُن کے درمیان دور تک بھاگنے والی پتلی اور نرم و نازک۔ پھر کچھ دیرولیم لورین کو تصور میں بھاگتے ہوئے دیکھنے لگا، سفید کپڑوں میں جیسے پری پھر رہی ہو۔

 

اِنہی خیالوں میں گم تھا کہ اُسے کپتان کی اناؤنسمنٹ سنائی دی،جو فاصلے، وقت اور جغرافیے کی معلومات دے رہا تھا۔ اعلان تو اُس نے غور سے نہیں سنا البتہ ماضی کی رَو سے چَونک اُٹھا۔ سورج غروب ہو رہا تھااور شام بالکل قریب تھی۔ اُسے احساس ہوا، وہ مسلسل تین گھنٹے عرشے پر کھڑا ماضی میں جھانکتا رہا،جس میں وقت گزرنے کا پتا نہ چلا تھا۔ پورے سمندر پرہولناک تاریکی چھا رہی تھی۔ پھر ایک دم بادل بھی چلے آئے اور بارش کا سامان بننے لگا۔ ہوا بھی تیز ہو چلی تھی۔ جہاز بمبے کی بندرگاہ کی طرف مسلسل بڑھ رہا تھا۔ وہ شاید کچھ دیر مزید عرشے پر کھڑا رہتا مگر سردی کی لہر تیز ہو چکی تھی اور بوندا باندی بھی۔ وہ آہستہ سے عرشے کے زینے اُترتا ہو ا کمرے میں آگیا۔ کیبن میں تین گھنٹے پہلے سِول سروس کے چھوکروں نے شراب پی کر جوہلڑ بازی مچا رکھی تھی، وہ اب ختم ہو چکی تھی۔ ہر ایک خاموشی سے ڈنر کی تیاری میں مصروف تھا۔ وہ اس سارے ماحول سے سخت بور ہو چکا تھامگر دو دن کا سفر تو اُسے بہرحال کرنا تھا کہ بمبئی ابھی دو دن کی مسافت پر تھا۔ وہ تھوڑی دیر کمرے میں بیٹھا پھر ڈنر کے لیے تیار ہونے لگا۔
2

 

مولوی کرامت گھر سے نکلا تو اُس کے قدم سیدھے نہیں پڑ رہے تھے۔ بار بار عصا پر دباؤ بڑھ جاتا۔ سَر میں شدید درد تھا۔ معدہ خالی ہونے کی وجہ سے اُس میں تبخیر پیدا ہو چکی تھی۔ اُسے رہ رہ کر فضل دین پرغصہ آ رہا تھا،جو ابھی تک روٹیاں لے کر نہیں آیا تھا۔ مولوی کرامت کو ڈر تھا، نماز پڑھاتے ہوئے گر نہ پڑے۔ صبح کے وقت ایک گلاس گُڑ والی لسی پی کر ظہر تک نبھانا بہت مشکل تھا۔ نماز کے دوران بھی پتہ نہیں وہ کیا پڑھتا رہا۔ تلاوت کرتے ہوئے کسی جگہ کی آیت دوسری جگہ پڑھ گیا تھا۔ وہ تو خیر تھی کہ ظہر کی نماز میں تلاوت بلند آواز سے نہیں پڑھی جاتی ورنہ بہت رسوائی ہوتی اور مقتدی مولوی کے دماغ پر شبہ کر لیتے۔ سجدے، رکوع اور قیام کے دوران مولوی کرامت نے فضل دین کو نہ جانے کتنی صلواتیں سنائیں اور اِن گاؤں والوں کو بھی، جو آرام سے پیچھے آ کر نماز تو پڑھ لیتے مگر یہ نہیں دیکھ سکتے تھے کہ وہ بھوکا ہے یا پیٹ بھرا۔ اسی خیال میں اُسے حدیث یاد آئی، اگر نماز اور کھانے کا وقت ایک ہو جائے ہو تو پہلے کھانا کھا لو،بھوکے پیٹ نماز نہیں ہوتی۔

 

مولوی کرامت پچھلے تیس سال سے اس چھوٹے سے گاؤں کی مسجد کا پیش امام تھا۔ گاؤں کیا؟یہی سو پچاس گھروں کی چھوٹی آبادی تھی۔ پہلے پہل مولوی کرامت کا پردادا خدا یار چندہ مانگنے اور گداگری کرتے ہوئے یہاں آیا تھا۔ تب یہ مسجد خالی پڑی تھی۔ اُس نے اسی احاطے میں اپنی گُدڑی جمادی اور نماز پڑھنے لگا۔ گاؤں والے اول اول ترس کھا کر اُسے دو وقت روٹی دے دیتے۔ پھر رفتہ رفتہ دو چار لوگ اور بھی وہاں اُس کی دیکھا دیکھی نماز پڑھنے لگے۔ خدا یار نے ایک سال کسی مدرسے میں لگایا تھا۔ اس وجہ سے کچھ قرآن کی سورتیں یاد ہو گئیں اور نماز بھی آتی تھی۔ اُسی کے سہارے امامت شروع کر دی اور خود بخود گاؤں کا مولوی بن بیٹھا اور مسجد کی عملی شکل ترتیب پانے لگی۔ اُس کے مرنے کے بعد مولوی کرامت کا باپ احمد دین جانشین بنا۔ وہ دن اور آج کا دن، یہ نسل در نسل یہیں کے رہ گئے۔ مولوی احمد دین نے عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے کرامت کو ابتدائی قاعدے سپارے پڑھا کر باقاعدہ قصور کے ایک مدرسے میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ یہاں مولوی کرامت نے چھ سال لگائے۔ پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے تک عربی،فارسی اور اردو کاچنگا بھلا مولوی بن گیا۔ اسی ا ثنا میں مولوی کرامت کا باپ مولوی احمد دین ساٹھ سال کی عمر میں مر گیا۔ باپ کے مرنے کے بعد مولوی کرامت نے کہیں اور جانے کی بجاے اسی گاؤں کی مسجد کو امامت کے لیے تر جیح دی۔ اب وہ پورے پچپن کا ہو چکا تھا۔

 

گاؤں کے سو فیصد لوگ حقیقت میں ایک ہی جد کی اولاد تھے، جو وقت کے ساتھ مختلف خاندانوں میں بٹ گئے تھے۔ یہ سب اَن پڑھ اور سادہ لوح تھے۔ لوگوں کے پاس ملکیتی زمین دو دو یا چار چار ایکڑ سے زیادہ نہیں تھی،جس میں سبزیاں اور چھوٹی موٹی ضرورت کی چیزیں کاشت کرتے اور اُنہیں آٹھ میل پیدل،گدھیوں،گَڈوں یا چھکڑوں پر لاد کر قصور شہر میں بیچ آتے۔ ساری آبادی غریب افراد پر مشتمل تھی، جن کا گزارہ بھی مشکل ہی ہوتا۔ اس لیے مولوی کرامت کو پیسے کون دیتا؟اکثر اوقات اُس کی جیب خالی رہتی۔ البتہ عید کے روز قربانی کیے گئے جانوروں کی کھالیں، گاؤں کے مرنے والے بوڑھوں کے کپڑے، بستر اور چارپائیاں، شادی بیاہ میں نکاح کی فیس اور اِسی طرح سال کے سال گندم کی کٹائی پر تھوڑی بہت گندم ہر ایک اُن کو دے دیتا۔ مولوی کرامت یہ گندم شہر لے جاکر بیچ دیتااور کچھ پیسے کھرے کر لیتا۔ اس کے علاوہ روزانہ صبح اور شام کرامت کا لڑکا فضل دین، جو ابھی تیرہ چودہ سال کا تھا، پورے گاؤں سے روٹیاں اکٹھی کر لاتا۔ ہر گھر نے اپنے اوپر لازم کرلیا تھا کہ وہ ایک روٹی فضل دین کو ضرور دے گا۔ اس طرح روزانہ مولوی کرامت کے گھر تیس چالیس روٹیاں جمع ہوجاتیں۔ اتنی روٹیاں وہ کھا نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ مولوی کے سوا اس کا بیٹا فضل دین اور بیوی شریفاں، یہ تین افراد کہاں تک کھاتے۔ باقی روٹیوں کو دھوپ میں سُکھا لیا جاتا۔ مہینے بعد وہ سب اکٹھی کر کے بڑی بڑی بوریوں میں بھر کے شہرمیں کھل بنولہ والوں کے ہاں بیچ آتے۔ جس سے اُن کے لیے مہینہ بھر کا نقد خرچ نکل آتا۔

 

گاؤں والوں سے روٹیاں اکٹھی کرنے کا کام فضل دین کرتا تھا۔ مولوی کرامت کی اُسے تاکید تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ گھروں میں جایا کرے تاکہ روٹیاں بڑی مقدار میں اکٹھی ہو جائیں مگر سو گھر کچھ کم نہ تھے۔ فضل دین بمشکل چالیس پچاس گھر ہی پورے کر پاتا۔ ایک مصیبت فضل دین کے لیے یہ تھی کہ روٹیاں مانگنے جاتا تو لوگ اُس سے گھرکام کروانا شروع کر دیتے۔ کوئی عورت روٹیوں کا تھیلا رکھوا لیتی اور دوکان سے سودا لینے بھیج دیتی، کوئی گائے کو چاراڈلوانا شروع کر دیتی۔ اس وجہ سے اُسے گھر پہنچنے میں کافی دیر ہوجاتی۔ گھر جاتاتو مولوی کرامت سیخ پا ہوتا کہ اتنی دیر کہاں کر دی؟ بعض اوقات دو چار چپتیں بھی لگا دیتا۔ ہر دو طرف سے فضل دین پر ہی مصیبت گرتی لیکن یہ تو اب معمول بن چکا تھا۔ فضل دین اس سب کچھ میں کوئی تکلیف محسوس نہ کرتا بلکہ گھر گھر کے طرح طرح کے کھانے شاید ہی کسی کو نصیب ہوں کہ فضل دین کے لیے نعمت سے کم نہیں تھے۔ دو سرا فائدہ یہ تھا کہ فضل دین کا علمی ذخیرہ گاؤں کے کسی بھی فرد سے زیادہ تھا۔ پورے گاؤں کے حالات کی اُسے لمحہ بہ لمحہ خبر رہتی۔ لاشعوری طور پر وہ گھر گھر کی خبروں سے آگاہ ہو رہا تھا۔ کسی نے جو کچھ بھی گاؤں کے دوسرے فرد کے متعلق پوچھنا ہوتا،فضل دین کو بلا لیتا۔ کس کے گھر میں کون مہمان آیا ہے؟ کس نے کس کے اوپر کیا الزام لگایا ہے؟ اسی طرح کی اکثر باتیں اُس کو پتا ہوتیں۔ فضل دین کی وجہ سے مولوی کرامت کا تجربہ بھی بڑھ رہا تھا۔ اُسے پتہ چل جاتا کہ اس وقت احمد بخش کے گھر سے لہسن منگوایا جا سکتا ہے اور شیر محمد کے ہاں باسمتی کے چاول وافر پڑے ہیں اور یہ کہ ِاس وقت اُس کا موڈ بھی ٹھیک ہے، مانگنے سے ضرور مل جائے گی۔ علاوہ ازیں آج خیر دین نے اپنے بیوی کو جھونٹوں سے پکڑ کر وہ تانبی(مارا) لگائی ہے کہ اللہ جانتا ہے،چور کو پڑتی تو وہیں مر جاتا۔ یہ سب باتیں ایک طرف، فضل دین اب اپنے باپ کے سوا گاؤں کے کسی بھی فرد سے زیادہ پڑھا لکھا بھی تھا۔ کئی کئی آئتیں، سورتیں اور تعویذ گنڈے کی رمزیں اس عمر میں وہ سیکھ چکا تھا۔ پور ی نماز،تراویح،حتیٰ کہ نماز جنازہ کی بھی کئی کئی دعائیں، جو اکثر مولویوں کو بھی نہیں آتی تھیں،وہ اِسے یا د تھیں اور مزید ترقی کر رہا تھا۔

 

اتنا زیادہ علم حاصل کرنے کا سبب یہ تھاکہ گاؤں میں کسی بھی فرد نے اپنی اولاد کو مولوی صاحب سے پڑھانے کی زحمت گوارا نہ کی تھی۔ نہ ہی مولوی ایسی کسی بدعت کو رواج دینا چاہتا تھا۔ اس کے تمام علمی سرمائے کی منتقلی صرف فضل دین تک محدود تھی۔ کریماں، بوستان، گلستان، دیوانِ حافظ، عرفی و خاقانی کے قصیدے اور ان کے علاوہ عربی کی ابتدائی کتابیں،گرائمر و صیغہ جات۔ یہ سب آہستہ آہستہ فضل دین کی طرف منتقل ہو رہے تھے۔ مرغا ذبح کرنا، بچے کے کان میں اذان دینا تو فضل دین کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ مردے کو نہلانا، قبر، کفن اور جنازے کی معلومات بھی اب اُس کے لیے غیب کی باتیں نہ رہیں۔ مولوی کرامت نے جو کچھ اپنے باپ مولوی احمد دین سے پڑھا یا جو اُسے خود نہیں بھی آتا تھا، وہ بھی اُلٹا سیدھا امانت کی طر ح فضل دین کے سپرد کر رہا تھا، کہ اس خاندان کی بقا اسی پر تھی۔ ویسے بھی مولوی کرامت کا باپ کرامت سے اور کرامت کا دادا اُس کے باپ سے کم ہی پڑھے تھے اور ہر بعد میں آنے والا اُس علم میں اپنی ذاتی استعداد سے اضافہ کر رہا تھا۔

 

ہزار مشکل سے مولوی کرامت ظہر کی نماز پڑھا کر گھر آیا تو فضل دین روٹیاں لے کر آ چکا تھا۔ مولوی کا غصہ انتہاؤں پر تھا۔ تیزی سے عصا لے کر فضل دین پر ٹوٹ پڑا۔ فضل دین نے عصا اُٹھتے دیکھا توآگے بھاگ اُٹھا۔

 

ارے کم بخت کہاں جاتا ہے؟ ملعون صبح چھ بجے سے نکلا اور ظہر کر دی۔ خدا تجھے غارت کرے،تیرے جیسا حرام خور آج تک پیدا نہ ہوا’’ مولوی غصے سے بھاگتے ہوئے کانپ بھی رہا تھا”۔ تجھے خدا سمجھے یہاں گھر میں کچھ کھانے کو تھا؟ جو موت کے وقت واپس آیا۔

 

مولوی کو غصے میں دیکھ کر فضل دین سمٹ کردیوار سے لگ گیا اورتھر تھر کانپنے لگا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا،کیا جواب دے کہ عصا چھپاک سے فضل دین کے چوتڑوں پر لگا۔ شریفاں نے اُسے پٹتے دیکھا تو فوراََ دوسرا عصا پڑنے سے پہلے درمیان میں آگئی اور عصا ہاتھ سے کھینچ کر بولی،ہائے ہائے بد بخت بڈھے تیرے ہاتھ ٹوٹیں۔ خدا کوڑھی کر کے مارے، کیوں معصوم کی جان کا دشمن ہوگیا؟سارا دن گلی گلی پھر کر تیرا دوزخ بھرتا ہے، پھربھی تجھے صبر نہیں۔ مَیں جانتی ہوں، یہ لڑکا نہ ہوتا تو تُو بھوکا مرجاتا۔

 

شریفاں نے فضل دین کو بازو سے پکڑ کر اپنی بغل میں لے لیا، جو عصا کھا کر ہاتھ سے چوتڑ سہلا رہا تھا۔
ہاں ہاں مَیں بھوکا مر جاتا،مولوی تڑپ کر بولا، جب تُو نے اِسے نہیں جنا تھا، تب میں مٹی کھاتا تھا؟پورے پچاس سال اسی گاؤں سے مَیں نے روٹیاں اکٹھی کی ہیں اور اب اگر اِسے لوگ دیتے ہیں تو میری ہی وجہ سے۔ مَیں نہ ہوں تو ماں بیٹا دونوں کسی روڑی(کچرا) سے چن کر کھا رہے ہوتے بلکہ وہ بھی نہ ملتی اور کتوں کی طرح باولے ہو جاتے۔ مولوی کرامت بِڑبڑا تا ہو ا چارپائی پر بیٹھ گیا، جس کی ادوائین ایک طرف سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ چارپائی کا بان سرکنڈوں کی باریک مونج سے بٹا ہوا تھا۔ گرمیوں میں سرکنڈوں کا بان جسم کو جس قدر ر احت اور ٹھنڈک پہنچاتا ہے،اُس کی مثال نہیں۔ مولوی کو ٹھنڈا پڑتے دیکھ کرشریفاں فضل دین کی طرف پلٹی اور اُسے ڈانٹتے ہوئے کہا،کیوں بے تُو اتنی دیر کہاں لگا دیتا ہے ؟تیر ااس طرح کام کر نا مجھے بالکل منظور نہیں۔ تیر ی نالائقی اور کام چوری کی وجہ سے ہم ایک دن ضرور دانے دانے کو ترسیں گے۔

 

اماں لوگ کام لینا شروع کر دیتے ہیں،فضل دین منہ بسورتے ہوئے بولا، میں کیا کروں؟ انکار کرتا ہوں تو روٹیوں کا تھیلا اُتار کر رکھ لیتے ہیں۔ تب مجھے بات مانتے ہی بنتی ہے۔

 

کون کون ایسا کرتا ہے ؟شریفاں نے فضل دین کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

 

اماں ! ملک نظام کی بڈھی حاجن مجھے گھنٹہ گھنٹہ کام میں لگائے رکھتی ہے۔ یہ سب دیر اُسی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ وہ سارے گھر کے کام اکٹھے کر کے میرے انتظار میں رکھ چھوڑتی ہے، بس جاتے ہی کام پر لگا دیتی ہے۔ زیادہ دیر تووہیں ہوتی ہے۔

 

سن رہے ہوکرامت؟ لڑکا کیا کہہ رہا ہے؟ سارے گاؤں کی مزدوری اور تیری جھڑکیاں سب اسی کی گردن پر۔ خبردار جو آئندہ فضل دین کو کچھ کہا’’شریفاں کا پارہ مسلسل چڑھ رہا تھا‘‘ نظام کو صاف صاف کہہ دے، وہ حاجن کو سمجھا دے۔ ہم سے اُس کی ونگاریں (مفت کے کام) نہیں کی جاتیں۔ جتنا کام وہ لیتی ہے، اتنا فضل دین منڈی میں جا کر کرے تو روز کے دوروپے کمائے۔

 

مولوی کرامت اب بھیگی بلی کی طرح چارپائی پر سمٹا بیٹھا تھا، کسمسا کر خلا کی طرف گُھورتے ہوئے بولا، نیک بختے اب جانے بھی دے۔ میں ملک نظام سے بات کروں گالیکن یہ تو سمجھ، وہ گاؤں کا بڑاہے،سب اُس کی عزت کرتے ہیں، کوئی بندہ کُبندہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ہم سو چیزیں اُن سے لیتے ہیں۔ خیر چھوڑ اِن باتوں کو، جلدی اب کھانا دے، سرگھوم رہا ہے۔ پھر فضل دین کی طرف دیکھتے ہوئے تڑخ کر بولا، چل اُٹھ فضلو سورہ یٰسین میں جتنے متکلم حاضر کے صیغے استعمال ہوئے ہیں، یہاں میرے پاس بیٹھ کے مجھے ابھی ان صیغوں کا پتہ چلا کے بتا۔ آج اگر تو صحیح صحیح نہ بتا سکا تو دیکھ،مَیں تیری کیسے چمڑی اُدھیڑتا ہوں۔ تین مہینے ہو گئے، ابھی تک چودہ صیغوں پہ اٹکا ہے۔ مَیں نے یہ کام صرف دو مہینوں میں کیا تھا۔

 

مولوی کرامت کی جھڑکیاں کھا کر فضل دین نے اُٹھ کر لوٹے میں پانی لیا،وضو کیا۔ اُس کے بعد کمرے سے جا کر ریشمی غلاف میں لپٹا ہوا ایک بڑی تقطیع کاقرآن پاک اُٹھا لایا اور مولوی کرامت کے سامنے ٹوٹی پھوٹی چوکی پر بیٹھ کرسورہ یٰسین نکال لی۔ اِتنے میں شریفاں نے روٹی لاکے مولوی کرامت کے سامنے رکھ دی۔ مولوی روٹی کھانے کے ساتھ ساتھ فضل دین سے صیغوں کے بارے میں پوچھتا جاتا تھا اور ڈانٹتا جاتا تھا۔ بیچ میں مزید معلومات کی بہت سی دوسری باتیں بھی بتاتا گیا۔ جہاں کہیں فضل دین غلطی کرتا،وہیں ہلکا سا عصا دا ئیں بائیں ٹکا دیتا۔
3

 

غلام حیدر گرو ہرسا ریلوے اسٹیشن پہنچا تو رفیق بگھی لیے وہاں موجود تھا۔ چراغ تیلی اورجانی چھینبا بھی اپنی چَھو یوں اورگنڈاسوں کے ساتھ پاس ہی کھڑے تھے۔ راستے میں دشمنوں کے گاؤں پڑتے تھے اس لیے رفیق نے انہیں ساتھ لے لیا تھا۔ غلام حیدر کے آنے کی خبرتو کسی کو نہیں تھی مگر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اپنے والد شیر حیدر کی اچانک موت پر ضرور آئے گا۔ اس لیے دشمن کچھ بھی اوچھی حرکت کر سکتے تھے،جس کے لیے بہت سے جوانوں کا ساتھ ہونا ضروری تھا۔ اِسی خطرے کے پیش نظر غلا م حیدر سے رفیق پاولی نے کہلا بھیجا تھا کہ وہ جلال آباد تک ریل میں آنے کی بجائے منڈی گرو ہرسا میں ہی اُتر جائے، ہم وہاں لینے کے لیے پہنچ جائیں گے تاکہ دشمن رستے میں ریل پر حملہ آور نہ ہو سکے۔ ریل بیسیوں گاؤں میں رُکتی ہوئی آتی تھی۔ دشمن کہیں بھی اُس میں سوار ہو کر نامناسب حرکت کر سکتے تھے، جس کے بعد پچھتاوے کے سوا کوئی تلافی نہ ہوتی۔ ریل سے نکلتے ہی غلام حیدر کو بیس افراد کے گروہ نے گھیر لیا۔ رفیق پاؤلی نے اُسے گود میں کھلایا تھا، غلام حیدر اُسے چاچاکہہ کر مخاطب کرتا۔ ملتے ہی دونوں کے آنسو نکل آئے۔ پُشتینی ملازم ہونے کے ناتے فیقے نے غلام حیدر کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دلاسا دیتے ہوئے کہا، پُتر صبر کر، یہ اللہ کے کام ہیں۔ شیر حیدر اللہ کی امانت تھا،وہ اُسے لے گیا،تُو حوصلہ رکھ، ہم تیرے ساتھ ہیں۔ پھر سب لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،غلام حیدر گھبرا نا مت، یہ سب تیرے بازو ہیں۔ تیرے ایک اشارے پر مرنے کو تیار رہیں گے۔ اسی دوران بُوٹا تیلی غلام حیدر کی بندوق پکڑ کراُسے دیکھنے لگا۔ زندگی میں پہلی دفعہ بندوق کو ہاتھ لگایا تھا، اس لیے ہاتھ پھسلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کے بعد باری باری سب نے بندوق کو کاندھے پر رکھنے کی کوشش کی اور ہاتھوں میں تول تول کر وزن بھی ماپنے لگے۔ بالآخر رفیق پاولی نے بندوق اپنے کاندھے سے لٹکا لی۔ غلام حیدر نے آنسو ہتھیلی سے صاف کر کے پونچھ ڈالے اور بگھی پر سوار ہو گیا۔ اس کے بعد تینوں بگھیاں جلا ل آباد کی طرف دوڑنے لگیں،جن میں شیر حیدر کے اصطبل کے خاص گھوڑے جُتے ہوئے تھے۔

 

شیر حیدر جلال آباد کے تین گاؤں کا مالک تھا۔ جلال آباد میں اُس کی ذیلداری کسی بھی شک و شبے اور چیلنج سے بالاتر تھی۔ خاص تیس چالیس آدمی ہر وقت ڈانگ برچھی سے لیس اُس کے ڈیرے پر موجود رہتے لیکن عموماََ وہ لڑائی بھڑائی سے پرہیز ہی کرتا۔ کوشش یہی ہوتی کہ معاملہ صلح صفائی سے حل ہوجائے۔ ویسے بھی اتنی بڑی طاقت سے مخالفین دبکے رہتے اور بات آگے نہ بڑھ پاتی۔ اس کے علاوہ شیر حیدر کوانگریز سرکار سے جو ذیلدار ی کا پروانہ ملا ہوا تھا وہ بھی کم نہ تھا۔ بہت سے لوگ انگریز کا نام سن کر بھی گھورے میں چلے جاتے مگر شیر حیدر انگریزوں سے ربط ضبط ذرا کم ہی رکھتا۔ اُ س کے تعلقات کی حدود فیروز پور کے بڑے زمین داروں اور چھوٹے نوابوں تک تھی۔ علاقے میں بڑی زمینوں کے ما لک زیادہ تر سکھ ہی تھے۔ مسلمان یا تو مزارع تھے یا پھر بہت کم زمینوں کے مالک تھے۔ اگر کوئی بڑا زمیندار تھا،تو پھر وہ زیادہ ہی بڑا تھا،جیسے نواب افتخار ممدوٹ کا والد سر شاہنواز۔ ا لبتہ اِکا دُکا شیر حیدرجیسے بھی تھے،جو نواب تو نہیں لیکن مناسب درجے کے زمین دار ضرور تھے۔ اس طرح کے زمینداروں میں زیادہ کے پاس ذیلداری کا منصب بھی تھا،جو شیر حیدر کے پاس بھی تھا۔ شیر حیدر کا حریف مسلمانوں میں تو بالکل نہیں تھا،سوائے عبدل گجر کے، مگر وہ بھی زمیندار بہت چھوٹا تھا۔ اُس کے ساتھ اُس وقت رنجش پیدا ہوئی،جب وہ شیرحیدر سے بیلوں کی دوڑ ہارا۔ اس دوڑ میں عبدل گُجر شیر حیدر سے پچاس ایکڑ زمین ہار گیا۔

 

شیر حیدر کے زیادہ حریف سکھوں میں تھے لیکن وہ بھی کُھل کر سامنے نہیں آ سکتے تھے، سوائے سودھا سنگھ کے۔ وہی ایک شیر حیدر کا مرکزی حریف تھا، جس کے ساتھ اُس کی گہری دشمنی تھی۔ یہ دشمنی پچھلی دو نسلوں سے چلی آ رہی تھی، جب شیر حیدر کے والد سردار علی حسین بخش کے گاؤں شاہ پور اور سودھا سنگھ کے والد موہن سنگھ کے گاؤں جھنڈو والا کے درمیان کبڈی کا میچ ہوا۔ اس مقابلے میں اگرچہ سکھ مسلمان کھلاڑیوں کی کوئی تخصیص نہیں تھی،دونوں طرف ملے جلے پہلوان تھے مگر جب پھجا سنگھ کا گُھٹنا جمال خاں کے ہاتھوں کھیلتے ہوئے تڑخ گیا تو نعرہ بازی شروع ہو گئی۔ نعرہ بازی کے دوران لڑائی کا سماں بن گیا۔ اس کے بعد دونوں طرف سے برچھیاں اور ڈانگیں نکل آئیں۔ لڑائی میں موہن سنگھ کے گاؤں کا ایک بندہ مر گیا۔ پھردونوں طرف سے پرچے ہو گئے۔ چونکہ پورے پورے گاؤں لڑائی میں شامل تھے لہٰذا قتل ایسے ملوے میں بدل گیا جس کے قاتل کا پتہ نہ چل سکا۔ دونوں گاؤں میں بہت عرصے تک مقدمے بازی کے بعد عارضی طور پر صلح ہو گئی مگر دلوں کے اندر کینے کی آگ جلتی رہی، جو مستقل دشمنی کی شکل اختیار کر گئی۔ اس دشمنی میں دونوں پارٹیاں گاہے گاہے ایک دوسرے کا تھوڑا بہت نقصان کرتی رہیں۔ وہی دشمنی سودھا سنگھ اور شیر حیدر کو وراثت میں ملی اور اب شیر حیدر کی وفات کے بعد غلام حیدر کے کھاتے میں پڑ گئی۔ سردار سودھا سنگھ کی زمین شیر حیدر سے زیادہ تھی لیکن دو تین دفعہ کی لڑائی میں پلڑا شیر حیدر کا ہی بھاری رہا۔ عدالت کچہری میں بھی سودھا سنگھ کو کچھ برتری حاصل نہ ہوسکی، اس لیے اُس کے اندر انتقام لینے کی کسک موجود رہی۔ اب جو اُس نے شیر حیدر کے مرنے کی خبر سنی تو باغ باغ ہو گیا۔ فوراََ جگبیر سنگھ، شام سنگھ، پیت سنگھ اور فوجا سیٔو کو بلا کر شراب کی محفل سجا دی۔ پورے دو گھنٹے شراب پیتے رہے اور بکرے بلاتے رہے۔ نشہ اُترا تو مستقبل کے صلاح مشورے شروع کر دیے۔

 

سورج نے نیزے کی اَنی چھوڑ دی تھی اور سائے نے مشرق کی طرف قد بڑھاناشروع کر دیا تھا۔ نیم کے پُرانے درخت نے احاطے کا سو فٹ قطر اپنے گھیرے میں لے کر دھوپ کو روک رکھا تھا۔ اس لیے چار پائیاں اور مُونڈھے مشرقی دیوار کے ساتھ لگ گئے کیونکہ وہاں ابھی دھوپ کافی تھی اور نیم کا سایہ دو گھنٹے تک وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ احاطے کا صحن بہت بڑا تھا اور باریک انیٹوں سے سارے کا سارا فرش کیا گیا تھا۔ اس لمبے چوڑے صحن کے ایک کونے میں پانی کا بڑا گہرا کنواں بھی تھا،جو نہ صرف سودھا سنگھ کی حویلی کی ضروریات کو پورا کرتا بلکہ سب گاؤں والے بھی اس کنویں کو استعمال کرتے اور کسی کو روک ٹوک نہ تھی۔

 

سردار سودھا سنگھ متروں کے ساتھ سردی کی دھوپ میں بیٹھ کر معاملات پر غور ہونے لگا۔ حویلی کے سب دروازوں کی بَلیاں چڑھا دی گئیں۔ احاطے کی دیواریں پکی اینٹ سے چن کر بیس فٹ تک اونچی کی گئیں تھیں لیکن اُن پر کسی وجہ سے پلستر نہیں کیا گیا تھا۔ اینٹیں بارشوں اور زمانے کی ہواؤں کے سبب سیاہ ہو چلیں تھیں۔ دیواروں میں بھی پیپلوں کی شاخیں نکل آئی تھیں۔ ویسے بھی دیواروں کو آرائش یا پلستر کرنا عموماََ دیہاتوں میں ضروری نہیں سمجھا جاتا البتہ احاطے کے گیٹ یا مرکزی دروازے پر خاص توجہ دی جاتی ہے، وہ سردار سودھا سنگھ نے اپنی بساط کے مطابق اچھی خاصی دی تھی۔ شیشم کی پکی لکڑی کا دروازہ، جس کی رنگت پالش کے بغیر ہی اتنی سیاہ تھی کہ توّے کی طرح چمکتی تھی۔ چو گاٹھ ڈیڑھ فٹ مربع چوڑے تھے اور تختے تین تین انچ موٹے۔ تختوں پر پیتل کے دو دو انچ انچ موٹے سینکڑوں کیل اُس کی ہیبت میں اس طرح اضافہ کرتے کہ بیس فٹ اونچا اور بارہ فٹ چوڑا دروازہ اژدھے کی طرح نظر آرہا تھا۔ دروازے کی ڈیوڑھی کے اُوپردائیں بائیں دو بُرج تھے۔ اُن پرپتھر کے دو شیر منہ کھولے کھڑے تھے، جیسے ابھی کچھ ہڑپ کرنے والے ہوں۔ نئے آنے والے کو تو بالکل اصلی دکھائی دیتے اور وہ ایک دفعہ سہم جاتا۔

 

سردار سودھا سنگھ نے اپنی مونچھوں کو رسی کی طرح بَل دے کر ہلکا سا جھٹکا دیا پھر فٹ بھر لمبی داڑھی کے اندر انگلیاں ڈال کر زور سے ٹھوڑی کھجائی اور سامنے پڑے مُونڈھے پر اپنی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے چھدو کو آواز دے کر دروازوں کوپہرا بند کرنے کو کہا۔ اُدھر چھدو لنگڑاتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا،اِدھر سودھا سنگھ نے جگبیر سنگھ کو مخاطب کرکے اپنی بات شروع کی،جو پہلے ہی اس انتظارمیں تھا کہ کب سودھا سنگھ اس سے اصل بات کی طرف آتا ہے۔
جگبیرے واہگرو نے اس سے اچھا موقع نہیں دینا، شیر حیدر کا مُنڈا(لڑکا) ابھی ندان (کم عمر)ہے۔ تکڑے (ہمت کر کے) ہو کے اپنا وار کر دیں، آگے کی شرماں گرو جی رکُھو گے۔

 

جگبیر آگے کی طرف جھکتے ہوئے دھیمے دھیمے بولنے لگا، سردار جی میرا ایک مشورہ کبھی ضائع نہ کرنا،بانس کی کونپل زمین سے نکلتے ہی کاٹ دو ورنہ اُس کے نیزہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ چک جودھا پور میں آج ہی بندے بھیج کے غلام حیدر کی مونگی کی فصل وران(تباہ) کر دو۔ بیس ایکڑ مونگی کو پہلا دھکا ابھی لگا دو۔ جوگڈوں پر لاد کر لا سکتے ہیں،وہ لے آئیں،باقی کو آگ لگا دیں۔

 

پیت سنگھ،جس کے سَر کے بال گھنے ہونے کے ساتھ ڈب کھڑبے بھی ہو چکے تھے، اُس نے اپنے زانوؤ ں پر ہاتھ رکھ کر گفتگو میں حصہ لیا، سردارسودھا سنگھ! مُنڈے کو سر ہی نہ اُٹھانے دو۔ مَیں تو کہتا ہوں، دیر کرناگرو جی کے ویریوں کا کام ہے۔ میرے تو جی میں ساہ اُس وقت آئے گا،جب شیر حیدر کے مُنڈے کو فلانگ (تباہ) کر دیں گے۔

 

ابھی پیتا سنگھ بول ہی رہا تھا کہ بیچ سے بیداسنگھ نے اُس کی بات کاٹ کر کہا، سردارسودھا سنگھ! میری کرپان تو بڑے ورھوں سے پیاسی ہے۔ واہگرو جانتا ہے، مَیں نے اس دن کے لیے کتنی منتیں مانیں۔ روز اس کی دھار تیز کرتا ہوں۔ جب تک یہ کسی مُسلے کا لہو نہیں پی لیتی،واہگرو کی سونہہ ِاسے سہج نہیں ملے گی۔

 

فوجا سیؤ یہ باتیں آرام سے بیٹھا سنتا رہااور خاموشی سے داڑھی کھُجاتا رہا۔ سودھا سنگھ نے فوجا سیؤ کو مسلسل خموش بیٹھے دیکھا تو مخاطب کرکے تائید کی خواہش کی۔ فوجا سئیو نے پہلے بائیں ہاتھ سے اچھی طرح کان میں کھجلی کی اور ایک دفعہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر چند منٹ خاموشی سے سودھا سنگھ کی طرف دیکھتا رہا اور آخر کارسہج سے بولا،سودھے آگے تیری مرضی، پر میری مانو تو یہ موقع ٹھیک نئیں۔ شیر حیدر کے بندے اس وقت زیادہ ہشیار ہوں گے۔ اگر وار اوچھا جا پڑا تو بڑی نموشی ہوگی۔ شیر حیدر کا مُنڈا ضرور ندان ہے پر فیقا اور اُس کے بیلی متر تو ندان نئیں۔ وہ تم سب سے زیادہ چاتر ہیں۔ ویسے بھی لوگ چنگا نئیں جانیں گے اور سرداری کو مِہنا آئے گا۔ تھوڑے دن ٹھہر کے حالات کی ٹوہ لے لو،پھر جو گرو جی کی منشا ہوگی، بڑے دن پڑے ہیں بدلہ لینے کو۔

 

پیت سنگھ بے صبری سے فوجا کی بات سن رہا تھا، ایک دم جوش میں آگیا، فوجے آج تک تُو نے بزدلی کے علاوہ کوئی مشورہ دیا ہے ؟ واہگرو کی سونہہ، ہم اب تیری بات نئیں مانیں گے۔ فیقا چاتر ہے تو ہووے، آخر وہ ہے تو پاولی کا پاولی۔ سرداروں کے مُوت کے برابر اُس کی عزت نہیں۔ اُس کی عقل اُس وقت تک کام کرتی تھی جب تک شیر حیدر کا سر پر ہاتھ تھا۔ کمی کمین خود کچھ نہیں ہوتا۔ اُس کی دلیری اُس کتے جیسی ہوتی ہے، جو مالک کی ہلا شیری کے بغیر گیدڑ سے بھی ہولا ہوتا ہے۔ کہو تو فیقے پاولی کو کل ہی بودیوں سے پکڑ کر سردار سودھا سنگھ کے آگے پھینک دوں؟ باقی رہا سرداری کو مِہنا،تو اُس کے لیے ایک بات دھیان میں رکھ،جنگ میں سب جائز ہے۔

 

اَو پیتے بیٹھا رہ تُو، فوجا سیؤ غصے سے بولا، پھر تُو تو ایک طرف ہو جائے گا، بھگتان تو سودھا سنگھ کو ہی دینا پڑے گا۔ تیرے سر میں بھیجا نہیں،بھوسا اور گوبر بھرا ہے۔ جب دیکھو ڈانگ برچھی اور کرپان کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی چوہا تک نہیں مارا تو نے۔ دو گھونٹ کیا پی لیتے ہو،دُم پر کھڑے ہو جاتے ہو( سودھے کی طرف مخاطب ہو کر)دیکھ سردار سودھاسنگھ، مَیں تو تجھے یہ صلاح نہ دوں گا،آگے تیری مرضی۔

 

پیت سنگھ فوجے کا طعنہ سن کر سُرخ ہو گیا، فوراً کرپان کھینچ کر بولا،فوجے تجھے مَیں پِتا کے برابر جان کے لحاظ کرتا ہوں، پر تیری منشا عزت کروانے کی نہیں۔

 

او رہنے دے،فوجا دوبارہ بولا،تو نے اپنے پِتا کی عزت کبھی نہیں کی، میری کیا کرے گا۔ بے چارہ جیٹھ ہاڑ کی ننگی دوپہروں میں کنکاں گاہتے اور تتی زمین پرچوتڑ گھساتے سڑ سڑ کے مر گیا،تجھے تو دارو اور بوٹی کے سوا کوئی لہنا نہیں۔

 

فوجے مجھے غصہ نہ دلا ورنہ اسی وقت تیری رَت کے نگال بہادوں گا،پیت سنگھ ایک دم مونڈھے سے اُٹھا اور کرپان پکڑ لی۔

 

دونوں کو جھگڑتا دیکھ کر سودھا سنگھ نے بات کاٹ دی اور گرج کر پیت سنگھ کی طرف منہ کر کے بولا۔ ناں پر مَیں نے تمھیں آپس میں لڑائی کے لیے یہاں اکٹھا کیا ہے یا صلاح مشورے کے لیے؟ اپنی بکواس مکا کے غلام حیدر کا اُپا کرو بس۔

 

یہ کہہ کر سودھا سنگھ نے دوبارہ چھدو کو آواز دی، جو سودھا سنگھ کی سفید گھوڑی کو دانہ کھلانے میں مگن تھا۔ چھدو آواز سنتے ہی لنگڑاتا ہوا دوڑ کر سردارسودھا سنگھ کی چارپائی کے دائیں طرف آکھڑا ہوا۔ چھدّو کو پتا چل چکا تھا سردار جی کیا کہنا چاہتا ہے مگر وہ پوری ہدایت لینے کے لیے باادب کھڑا رہا۔

 

سردار سودھا سنگھ نے اُسے متھا سنگھ کو بلا کر لانے کے لیے کہا تو اُس نے جلدی سے پیچھے مڑ کر دوڑ لگا دی اور باہر نکل گیا۔ اُس کے باہر نکلنے کے بعد پیت سنگھ نے اُٹھ کر پھر دروازے کی بَلّی گرا دی اور پورے منصوبے پر غور کرنے لگے مگر فوجا سیؤ ہوں ہاں کے سوا چپ بیٹھا رہا۔

 

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *