Laaltain

نولکھی کوٹھی – نویں قسط

14 مئی، 2017

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

 

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

(16)

 

متھرا صاحب مجھے پانچ دن کے اندر سردار سودھا سنگھ کی گرفتاری چاہیے، ولیم اپنی ٹانگیں میز پر بچھا کراور کمر کو کرسی پر لٹا کر متھراداس سے مخاطب ہوا،کیا خیال ہے آپ کا یہ کام ممکن ہے؟ (پھر تھانیدار کی طرف منہ کر کے )کیا یہ بات مناسب تھی بیر سنگھ، جس شخص پر تم چھ دن پہلے تین سو دو کا پرچہ دے چکے ہو۔ اُس کی گرفتاری کے لیے تم چیونٹی بھر نہیں رینگے۔ اس کے لیے کیا میں لاہور سے تھانیدار بلواؤں؟

 

تھانیدار بیر سنگھ کانپتے ہوئے فائل آگے بڑھا کر بولا، سر یہ دیکھیں میں کارروائی کر رہا ہوں لیکن سودھا سنگھ کی گرفتاری تھوڑا سا مشکل کام ہے۔ مقابلے کا خطرہ ہے مگر میں اُسے نہیں چھوڑوں گا۔

 

کیا اس کے بارے میں تم نے ہمیں رپورٹ دی؟ ولیم کالہجہ انتہائی سخت ہو چکا تھا، یا تم سمجھتے ہو سودھا سنگھ کو گرفتار کرناآپ کے معدے کے لیے بُرا شگون ہے کیونکہ غلام حیدر نے تمھارے لیے کبھی دیسی شراب کے مٹکے نہیں بھجوائے حالانکہ تم اُس کے بہت زیادہ حق دار تھے اور سودھا سنگھ کا ایک آدمی اسی کام پر اُس کا تنخواہ دار ہے۔( پھر متھرا کی طرف مخاطب ہو کر) متھرا صاحب ایک بات طے ہے، مَیں یہاں صرف سکھ مسلمان کے جھکڑے چکانے نہیں آیا۔ مجھے اور بہت سے کام ہیں، اُنہی میں سے ایک یہ بھی ہو سکتا ہے۔ سود ھا سنگھ میرے لیے اور بہت سے مجرموں کی طرح ایک مجرم ہے اور بس۔ اگر آپ دونوں یہ کام نہیں کر سکتے تو گورنمنٹ کی طرف سے آپ کو اجازت ہے کچھ اور کام کیجئے۔ گورنمنٹ کوئی دوسرا آدمی حاصل کر لے گی۔

 

بیر سنگھ نے اپنی خاطر اس انداز سے ہوتے دیکھی تو لرز گیا اور کچھ دیر تک سر جھکاکر سوچنے کے بعد ہمت کر کے بولا “سر ہم گورنمنٹ کی بے عزتی نہیں ہونے دیں گے۔ سودھا سنگھ کو اس کی حویلی میں گرفتار کر کے لاؤں گا۔ آپ با لکل فکر نہ کریں۔میں نے سب تحقیق اچھی طرح کر لی ہے۔ وہ اس معاملے میں صاف مجرم ہے۔جما سنگھ نے مجھے مخبری کر کے سب کچھ بتا دیا ہے۔

 

یہ جما سنگھ کون ہے؟ ولیم نے اب کہ کرسی سے اُٹھتے ہوئے پوچھا اور اپنی بیت ٹھوڑی کے نیچے ٹکاکر اُسے میز کا سہارا دے کر کھڑا ہو گیا۔ اب ولیم کے لہجے میں فوراً نرمی آگئی۔وہ جانتا تھا گھی کو تھوڑا سا گرم کیا ہے تو اُس نے برتن کی سطح چھوڑ دی تھی۔اس لیے ولیم نے تھانیدار کے ساتھ شفقت کا سا انداز اپنا لیا تھا، ہمیں یقین ہے بیر سنگھ آپ نے کوئی بہتر تدبیر سوچی ہو گی لیکن جلدی۔

 

ولیم کو نرم پڑتے دیکھ کر تھانیدار کو مزید بولنے کی ہمت ہوئی۔ سر یہ جما سنگھ سردار فوجا سیؤ کا بھتیجا ہے۔ دونوں جھنڈو والا میں ہی رہتے ہیں۔ فوجا سیؤ سردار سودھا سنگھ کے دن رات کا یا ر ہے۔ حملہ کرنے سے پہلے اُس سے بھی مشورہ لیا گیا تھا اور فوجا سیؤ نے اُسے اس کام سے روکا تھا۔ مگر پیت سنگھ اور جگبیر نے اُسے حملہ کرنے پر اُکسایا اور سر، جب آپ جھنڈو والا گئے تھے۔ آپ کے بعد وہاں فوجا سیؤ اور جگبیر کی منہ ماری ہوئی تھی۔ اُنھوں نے فوجا سیؤ کو بے عزت کر کے حویلی سے نکال دیا۔اِسی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے اُس کے بھتیجے نے مخبری کر دی۔

 

تو کیا جما سنگھ کو فوجا سیؤ نے آپ کے پاس بھیجا؟ولیم نے مزید ٹٹولتے ہوئے پوچھا۔

 

ناں سر، وہ تو یہ کہہ رہا تھا اِس بات کی خبر چاچے فوجے کو بالکل نہ ہو کہ مَیں نے آپ کو بتایا ہے، تھانیدار نے اب سر آگے کر کے سرگوشی کے انداز میں کہنے کی کوشش کی جیسے کوئی سُن رہا ہو، اُس نے بتایاہے اِن کے اور بھی بہت خطرناک ارادے ہیں۔ اگر سودھا سنگھ کو جلد نہ پکڑا گیا تو وہ غلام حیدر کو برباد کر دے گا۔ اُسے شیر حیدر پر بڑا وَٹ ہے سرکار۔وہ غلام حیدر سے اُس سب کاحساب چُکانا چاہتا ہے جو شیر حیدر سے اُسے ماتیں ہوئی ہیں۔
ہوں! ولیم دوبارہ کرسی پر بیٹھ کر سوچنے لگا۔

 

ولیم تھانیدار کی معلومات سے متاثر ہوا۔ تھانیدار یہ سب کچھ کبھی نہ اُگلتا اگر ولیم اُس کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہ کرتا۔ اُسے تو سردار سودھا سنگھ کی خوشی منظور تھی اور اُس نے جما سنگھ کے بارے میں سودھا سنگھ کو مطلع بھی کرنا تھا۔مگر جما سنگھ کی خوش بختی کہ ولیم نے تھانیدار کو دفتر میں جلد طلب کر کے اُس کی ساری خواہش پر پانی پھیر دیا۔

 

ولیم نے کچھ دیر خموشی کے بعد متھرا اور تھانیدار دونوں کو مخاطب کر کے کہا، آپ دونوں کیس کو فوراً ہینڈل کرو۔ مَیں آپ کو سودھا سنگھ کی گرفتاری کے لیے پانچ دن دیتا ہوں۔ اس سے زیادہ میرے پاس وقت نہیں۔ اب آپ جائیں اور دیکھو اگر جما سنگھ کی خبر باہر نکلی تو اُس کے ذمہ دار آپ دونوں ہوں گے۔ گورنمنٹ کا مخبر اُس کی آنکھ ہوتا ہے اور اپنی آنکھ کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

 

متھرا اور تھانیدار سلام کر کے باہر نکلے تو ولیم کچھ دیر تک کرسی پر سر ٹکائے بیٹھا رہا۔ دس پندرہ منٹ بیٹھنے کے بعد کرسی سے اٹھا، سر پر ہیٹ رکھا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ ولیم کو کمرے سے نکلتے ہوئے افسروں اور کلرکوں نے دیکھا تو سب مؤدب ہو گئے۔ نجیب شاہ بھاگ کر ولیم کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ ولیم اُسی خاموشی اور بغیر تأثر کے دفتر کی عمارت سے نکل کر سامنے والے گراؤنڈ میں کھڑا ہو گیا اور پوری عمارت کا بغور جائزہ لینے لگا۔ عمارت سُرخ اینٹوں سے تیار کی گئی تھی، جس کے چاروں طرف پچیس فٹ کھلے دالان در دالان برآمدے تھے۔ برآمدوں کے ستون آٹھ پہلو میں انتہائی صفائی اور کاریگری سے تیار کیے گئے تھے اور اُن کی چھتیں پچیس فٹ اونچی تھیں۔ برآمدوں سے آگے اور کمروں کے سامنے زمین سے تین فٹ اونچی چوکی چلنے کے لیے بنائی گئی۔اسی طرح وہ چوکی برآمدوں سے باہر کی سمت بھی موجود تھی،جو چھوٹی سُرخ اینٹوں ہی کی بنی ہوئی تھی مگر پتھر کی چوکی سے کہیں خوبصورت تھی۔ برآمدوں سے آگے چوکی کے سا تھ ہی دفتر کے کمرے شروع ہو جاتے تھے، جن میں تحصیدار، نائب تحصیلدار، محکمہ مال اور کچہری انتظامیہ کے کمرے تفصیل وار کوئی سو کے قریب ہوں گے۔ آفیسرز کے کمرے قدرے بڑے اور کھلے تھے جبکہ کلرکوں کے کمرے انتہائی تنگ لیکن چھتوں کی اونچائی سب کی ایک جیسی تھی۔ گرمی کے دن اونچی چھتوں کے کمروں میں آسان گزر جاتے ہیں۔ اس عمارت کو اگر غور سے دیکھیں تو باہر سے انتہائی خوبصورت لیکن اندر سے بدنما تھی۔آفیسرز کے کمروں کے سوا ہر کمرہ کاغذوں کے بوسیدہ پلندوں، میل جمی ہوئی فائلوں اور گرد و غبار سے اٹی ہوئی میز کرسیوں کا عجائب خانہ تھا۔ ولیم نے آتے ہی ایک آدھ دفعہ کلرکوں کے کمروں کا جائزہ لے لیا تھا۔ جس میں اُسے شدید ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر کلرک کی میز جگہ جگہ سے چھدی ہوئی تھی۔ غالباً جو نیا کلرک آتا وہ سب سے پہلے اپنا نام اُس پر کندہ کرنے کی کوشش کرتا۔ ہر میز کی دراز گھی اور تیل سے لتھڑی ہوئی تھی کہ گھروں سے لائے ہوئے کھانے رکھنے کی یہ درازیں بہترین مصرف تھیں۔ گویا میز کی ہر دراز میں میل کچیل اور بدبو کی ایک دنیا آباد تھی۔ اِسی طرح ہر میز یا کرسی پر جا بجا کیلوں اور لوہے کی پتریوں کی ٹھونکا ٹھانکی ہوئی تھی۔ دراصل کسی بھی کلرک نے اس طرف کبھی توجہ نہ دی کہ پرانی کرسی یا میز کو بدل لیا جائے بلکہ وہ خود ہی اُن کی مرمت کرتے رہتے تھے۔

 

اِس سلسلے میں ہتھوڑیاں اور کیلیں جا بجا کمروں سے برآمد ہو سکتی تھیں۔ نئی چیز منگوانے کے لیے چونکہ درخواست دینا پڑتی، یا پھر لمبے چوڑے نوٹ لکھنا ہوتے، جو اگرچہ کرسیوں کی خود ساختہ مرمت سے کہیں آسان تھے مگر وہ کام مشکل ہی تصور کیے جاتے کہ جب تک درخواست اُوپر سے ہو کر واپس محکمہ خزانہ تک آتی، کلرک کا تبادلہ ہو چکا ہوتا۔ اس لیے کوئی بھی یہ ذمہ داری قبول نہ کرتا اور اُسی فرنیچیر پر وقت کاٹ لیتا۔ ولیم نے چلتے چلتے پوری عمارت کا چکر کاٹ لیا۔ چہل قدمی کے دوران قریب قریب تمام آفیسر ولیم کے جلو میں شامل ہو چکے تھے۔ عمارت کو چاروں طرف سے دیکھنے کے بعد ولیم ایک بڑے صحن میں کھڑا ہو گیا۔جس میں سڑی گھاس اور گھاس کے ارد گرد کیاریوں میں گیندے کے سوکھے ہوئے پودے کھڑے تھے۔ کچھ دیر یہاں رکنے کے بعد اُس نے ادھر اُدھر عمارت سے ذرا ہٹ کر چہل قدمی شروع کر دی، جہاں چھوٹے چھوٹے قطعات میں کہیں ٹماٹر اور کہیں پیاز یا لہسن کاشت کیا گیا تھا۔ اکثر جگہیں خالی تھیں، جن میں بے کار جڑی بوٹیاں اور جھاڑ جھنکاڑ تھا۔ جن جگہوں پر سبزیاں تھیں، اُنھیں بھی زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ دراصل یہ سبزیاں افسروں کی بیگمات نے دفتر میں کام کرنے والے اُن چپڑاسیوں کی کام چوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، لگوائی تھیں، جنھیں دفتر کا کام بار محسوس ہوتا لیکن افسروں کے بچے کھیلانا اور اُن کی بیگمات کا کام کرنا ان لوگوں کے دائیں بائیں ہاتھ کے کام تھے۔

 

درخت نہ ہونے کے برابر تھے۔ البتہ جڑی بوٹیوں اور عک کے پودوں کی بہتات سے دفتر کی ویرانی کا ازالہ بہت حد ہو چکا تھا، جو ولیم کی طبیعت پر اچھا اثر نہیں ڈال رہا تھا۔

 

یہ چہل قدمی ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔ جس میں ولیم کے ماتحت افسروں نے اپنی خوشی اور نوکری کے جبر کے باعث حصہ لیا۔ ایک جگہ جہاں رہٹ چل رہا تھا،ولیم رُک گیا اور تمام افسروں کی طرف مخاطب ہو کر بولا،مسٹرز میرا خیال ہے، جو کچھ میں دیکھ اور سوچ رہا ہوں آپ اُس سے بے خبر ہیں۔ میں یہاں کام کرنے آیا ہوں۔ گورنمنٹ کے لیے، لوگوں کے لیے اور آپ کے لیے۔ آپ سب گورنمنٹ کے اِس لیے ملازم ہیں کہ احکام پر عمل کرانے میں میرے معاون ہوں۔ (پھر کچھ دیر رُک کر اور بیت کو بائیں ہتھیلی پر مار کر) کیا آپ اس علاقے کو د یکھ رہے ہیں؟ دُور تک ویرانی اور بیزاری نظر آ رہی ہے۔ ایسی صورت میں اگر ہم کام نہ کریں تو ہمارا یہاں کیا جواز بنتاہے ؟مجھے افسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو کاشت کاری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ (نائب تحصیلدار مدن لعل کی طرف منہ کر کے) مدن لعل کل صبح نو بجے نہر کے عملے کی میٹنگ بلواؤ اور کچھ سرکردہ زمینداروں کو بھی جمع کرو۔ میں جلال آباد میں لہلہاتے کھیت اور باغات دیکھنا چاہتا ہوں( نجیب شاہ کی طرف دیکھ کر )تحصیل کمپلیکس میں ایک دو رہٹ لگوانے کا بندوبست کرو۔ ہم یہاں چوہوں سے مورچے کھدوانے نہیں آئے۔ مجھے ایسی جگہوں سے وحشت ہوتی ہے، جہاں رات کتوں اور گیدڑوں کے لشکر چوکیاں بھریں۔

 

ولیم کاحکم ملتے ہی ہر ایک نے اپنی نوٹ بکوں پر پُھرتی سے اندراجات شروع کر دیے۔

 

(17)

 

دو بگھیاں اور دس گھوڑے شیخ نجم علی کی کوٹھی کے سامنے رکے تو ادھر اُدھر کے راہگیر حیرت سے دیکھنے لگے۔ اُن کی نظر میں کوئی بہت بڑا رئیس آیا تھا۔ بعض لوگ اپنی دکانوں سے نکل کر بازار میں کھڑے ہو گئے مگر غلام حیدر نے کسی کی طرف توجہ نہ دی، بگھی سے اُتر کر سیدھا دروازے کی زنجیر ہلا دی۔ رفیق پاولی اور دوسرے سب آدمی بھی اپنی سواریوں سے نیچے اُتر آئے۔ رفیق پاولی “علی منزل” کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔کوٹھی کی لمبائی سو میٹر تک پھیلی ہوئی تھی۔جس کے نیچے کپڑے، پرچون اور لوہے والوں کی بیسیوں دکانیں قطار میں دور تک نظر آ رہی تھیں۔کوٹھی انڈے سے زیادہ سفید تھی اور تین منزلوں پر مشتمل اتنی اونچی کہ اُوپر تک دیکھنے کے لیے اُسے اپنی پگڑی سنبھالنا پڑی۔ مرکزی دروازہ مغلیہ قلعے کا ہاتھی گیٹ معلوم ہوتا تھا۔ بیضہ گیر اُوپر نیچے لمبی اور چوڑی ڈاٹوں سے کم از کم تیس فٹ تک چڑھا یا ہوا۔ جس کے اُوپر دونوں سروں پر دو ببر شیرمنہ کھولے دھاڑ رہے تھے۔ شیر سیمنٹ اور چونے کے ہونے کے باوجود اِن کے بنانے میں ایسی کاریگری دکھائی گئی تھی کہ یہ بالکل اصلی لگتے۔ اِس کے علاوہ نیچے سے لے کر اُوپر کی دو منزلوں تک دیواروں میں بے شمار محرابیاں اور ڈاٹیں مزید تھیں۔اِن ڈاٹوں پر اُوپر تلے کئی طاق تھے،جن پر اس قدر نفاست سے کام کیا گیا تھا کہ ایک ایک طاق مہینوں کی محنت کا نتیجہ نظر آ رہا تھا۔ ان تین تین ڈاٹوں کے اندر کہیں محض سجاوٹ کے لیے جالیاں تھیں اور کہیں بیچ بیچ دیو دار کی لکڑی کی لا تعداد کھڑکیاں کھلتی تھیں۔ انھی کھڑکیوں، جالیوں اور الماریوں سے ہوا اور روشنی کوٹھی کے اندر جاتی۔ اس کے علاوہ پوری کوٹھی اُوپر سے لے کر پاؤں کی اینٹوں تک سفید چونے اور ابرق میں نہلا دی گئی کہ دیکھنے والے کی آنکھیں سفید روشنی میں بہہ جاتیں۔ یوں تو غلام حیدر کی حویلی بھی کم نہ تھی مگررفیق پاولی نے سوچا کہ جتنی عمدہ اور شاندار یہ کوٹھی ہے اورجتنا کرایہ شیخ صاحب کو اس ایک ایکڑ سے ماہانہ آ جاتا ہو گاِ اتنی تو شیرحیدر کے دو گاؤں کی آمدنی بھی مشکل سے تھی۔

 

انہی خیالوں میں گم اُسے پتہ ہی نہ چلا کب وہ سب ایک بڑے ہال نما کمرے میں نرم نرم چوڑی اور لمبی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔بڑی بڑی لالٹینیں اور کانچ کے بھاری فانوس اونچی سفید چھت سے لٹکے ہوئے تھے۔ قدموں کے نیچے فرش پر بھی بڑی صاف اور لال رنگ کے پھول بوٹوں والی نرم دریاں بچھی تھیں۔ جن کے اندر آدھا پاؤں گھُس جاتا۔ رفیق پاولی کوٹھی اور کمرے کی ہیبت میں ہی گم تھا۔ سوچ رہا تھا کہ غلام حیدر کا دوست بھی کتنے بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ سچ ہے بڑے پانیوں میں بڑی مچھلیاں۔ اس سے پہلے اُس کی اتنے بڑے لوگوں سے نہ تو ملاقات ہوئی تھی اور نہ ہی ایسے اچھے گھر دیکھے تھے۔شیر حیدر کے تو جتنے دوست یار تھے، وہ صرف گاؤں اور دیہاتوں میں رہنے والے زمیندار تھے۔ اُن کے گھر وں سے تو شیر حیدر کی حویلی کئی درجے بہتر تھی۔ اُس نے سوچا واپس جا کر وہ غلام حیدر سے بھی ایک اِسی طرح کا بڑا سا کمرہ حویلی کے بیرونی احاطے میں بنوائے گا۔ غلام حیدر کے بڑے بڑے دوستوں کو بٹھانے کے لیے ڈھنگ کی جگہ تو ہونی چاہیے۔ اب چاہے اس پر ایک گاؤں کی سال بھر کی آمدنی ہی کیوں نہ لگ جائے،وہ ایسا کمرہ تو غلام حیدر سے بنوا کر رہے گا۔انہی سوچوں میں اُسے بالکل نہیں اندازہ تھا کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے۔ اچانک غلام حیدر نے رفیق پاولی سے مخاطب ہو کر کہا، چاچارفیق یہ میرا دوست نجم علی ہے۔ غلام حیدر کی آواز سن کر رفیق پاولی خیالات سے چونکا۔ اُس نے نظریں اُوپر اُٹھا کر دیکھا تو نجم علی اُس کی طرف ہاتھ بڑھائے کھڑا تھا۔ بالکل غلام حیدر کی دوستی کے ہی قابل تھا۔ نجم علی کو دیکھ کر رفیق پاولی تو خیالات کی دنیا سے باہر نکل آیا مگر دوسرے لوگوں کی توجہ ڈرائنگ روم یا بڑے کمرے ہی پر مرکوز رہی۔
نجم نے سب کے ساتھ سلام دعا کے بعد ملازم سے کہا، صاحب کے بندوں کے لیے کھانا پانی کابندوبست کرواور(ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے) یہ نہانے دھونے کا کمرہ ہے،سب منہ ہاتھ دھو لو۔ ان سے فارغ ہو کر نجم علی غلام حیدر کو دوسرے کمرے میں لے گیا اور بیٹھتے ہوئے بولا،خیر ہے غلام حیدر،لاہور سے کب آئے ؟ آج فوجاں کس طرف چڑھی ہیں۔یہ چھوَیاں، ریفلاں؟ کوئی مسئلہ ہو گیا کیا؟

 

غلام حیدر نے مدھم آوازمیں سر اُوپر اٹھاتے ہوئے کہا “ نجمے یاراب تو شائد لاہور مکمل طور پر چھوڑنا پڑ جائے، ابا فوت ہوگیا۔

 

اِنَّ للہ، کب؟ نجم علی نے حیرت سے پوچھا۔

 

آج چھٹا دن ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی ستم یہ ہوا کہ علاقے میں دشمنی مزید پیدا ہو گئی۔ دشمنوں نے میرا ایک بندہ مار دیا، بیس ایکڑ مونگی کی فصل تباہ کر دی، کچھ لے گئے، باقی جلا گئے۔

 

لاحول ولا،َ یہ کس وقت ہوا ؟ نجم علی ہونق سا ہو گیا۔

 

ابا کے قل والی رات، غلام حیدر سیدھا بولتا چلا گیا، سردار سودھا سنگھ ابا کا بڑاواہیات دشمن ہے۔ منڈی گرو ہر سا کے پاس ہمارے گاؤں جودھا پور کے قریب ہی اُس کا گاؤں ہے،جھنڈو والا نام سے۔ ابا سے کئی دفعہ منہ کی کھا چکا تھا۔ اب وہ فوت ہوئے تو اُس نے عین پھوڑے پر ضرب ماری ہے۔ میں تو تعزیت کرنے آئے مہمانوں اور ختم درود میں اُلجھا ہو اتھااور خیال تک نہیں تھا کہ کوئی اس طرح کی حرکت بھی کرے گا مگر اُس نے اپنا کام دکھا دیا۔فصل بر باد کرنے کے ساتھ ساتھ میرا ایک بندہ بھی مار دیا۔

 

پھر اب کیا ارادہ ہے؟ نجم علی نے پوچھا، پرچہ درج کرایا؟

 

پرچہ تو درج کروا دیاہے۔ غلام حیدر نے بتانا شروع کیا، پر نجمے لگتا ہے،سودھا سنگھ کے ہاتھ لمبے ہیں۔ تھانیدار سے لے کر اُوپر تک سب اُسی کے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ ابا کیا فوت ہوا، سب نے نظریں پھیر لیں۔ اب تو خبریں ہیں کہ چوہے بھی شراب کے مٹکوں سے نکل نکل کر سامنے آ رہے ہیں۔
تھانیدار سے بات کی،نجم نے پوچھا۔

 

تھانیدار چھوڑ،اسسٹنٹ کمشنر تک سے بات کی مگروہ اپنی اکڑ میں ہے۔ نیا نیا پہلی دفعہ ہماری تحصیل میں ہی آ لگاہے، یہیں تجربہ سیکھنے کے لیے۔ مجھے لگتا ہے وہ کچھ نہیں سیکھے گا۔ اُس کے سیکرٹری نجیب شاہ نے بتایا ہے کہ اُسے باغوں اور فصلوں کی بیماری ہے۔امن و امان کی طرف ذرا دھیان نہیں۔ اگر اسی طرح چلا تو تھوڑے دن نکالے گا۔ کیونکہ جلال آباد میں چور بھی کھمبیوں کی طرح اُگتے ہیں۔

 

آج فیروز پور کیسے؟ اگر مجھ سے کوئی مدد کی ضرورت ہو تو حاضر ہوں مگر میرا تھانے کچہری میں تو کوئی واسطہ نہیں اور نہ کوئی واقف ہے،نجم نے وضاحت آمیز لہجے میں کہا۔

 

اس تنگ وقت میں آپ کی طرف آنے کا مقصد آپ کی مدد حاصل کرنا ہی ہے، غلام حیدر بولا، تم اپنے والد شیخ مبارک سے کہو،وہ ڈپٹی کمشنر سے میری ملاقات کا بندوبست کروادے تاکہ ہم سودھا سنگھ پر پکا ہاتھ ڈالیں۔ یہ مسئلہ میری عزت اور انا کا بن چکا ہے۔ اگر سودھا سنگھ گرفتار نہ ہو ا تو سمجھ لو شیرحیدر کا نام ابھی اُس کے جسم کے ساتھ دفن ہو جائے گا اور میں جیتے جی ایسا ہونے نہیں دوں گا۔دوسری طرف میری رعایا ہے۔ ابھی تک تو انھیں امید ہے کہ میں بہت کچھ کر گزروں گا لیکن تمھیں یہ نہیں پتا کہ رعایا خود کچھ نہیں ہوتی۔اس کا معاملہ پل میں تولہ اور پَل میں ماشہ والا ہوتا ہے۔ جس طرح یہ لوگ پہاڑ جیسے مضبوط ہوتے ہیں، تھوڑی سی ہمت ماند پڑے تو اُسی لمحے رائی بن جاتے ہیں۔ ابھی تک وہ سمجھے بیٹھے ہیں، مَیں سودھا سنگھ کا گاؤں کھود ڈالنے پر قادر ہوں۔اگر انھیں پتا چل جائے کہ میری تحصیل میں سُبکی ہوئی ہے اور گورنمنٹ میں مجھے کوئی نہیں جانتا تو یہ جتنے بندے میرے ساتھ شیروں کے جگرے والے نظر آتے ہیں،ابھی گیدڑوں سے بد تر ہو جائیں گے۔ اس لیے میں ان پر اپنا بھرم کھونا نہیں چاہتا۔ تم مجھے اپنے والد شیخ مبارک سے ملاؤ، میں اُن سے خود بات کرتا ہوں۔

 

نجم علی نے سنجیدگی سے تمام بات سن کر غلام حیدر کی طرف دیکھا اور بولا،حیدر اصل میں ابا تو لدھیانے میں ہیں۔ وہاں سے وہ پرسوں آئیں گے۔ تم کو دو دن یہاں رُکنا پڑے گا۔یا پھر کل ہم خود ملاقات کی راہ نکال لیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کمشنر صاحب بات سُن لے گا۔ اگر چاہو تو اپنے بندوں کو واپس بھیج دو، چاہو تو یہیں رہنے دو۔

 

نہیں ہمارا خود ڈپٹی کمشنر سے ملنا کچھ فائدہ نہیں دے گا۔بلکہ اُلٹا کام بگڑے گا،غلام حیدر نے جواب دیا،یہ کام اتنا مشکل نہیں مگرمصیبت یہ ہے کہ نواب افتخار لندن میں ہے اور اُس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ با لفرض رابطہ ہو بھی جائے تو وہ اتنی دور سے مناسب طریقے سے معاملہ سمجھ نہیں سکے گا۔ اس لیے اُس کو اس پنگے میں ڈالنا بہتر نہیں۔رہا اُس کا باپ سر شاہنواز تو اس وقت وہ کشمیر میں گیا ہوا ہے۔اُس سے بھی رابطہ نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اُن سے اس کام کے لیے کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔ان نوابوں شوابوں سے کوئی بڑا کام لیں گے۔ میں چچا مبارک کا یہاں انتظار کر لیتا ہوں لیکن ہاتھ سخت ڈالنا چاہتا ہوں۔

 

ہاں بہتر یہی ہے تم یہاں رُک کر ابّا کا انتطار کر لو۔ اُن کی ڈپٹی کمشنر صاحب سے مل کر بات کرنے کی صورت ذرا الگ ہے، اس لیے انھیں آنے دیں اور اپنے ان بندوں کو واپس جلال آباد بھیج دو،یہ وہا ں کے حالات پر نظر رکھیں۔

 

نجم علی “غلام حیدر دوبارہ بولا” میں کچا ہاتھ ڈالنا نہیں چاہتا لیکن مجھے جلدی بھی بہت ہے۔ اس طرح کی ملاقات جس میں صرف انھیں بات سنانی مقصود ہو، مجھے منظور نہیں۔سرسری ملاقات کرنے میں قباحت یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر زیادہ سے زیادہ اسسٹنٹ کمشنر کولکھ دے گا کہ اس مسئلے کو دیکھو جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح میں جلال آباد میں مزید بے عزت ہو جاؤں گا اور اسسٹنٹ کمشنر مزید میرے خلاف ہو جائے گا۔

 

ٹھیک ہے پھر ابا کو واپس آنے دو۔ڈپٹی کمشنر سے اُن کے اچھے تعلقات ہیں، نجم علی نے کہا، لیکن ایک بات اگر برا نہ مانو تو کہوں “تم اِن زمین کے دھندوں سے جان چھڑا کیوں نہیں لیتے؟ خواہ مخواہ کی دشمنی میں اُلجھے ر ہو گے، ساری عمر لڑائی اورتھانہ کچہری میں برباد ہو جائے گی۔ اپنی زمین کسی کو ٹھیکے پر دے کر آرام سے لاہور چلے جاؤ۔ یہاں بلا وجہ گنواروں میں پھنسے رہنا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔

 

نجم علی مجھے اس طرح کے مشورے کی فی الحال ضرورت نہیں۔ تم میرے بندوں کے سونے کا بندوبست کردو۔یہ بھی تھکے ہوئے ہیں۔کل صبح میں انھیں واپس بھیج دوں گا، غلام حیدر نے غصے سے جواب دیا۔

 

ٹھیک ہے بھائی ناراض نہ ہو،یہ کہہ کر نجم علی وہاں سے اُٹھ کر باہر نکل گیا۔

 

نجم علی نے مہمانوں کے تمام انتظامات بوڑھے ملازم میراں داد کو سونپ کر خاص ہدایت کر دی کہ کوئی شکایت پیدا نہ ہو۔ اس کے بعد خود غلام حیدر کے پاس آ بیٹھا۔ دونوں سکول کے زمانے کی باتیں کرنے لگے،جو مڈل تک گورنمنٹ ہائی سکول فیروز پور میں گزارے تھے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات اور بچپن کی شرارتیں یاد کر کے ہنستے رہے۔اِن خوش گپیوں اور یادوں میں غلام حیدر کی طبیعت سے کچھ تکدّر دور ہو گیا اور رات کا ایک بج گیا۔بالآخر باتیں کرتے دونوں وہیں سوگئے۔
اگلے دن صبح سات بجے اُن کی آنکھ کھلی۔ نہانے دھونے اور ناشتہ کرنے میں دس بج گئے۔ ناشتے کے بعد غلام حیدر اپنے لوگوں کے پاس ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہ سب اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔اُن کے چہروں سے محسوس ہو رہا تھا کہ نجم علی کے ملازم نے اُن کی کافی آؤ بھگت کی تھی۔سب کی طرف سے خوشگوار تاثر مل رہا تھا۔

 

غلام حیدر نے رفیق پاولی کی طرف دیکھ کر بلا کسی تمہید کے کہا،جو رات کی نسبت کافی ہشاش بشاش نظر آ رہا تھا، چاچا رفیق آپ ایسا کرو، بندوں کو لے کر آج واپس جلال آباد چلے جاؤ اور دونوں گاؤں کے معاملات پر پوری نظر رکھو۔ دشمن کسی بھی طرف سے دوبارہ شرارت کر سکتا ہے۔ کل شیخ صاحب واپس آ جائیں گے تو میں پر سوں ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملاقات کر کے شام پانچ بجے یہاں سے جلال آباد کے لیے ریل پکڑ کر سات یا آٹھ بجے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جاؤں گا اور دیکھو کسی کو بھنک بھی نہ پڑے کہ میں کہاں ہوں اورکس وقت یہاں سے نکلوں گا۔بس اب جاؤ اور میرا پرسوں وہاں انتظار کرنا۔با قی کسی قسم کی جلدی کسی بھی کام میں ضروری نہیں۔

 

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *