Laaltain

نولکھی کوٹھی – سولہویں قسط

18 جون، 2017

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

 

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

(۳۱)

 

غلام حیدر کو ڈپٹی پولیس آفیسر کی ملاقات کے لیے پیغام پہنچا توحویلی میں رنگ رنگ کے افسانے کھل گئے۔ ہفتہ پہلے سردار سودھا سنگھ اور عبدل گجر کے بندوں کی گرفتاری اور مال کی ضبطی ہوئی۔ اِس کام نے غلام حیدر کی طاقت اور بڑے صاحب تک پہنچ کو سب پر روشن کر دیا تھا۔ اب اس بات میں کس کو شک تھا کہ پولیس کے بڑے افسر نے غلام حیدر کو دفتر میں بلا کر یہی کہنا تھا،بھائی ہم آپ کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں اور حکم کے بندے ہیں، دوبارہ بڑے صاحب کی طرف مت جائیں۔ ہماری نوکریوں کے لیے خطرہ ہے۔

 

غلام حیدر کی حویلی میں بیٹھے سب لوگ اپنی اپنی قیاس آرائیوں میں لگے انگریزی سرکار اور جھنڈو والا کی خبریں نون مرچ لگا کر اورایک دوسرے کو سنا کر آنے والے وقت کے متعلق فیصلے صادر کر رہے تھے۔ سب سے زیادہ امیر سبحانی جوش میں تھا۔ امیر سبحانی بیس بائیس سال کا کوتاہ قامت مگر نہایت باتونی اور چرب زبان تھا۔ باتوں کی لشکر کشی ایسے کرتا کہ بڑے سے بڑا سیانا بھی قبول کر اُٹھتا۔ قصہ گوئی کا فطری مادہ اُس میں موجود تھا۔ وائسرائے کی بیٹی سے غلام حیدر کا ناطہ ثابت کرنے کے بعد اُس کی قدر میں بہت اضافہ ہو چکا تھا۔ اِس لیے اُس کی باتوں پر پہلے سے زیادہ دھیان دیا جانے لگا۔ اُس کا اپنا علاقہ جلال آباد نہیں تھا۔ وہ فیروزپور شہر سے آوارہ گردی کرتے ہوئے یہاں پہنچا۔ اُس وقت اُس کی عمر پندرہ سال تھی۔ شیر حیدر نے اس کی چرب زبانی دیکھ کر اور لطیفہ گوئی سن کر یہیں رکھ لیا۔ کام وغیرہ کچھ نہیں لیا جاتا تھا۔ پچھلے چھ سات سال سے جلال آباد میں تھااور زبان کا کھٹیا کھا رہا تھا۔ اِس وقت بھی اپنے دیسی چمڑے کے جوتے کے تلووں سے لگی ہوئی مٹی ایک سخت تنکے سے کرید کرید کر جھاڑتا جاتا اور باتوں کے توتے مینا اُڑاتا جا رہا تھا۔

 

،یارو میری تو بات کو ہر ایک چوتڑوں میں دبا لیتا ہے اور سمجھتا ہے امیر سبحانی نے واہی بَک دی۔ حالانکہ میں نے پہلے دن سب کو خبردار کر دیا تھا کہ اپنے غلام حیدر کی منگ میں جب واسرائے کی چھوکری آ گئی ہے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ انگریز سرکار سودھا سنگھ کے دونو ں ہا تھ باندھ کے چکی کے پُڑوں کے نیچے دے دے گی اور اُس کی داڑھی کا رسہ وٹ کے سکھڑے کی ٹانگیں باندھ دے گی۔ اگر اب بھی میری بات کا یقین نہیں تو پھر کوڑھ مغزوں کے لیے بادام روغن کی ضرورت ہے،جو جلال آباد میں تو ملتے نہیں، کشمیر سے ہی منگواؤ تو منگواؤ۔

 

رشید ماچھی امیر سبحانی کی طرف رشک سے دیکھ کربولا،میاں سبحانی پہلے یہ بتا،کس لدھونے تیری بات کو چوتڑوں میں دبایا تھا اور یقین نہیں کیا تھا؟میں نے تو اُسی وقت کہہ دیا تھا،اگر خبر امیرے نے دی ہے تو پکی سمجھو ( آنکھ دبا کر خوشامد کرتے ہوئے) لیکن یار سبحانی اب تو بتا دے تجھے کیسے پتا چلا تھا کہ اپنے چوہدری غلام حیدر کے ساتھ وائسرائے کی بیٹی کا یارانہ ہے؟

 

لو اور سنو بھائی فیقے،امیر سبحانی نے رفیق پاؤلی کی طرف دیکھ کر کہا،او شیدے بونگے تُو بھی کٹوں سے دودھ نکالتا ہے۔ یہ باتیں کوئی پوچھنے کی ہیں؟ پھر اپنی چھدری کالی سیاہ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے،یہ داڑھی کیا دھوپ میں سفید کی ہے؟ میاں،امیر سبحانی نے صرف کبوتر نہیں اُڑائے،لوگوں کے کانوں کے فیتے کاٹے ہیں فیتے۔ لیکن تجھے بتا بھی دوں تو سمجھ نہیں آئے گا،اِس لیے فائدہ نہیں۔

 

رفیق پاؤلی نے امیر سبحانی کی بات سُن کر کہا،سبحانی کچھ ہمیں بھی تو پتا چلنا چاہیے،اِس بات کی خبر تجھے کیسے ہوئی؟

 

بھائی کبھی آل انڈیا ریڈیو دیکھا؟ امیر سبحانی جوش اور غصے کی ملی جُلی کیفیت میں بولا،لیکن رفیق کے جواب دینے سے پہلے ہی،اچھا دیکھا تو خیر نہیں ہو گا کبھی نام بھی سنا ہے؟ جب تم نے نام بھی نہیں سنا تو تمھیں سمجھ خاک آئے گی۔ چاچا فیقے،یہ ایک جادو کا ڈبہ ہو تا ہے (ہاتھوں کے اشارے سے)اِتنا چوڑا اور اِتنا لمبا۔ اِس میں ایک جِن بیٹھا ہوتا ہے،جو غیب کی باتیں پڑھ پڑھ کے سناتا ہے۔ سننے والے حریان،پریشان دیکھتے ہیں یہ کیا ہے؟ مگر یہ بولتا جاتا ہے،بولتا جاتا ہے۔ بس میں نے بھی وائسرائے کی بیٹی اور غلام حیدر کی بات اِسی سے سُنی تھی۔ پر دیکھو یہ ڈبہ ہر ایک کو نہیں سناتا۔

 

امیر سبحانی کی بات سن کر سب ہکا بکا رہ گئے۔ جانی بولا،اچھا چل اس بات کو چھوڑ،اب یہ بتا ڈپٹی صاحب نے غلام حیدر کو اپنی سرکار میں کیوں بلایا ہے؟ ذرا قیاس کر کے بتا؟
امیرسبحانی نے اِتنی عزت افزائی دیکھی تو نئی نئی چھوڑنے لگا۔ اُس نے ایک دفعہ جوتے پاؤں سے اُتار کے زمین پہ پھینکے اور دونوں ٹانگیں چارپائی کے اُوپر رکھ کر بولا،لو جی اگر تم کو اتنی ہی بے چینی ہے تو سنو،یہ تو تمھیں پتا چل ہی گیا ہے چوہدری غلام حیدر کی اُوپر تک پہنچ کی وجہ سے کمشنر صاحب نے پولیس کے بڑے سنتری کے کان کھینچے ہیں،جس پر اُس نے مجبور ہو کر جھنڈو والا اور میگھا پور کی صفائی پھیری ہے۔ اب یہ بات تو سادھو کو بھی پتا چل جائے گی کہ بڑا سنتری چوہدری غلام حیدر سے یاری دوستی لگانا چاہتا ہے تاکہ چوہدری صاحب سے بڑی سرکاروں میں سفارش کروا کے نوکری میں ترقی کروا لے۔ او بھائی یہ انگریز بہادر بڑے سیانے ہوتے ہیں۔ بغیر مطبل کے کسی کے کام نہیں آتے۔ دیکھنا یہ بات نہ ہو تو میری داڑھی مونڈ دینا اِسی پتھورے پر۔

 

امیر سبحانی کا نیا انکشاف سُن کر سب عش عش کر اُٹھے۔ یہ بات تو کسی کو بھی نہیں سوجھی تھی کہ انگریز بہادر نے غلام حیدر سے ملاقات کیو ں کرنا چاہی ہے۔ واقعی امیر سبحانی کی وہاں تک سوچ جاتی تھی جہاں تک رفیق پاؤلی اتنا سیانا ہونے کے باوجود بھی نہیں پہنچ سکا تھا۔
سب حویلی کے صحن میں بیٹھے قیاس آرائیاں کرتے کرتے اصل نتیجے تک پہنچے ہی تھے،اِتنے میں غلام حیدر زنان خانے سے نکل کر حویلی کے بیرونی صحن میں آتا دکھائی دیا۔ اُس نے ریشمی لاچے کے ساتھ پاؤں میں اُونچی کنی والا دیسی کھسہ ڈال رکھا تھا جس کی چرر چرر کی آواز سے عجیب سُر نکل رہے تھے۔ اِسی طرح سفید لٹھے کا کُھلا کُرتا اور کاندھے پر وہی پکی ریفل جو سرداری کے مزاج کو اور بھی آسمان پر لے جاتی تھی۔ اُس پر قدم اُٹھانے کا انداز،سب کچھ بڑا شاندار لگ رہا تھا۔ غلام حیدر کودیکھ کر سب خاموش ہو گئے اور اُٹھ کرسلام لینے لگے۔ غلام حیدر نے سب کو ایک ہی سلام میں بھگتا کر رفیق پاؤلی سے کہا،چاچا رفیق کیا تحصیل جانے کی تیاری مکمل ہو گئی؟

 

جی تیاری تو مکمل ہے بس تمھارا ہی انتظار تھا،رفیق پاؤلی نے جواب دیا۔

 

تو چلیں؟ غلام حیدر بولا،اِس کے بعد بگھی کی طرف چل دیا،جو حویلی کے صحن میں دروازے کے ساتھ ہی کھڑی تھی۔ جب بگھی پر بیٹھ چکا تو دوسرے لوگ بھی اپنی اپنی سواری پر چھویوں اور ڈانگوں پر کسی کرپانوں کے ساتھ چڑھ گئے۔ پھر چند وقفوں کے بعد یہ سواریاں جلال آباد کی تحصیل میں پولیس کے بڑے صاحب کے دفتر کی طرف چل دیں،جو غلام حیدر کے مکان سے محض ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ رستے میں آگے پیچھے چلتی سواریاں اور سواریوں میں بیٹھے غلام حیدر کے آدمیوں کے چٹکلے اور ہنسی دور تک چلتے راہیوں کو رُکنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ لوگ غلام حیدر کی سواری کو دیکھ کر کچھ دیر کھڑے رہ جاتے۔ صبح دس بجے یہ سواریاں ڈی ایس پی لوئیس صاحب کے آفس کے سامنے جا کر رُک گئیں۔ لوئیس صاحب کے دفتر کی ساری عمارت پر پیلے رنگ کا چونا پھیرا گیا تھا۔ عمارت کے سامنے بڑا صحن تھا۔ جس کو ایک چھوٹے قد کی دیوار سے گھیر کر اُس میں لکڑی کا پھاٹک لگا دیا گیا تھا۔ صحن میں بڑے گراؤنڈ کے بیچ بڑی بڑی داڑھیوں والا آسمانی چھتری نما بوڑھ کا درخت عمارت کی شان و شوکت کا گواہ تھا۔ اس بوڑھ سے تھوڑا آگے ڈپٹی صاحب کے دفتر کی عمارت شروع ہوجاتی تھی۔ سب سے پہلے عمارت کا ہاتھی دروازہ اور اُس کی بڑی ڈاٹ کے سِرے پر بانس کے ڈنڈے کے ساتھ لہرا تا ہوا برطانوی سلطنت کا پھریرا سلطنت کی ہیبت کا مدعی تھا۔ غلام حیدر نے بگھی سے اُتر کر اپنی رائفل کاندھے سے اُتار کر رفیق پاولی کے حوالے کردی اور عمارت کی طرف بڑھ گیا۔ جبکہ اُس کے تمام بندے وہیں گراؤنڈ میں ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ بڑے صاحب کے کمرے میں صرف غلام حیدر ہی کو جانے کی اجازت تھی اور یہ بات قدرتی طور پر ہی تمام ملازمین جانتے تھے۔

 

غلام حیدر پھریرے والے دروازے سے گذر کر عمارت میں داخل ہوا تو کئی راہداریوں نے اُس کا سامنا کیا،جنہیں نیلے اور لال رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ ایک حوالدار غلا م حیدر کے ساتھ تھا۔ وہ رہنمائی کرتا ہوا اُسے ایک کمرے میں لے گیا۔ یہ کمرہ ویٹنگ روم تھا۔ جس میں پہلے بھی کئی لوگ بیٹھے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک کُلے والے چوکیدار نے غلام حیدر کے نام کی آواز دے کر اُسے صاحب کی ملاقات کی اجازت دی۔ غلام حیدر اپنے کُھسے کی چرچراہٹ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو لوئیس نے اُٹھ کر غلام حیدر سے ہاتھ ملایا اور اُسے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ غلام حیدر خوش دلی سے ڈی ایس پی لوئیس کا شکریہ ادا کر کے کُرسی پر بیٹھ گیا۔ اُس کے ایک طرف ایک تھانیدار بیٹھا تھا،جس سے غلام حیدر بالکل ناواقف تھا۔ واقف تو وہ ڈی ایس پی صاحب سے بھی نہیں تھا لیکن ایک ہفتہ پہلے جو کارروائی جھنڈو والا اور میگھا پور میں لوئیس کی نگرانی میں ہوئی تھی اور اُس کی خبر پوری تحصیل میں ہوا کی طرح پھیل گئی تھی،اُس وجہ سے ڈی ایس پی لوئیس کا نام نہ صرف جھنڈووالا اور میگھا پور میں بلکہ غلام حیدر کی پوری رعیت کی زبان کا ورد ہو گیاتھا۔ صاحب بہادر نے جس طرح کارووائی کر کے جھنڈو والا کی تباہی پھیر کر سودھا سنگھ کی چوہلیں ہلائیں تھیں،اُس سے غلام حیدر کو ایک گونہ اطمنان سا ہو گیا تھا۔ اُسے جو انگریز سرکار سے شکایتیں تھیں،وہ بھی دور ہو گئیں۔ اِس کاروائی سے لوگوں کو ذرا بھی شک نہیں رہا تھا کہ غلام حیدر کے لاہور میں بڑی سرکاروں کے ساتھ رابطے ہے۔ ورنہ کہاں مہاراجہ پٹیالا کے وزیر کا چہیتا سودھا سنگھ اور کہاں ایک پڑھاکو لڑکا چوہدری غلام حیدر۔

 

چنانچہ جب غلام حیدر کو لوئیس صاحب کا پیغام ملا تو اِس میں شک نہ رہا کہ صاحب نے اُسے انصاف کی یقین دہانی کے لیے بُلایا ہے۔ حالانکہ ملک بہزاد نے غلام حیدر کو باور کرادیا تھا کہ انگریز افسر کے سامنے اُس وقت تک نہ جانا جب تک تمھاری جان کسی بھی جھگڑے سے بالکل پاک نہ ہو اور اُس میں بھی اپنے اسلحے کا خاص خیال رکھنا۔ یہ بات غلام حیدر کو یاد تھی لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ لوئیس صاحب،جس کے پاس ابھی تک غلام حیدر کے خلاف نہ کوئی ثبوت تھا اور نہ ہی اُس نے قانون کی بساط سے قدم باہر اُٹھا یا تھا،وہ افسر غلام حیدر کے خلاف کچھ ناروا حکم دیتا۔ وہ لوئیس کے دفتر میں داخل ہوا تو اُس کے مشفقانہ رویے نے مزید اچھا اثر ڈالا۔ اِس سے متاثر ہو کر غلام حیدر نے کہا،سر جس طرح جناب نے مجرموں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے،اُس پر آپ کی نذر کرنے کو سوائے شکریے کے میری گرہ میں کچھ نہیں ہے۔
مسٹر غلام حید ر! لوئیس بولا،کیا کبھی ایسا ہوا ہے،لڑکا اپنے گھر میں پیدا ہو اور مبارک پڑوسیوں کودی جائے؟اِس میں گورنمنٹ کا شکریہ ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب جلال آباد میں سرکا ر برطانیہ کی ہے تو امن و امان کی ذمہ داری بھی اُسی کی ہے۔ آپ بے فکر رہیں اور گورنمنٹ کے ساتھ تعاون جاری رکھیں۔ اِس میں شک نہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ جس میں کچھ شر پسندوں نے انگریزی قانون کو ہلکا سمجھ کر اُس کا مذاق اُڑایا ہے۔ اب اِس کا نتیجہ تو اُنہیں بہر حال بھگتنا تھا۔ اب آپ کو تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ دل سے تمام خدشے دور کر کے مکمل طور پر گورنمنٹ پر بھروسا رکھواور دل و دماغ سے دشمنی کی ہوا نکال کر صرف رعایا کی خبر گیری کی طرف دھیان دو۔

 

غلام حیدر نے لوئیس کی بات سُن کر تشکر آمیزلہجے میں کہا، ڈپٹی صاحب جب آپ جیسے آفیسر ہماری حفاظت کے لیے موجود ہیں تو تشویش کیسی؟آپ جس قسم کا تعاون چاہیں گے،وہ میری طرف سے حاضر ہے۔

 

لوئیس نے اب ایک لمحہ غلام حیدر کی طرف دیکھا،پولیس کیپ میز سے اُٹھا کر اپنے سر پر رکھی۔ اُس کے بعد اپنی بیددائیں ہاتھ میں لے کر اُٹھااور بولا،ویل غلام حیدر،ہمیں آپ سے یہی توقع تھی۔ آپ کو دفتر میں بلانے کا کوئی خاص مقصد نہیں تھا۔ بس یونہی کچھ امن و امان کے حوالے سے گزاراشات واضح کرنا تھیں۔ آپ اپنی رائفل اور اپنے آدمیوں کا تیز لوہا کم از کم تین ماہ کے لیے گورنمنٹ کو جمع کرا دو۔ تم اور تمھارے آدمی سوائے لکڑی کے کوئی چیز ہاتھ میں لے کر نہیں چل سکتے۔ فی الحال ہم آپ سے اس سے زیادہ نہیں چاہتے۔ میرا خیال ہے یہ بات آپ کے لیے زیادہ وزنی بھی نہیں ہے۔

 

سر یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟غلام حیدر لوئیس کا حکم سن کر حیران رہ گیا۔ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا لوئیس،جو ابھی ابھی اتنا شفیق نظر آ رہا تھا،وہ اس قدر کڑوا حکم دے گا۔ چنانچہ اپنی کرسی سے اُٹھتے ہوئے بولا،آپ جانتے ہیں میری کس قدر خطرناک دشمنی پیدا ہو چکی ہے۔ میرے باپ کے مرنے کے بعد جلال آباد کا سایا بھی میرے لیے بھوت بن چکا ہے۔ میرے دو گاؤں پر حملہ ہوا،تین بندے قتل ہو گئے،مال کا نقصان الگ ہوا۔ پھر بھی گورنمنٹ پر بھروسا کرتے ہوئے قانون کی ذرہ برابر نافرمانی نہیں کی۔ لیکن حیرت ہے،ابھی گورنمنٹ کو مجھ پر بھروسا نہیں۔
ڈی ایس پی لوئیس صاحب نے ایک قدم مزید آگے بڑھ کر کہا،غلام حیدر گورنمنٹ کے پاس اتنا وقت نہیں وہ اپنے فیصلوں کی وضاحت کر ے۔ آپ سے جو کہا گیا ہے وہ کرو۔ جھنڈووالا سے لے کر جودھا پورتک،سب کی مالک گورنمنٹ ہے۔ اِس لیے آپ کا اسلحہ تین ماہ تک ضبط کیا جاتا ہے۔ اِسے گورنمنٹ کو جمع کروا دیں۔

 

یہ کہ کر لوئیس صاحب کمرے سے نکلنے کے لیے آگے بڑھ گئے۔ جبکہ غلام حیدر وہیں ہکا بکا کھڑا سوچنے لگا کہ صاحب نے کیسا گرگٹ کی طرح رنگ اور سانپ کی طرح کینچلی بدلی ہے۔ لوئیس صاحب نے دروازہ سے نکلنے سے پہلے ایک ثانیے کے لیے مڑ کر دوبارہ غلام حیدر کی طرف دیکھا اور بولا،مسٹر آپ کو یہ بات سمجھانے میں زیادہ دیر نہیں لگنی چاہیے،جو بھی گورنمنٹ کے حکم کی سرتابی کرنے کی زحمت کرتا ہے،ہم اُس کی گردن باندھ دیتے ہیں۔
آخری فقرہ لوئیس نے اِس کٹیلے لہجے میں کہا کہ غلام حیدر کو کھڑے کھڑے پسینہ آ گیا۔

 

لوئیس غلام حیدر کا جواب سنے بغیر باہر نکل چکا تھا۔ ویسے بھی غلام حیدر میں جواب دینے کی سکت کہاں رہی تھی۔ اُس کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور محسوس ہوا کلیجہ مسوس دیا گیا ہے۔ پھراس سے پہلے کہ اُس کی طبیعت میں پھیلے انتشار کا کسی کو پتا چلتا،وہ خود بھی لوئیس کے کمرے سے نکل پڑا۔ اُس کے ساتھ ہی کمرے میں موجود تھانیدار بھی چل پڑا جو غالباًاُسی لیے وہاں بیٹھا تھا۔

 

غلام حیدر بھاری قدموں سے چلتا اپنی بگھی کے پاس پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اُس کے بندے بھی خالی ہاتھ ہو چکے تھے۔ پولیس نے اُن سب سے اسلحہ قبضے میں لے لیا تھا۔ اب اُس کا اندراج ایک حوالدار رجسٹر میں کر کے اور انگوٹھوں کے نشان لے کر اُن کے رسیدی ٹکڑے واپس کر رہا تھا۔ بہت سے سپاہی بندوقیں پکڑے اُن سب کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ غلام حیدر کی رفیق پاؤلی اور اپنے بندوں سے آنکھیں چار ہوئیں تو ہر دو طرف سے شرمساری کی پکھیوں نے اُن پر سایا کر دیا۔ اِسی اثنا میں ایک سپاہی نے،جس کے ہاتھ میں غلام حیدر کی رائفل تھی،جو اُس نے رفیق پاؤلی سے قبضے میں لی تھی،غلام حیدر کے سامنے دستخط کے لیے وہ رجسٹر آْگے کر دیا۔ جس میں اُس کی رائفل کا اندراج ہوا تھا۔ غلام حیدر مکمل طور پر بے بس ہو چکا تھا اور مزاحمت میں سوائے بے عزتی کے کچھ ہاتھ نہیں آ سکتا تھا۔ اِس لیے اُس نے آرام سے دستخط کر دیے۔ دستخط کے بعد اُسے بھی حوالدار نے رائفل کے بدلے ایک رسید تھما دی۔ اُس پر صاف لکھا تھا،غلام حیدر ولد شیر حیدر سکنہ شاہ پور جلال آباد سے اُن کی رائفل دفعہ تیس کے تحت تین ماہ کے لیے حکومت پنجاب اپنے قبضے میں لیتی ہے۔ رائفل ہذا تین ماہ بعد اُس کے وارث غلام حیدر ولد شیر حیدر کے حوالے کر دی جائے گی۔

 

اسلحہ کے ضبط ہونے کی کارروائی ختم ہو چکی تو غلام حیدر نے دوبارہ ایک نظر اپنے بندوں پر ڈالی اور ہلکی سی خجالت کی ہنسی ہنس کر اپنی بگھی کی طرف چل دیا۔ اُس کے پیچھے ہی رفیق پاؤلی اور اُس کے بندے بھی۔

 

بگھی پر بیٹھتے ہوئے غلام حیدر کو شدت سے ملک بہزاد کی یاد آئی اور اُس کے وہ جملے،خبردار کسی بھی و قت انگریز بہادر کو اپنا دوست سمجھ کر اُس کے ساتھ بے تکلف ہونے کی کوشش مت کرنا۔ کیونکہ حکومت اگر اپنی رعایا کے ارادوں کی رعایت کرنے لگے گی تو ایک دن ضرور ذلت کا منہ دیکھے گی۔ اور اس کی توقع فرنگی سرکار سے نہ رکھنی چاہیے۔ کبھی اپنا اسلحہ لے کر انگریز بہادر کے سامنے نہ جانا۔

 

غلام حیدر کے دماغ پر شدید کوفت اور بیزاری کے جھکڑ چلنے لگے۔ اُس نے جان محمد بگھی کوچ کو حکم دیا،جان محمد سیدھے چک عالمکے چلو۔

 

اسلحہ چھن جانے کی وجہ سے سب کو پتا چل چکا تھا کہ غلام حیدر کی بڑے سنتری صاحب سے کوئی کھٹ بٹ ہو چکی ہے۔ اس لیے چوہدری صاحب کے موڈ اس وقت سخت خراب ہیں۔ لہذا کسی نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ اس وقت ملک بہزاد کے گاؤں کی طرف جانے کا کیا مقصد ہے۔ بغیر اسلحہ یہ قافلہ لوئیس صاحب کے دفتر سے نکلنے کے بعد سیدھاچک عالمکے کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھوڑوں کے مسلسل دوڑنے کی آواز میں تمام لوگ ایک دوسرے سے نظریں چراکر خموشی سے اپنی اپنی ذات کے ساتھ گفتگو کرنے لگے اور گھوڑے دوڑتے گئے۔ حتیٰ کہ سہ پہر تین بجے یہ قافلہ چک عالمکے میں ملک بہزاد کے ڈیرے میں داخل ہو رہا تھا۔

 

ملک بہزاد کا ڈیرہ عام ڈیروں ہی کی طرح تھا۔ اُس کے نہ تو احاطے کی دیواریں اُونچی اور پائیدار تھیں اور نہ ہی ڈیرے کے مکانوں میں کوئی خصوصیت تھی،جسے بیان کیا جائے۔ البتہ احاطہ کافی کُھلا اور پُرسکون تھا۔ اُس کے صحن میں سرکنڈوں کے بان کی پندرہ سولہ کھری چارپائیاں بچھی تھیں۔ اُن میں سے ایک چار پائی پر ملک بہزاد بیٹھا حقے کے ٹکارے لے رہا تھا۔

 

ارد گرد گاؤں کے لوگ بیٹھے ملک بہزاد سے اُس کے کارناموں کی کوئی داستان سُن رہے تھے،جو اُس نے اپنی جوانی کے دنوں میں سرانجام دی ہو گی۔ ملک بہزاد غلام حیدر کو ڈیرے میں داخل ہوتے دیکھ کر حیران ہوا اور فوراً اُٹھ کر استقبال کرنے کے لیے آگے بڑھا،او میرا بھتیجا غلام حیدر آیا،کہ کر باہیں پھیلا دیں۔ ملک بہزاد کے ساتھ دوسرے لوگ بھی اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور غلام حیدر کے بندوں سے سلام دعا لینے لگے۔ غلام حیدر کے ڈیرے میں داخل ہونے کی وجہ سے لوگوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔ اس لیے نوکر مزید چارپائیاں بچھانے میں مصروف ہو گئے۔ کچھ لوگ بڑھ بڑھ کر غلام حیدر سے سلام لینے کی کوشش کرنے لگے۔ اُنہوں نے اُس کا نام تو سنا تھا کہ چوہدری شیر حیدر کا مُنڈا بڑے اسکولوں میں پڑھتا ہے اور ولایت بھی گیا ہے لیکن اُنہیں کبھی توقع نہیں تھی کہ ولایت جا کر پڑھنے والا غلام حیدر کبھی اُن کے گاؤں بھی آئے گا۔ نیم کے بڑے سے درخت (جس کی اکثر ٹہنیاں سردی کے موسم میں چھانگی جاچکی تھیں ) کے نیچے چارپائیاں بچھی ہوئیں تھیں۔ موسم گرم نہیں تھا،اس لیے سائے کی ضرورت نہیں تھی۔ ملک بہزاد نے اپنے ساتھ ہی ایک چارپائی غلام حیدر کے لیے رکھوا لی،جس کے پائینتی سفید کھدر کی دوہر اور سرہانے پھولوں کے ساتھ کڑھا ہوا ریشمی تکیہ تھا۔ تھوڑی دیر میں تمام آدمیوں کے لیے لسی بھی آگئی۔ پیتل کے بڑے بڑے گلاسوں میں بھری ہوئی سفید لسی جب منہ سے لگاتے تو اُس کی سفیدی مونچھوں کے کناروں پر جم جاتی۔ غلام حیدر کے لیے بھی لسی سامنے رکھ دی گئی۔ جس میں برف تو نایاب ہونے کی وجہ سے نہیں تھی لیکن کوری چاٹی اور سرد موسم کی ٹھنڈک نے اُسے اتنا مزیدار ضرور کر دیا تھا کہ غلام حیدر نہ چاہتے ہوئے بھی دو گلاس پی گیا۔ لسی پینے کے بعد کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ ملک بہزاد نے اتنا اندازہ کر لیا تھا کہ غلام حیدر کے ساتھ کوئی خیر نہیں ہے۔ کیونکہ اطلاع دیے بغیر اچانک اور بالکل ہتھل ہو کر آنا خیر سے خالی تھا۔ لیکن ملک بہزاد نے غلام حیدر سے بات پوچھنے میں جلدی نہیں کی۔ قریباً ایک گھنٹے تک وہ اسی طرح بیٹھے ادھر اُدھر کی ہانکتے رہے۔ پھر اچانک غلام حیدر نے ملک بہزاد کو اُٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں اُٹھ کر ڈیرے کے ایک کمرے میں چلے گئے تاکہ تنہائی میں بات کر سکیں۔

 

کچھ دیر خاموش بیٹھے رہنے کے بعد غلام حیدر بولا،چاچا بہزاد سب عزت خاک میں مل گئی۔ کوئی کام توقع کے مطابق نہیں ہو رہا۔ مَیں انگریز سرکا ر پر اچانک اندھا بھروسا کر گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دم اپنے بندوں کے سامنے ذلیل ہو گیا۔ پھر غلام حیدر نے سر جھکا کر اپنے ساتھ ہونے والی پولیس کی تمام کارگزاری ملک بہزاد کے سامنے رکھ دی۔

 

ملک بہزاد غلام حیدر کی داستان نہایت حوصلے اور تحمل سے سنتا رہا۔ درمیان سے اُس نے نہ تو ٹوکا اور نہ ہی بات بات پر اپنے تجربات کے افسانوں کے تڑکے لگائے۔ وہ جانتا تھا،غلام حیدر غلطی کر چکا ہے،جس پر اُسے پہلے سے خبر دار کیا گیا تھا۔ لیکن اب اُسے اپنی غلطی کا احساس شدت سے ہے،جس کی وجہ سے وہ ڈپٹی کے دفترسے اپنے گھر نہیں گیا،سیدھا اُس کے پاس آیا ہے۔ اِس کا مطلب ہے،وہ اعتراف کا طوق گلے میں لٹکائے ہوئے آیا ہے۔ لہذا غلطی جتانے سے سوائے بیزاری بڑھانے کے فائدہ نہیں۔ اِسی کے پیش نظر ملک بہزاد خاموش بیٹھا سوچتا رہا۔ با لآخر سفید کھچڑی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بولا،غلام حیدر ایک بات بتا،سُنا ہے تیری نواب افتخار کے ساتھ دوستی ہے،کیا یہ بات ٹھیک ہے؟

 

ہاں وہ دوست تو ہے،غلام حیدر نے جواب دیا،لیکن وہ لندن میں ہے۔ میں نے اُسے ساری صورت حال کے بارے میں خط لکھ دیا ہے۔ مگر اُس کا ابھی تک جواب نہیں آیا۔ بلکہ ابھی تو میرا خط بھی نہیں پہنچا ہو گا۔

 

ایسا کر تُو اُسے تار بھیج دے،ملک بہزاد نے آہستہ سے کہا، اور یہ کام لاہور جا کر وہاں سے کر۔ فیروزپور یا جلال آباد سے ہرگز نہیں۔ دوسرا کام یہ کر،تین مہینے کے لیے تسلی سے بیٹھ جا۔ حویلی سے باہر بھی نہ نکل اور ایک درخواست عدالت میں جمع کروا دے کہ مجھے دشمنوں سے اپنی زندگی کا خطرہ ہے۔ لہذا جو پولیس نے میرا اسلحہ ضبط کیا ہے،وہ گورنمنٹ مجھے واپس کرے۔ اس کے علاوہ یہ خبر جھنڈو والا اور عبدل گجر تک بھی مشہور کر دے کہ تیرا اسلحہ ضبط ہو چکا ہے۔

 

اِس کا کیا فائدہ ہوگا؟ غلام حیدر نے حیرانی سے پوچھا

 

اِس کا یہ فائدہ ہو گا کہ جب تجھے تین مہینے سے پہلے بطور مدعی عدالت میں طلب کیا جائے تو تم عدالت کو باور کرا سکتے ہو کہ مجھے دشمنوں سے خطرہ ہے اس لیے میں بغیر اسلحے کے کسی بھی جگہ آنے جانے سے قاصر ہوں۔ اِس سلسلے سے متعلق میں ایک درخواست بھی جناب میں پیش کر چکا ہوں۔ چنانچہ اِسی خطرے کی وجہ سے میں عدالت بھی حاضر نہیں ہو سکتا۔ تمھاری اِس معذوری کی بنا پر عدالت یا تیرا اسلحہ بازیاب کرائے گی یا تین مہینے تک تمھیں عدالت میں حاضر نہ ہونے سے معذور قرار دے گی۔ اِدھر اِس درخواست کی وجہ سے انگریزی پولیس آپ کی رائفل تین مہینے کے بعد تمھیں واپس کرنے کی پابند ہو گی اور مزید ضبطی کے آڈر جاری نہ کر سکے گی۔ کیونکہ اِن سابقہ تین ماہ میں آپ کا کردار بالکل صاف رہا ہو گا۔ رہا آپ کے ہتھل ہونے کی خبر سردار سودھا سنگھ اور عبدل گجر وغیرہ تک پہنچانے کا فائدہ،تو اِس سے یہ ہو گا،وہ تینوں بے خطر فیروزپور کی عدالت میں تاریخیں بھگتنے چلے آئیں گے۔ یہی وقت ہو گا ہماری کارروائی کرنے کا۔ تم اِس عرصے میں نواب افتخار کی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اُس کی کان و کان کسی کو خبر نہ ہو۔

 

غلام حیدر دل ہی دل میں ملک بہزاد کی عقل کو داد دینے لگا اور تہیہ کیا کہ کبھی ملک بہزاد کے مشورے کے خلاف نہیں کرے گا۔ پھر سوچ کر بولا،لیکن چاچا بہزاد آپ کو میرے ساتھ ہر معاملے میں چلنا ہو گا۔ خرچے کی کوئی بات نہیں۔ میں سب دینے کو تیار ہوں،جتنا بھی آئے گا۔ تم کل میرے ساتھ جلال آباد چلو اور یہ درخواست بازیوں کے معاملات کو سنبھالو۔ اگر مجھ پر چھوڑو گے تو میں یہ کام نہیں کر سکوں گا۔ اِس کے بعد غلام حیدر نے اپنے کُرتے کی جیب میں ہاتھ ڈال کے پانچ سو روپے کی ایک تھیلی نکالی اور ملک بہزاد کے سامنے رکھ دی۔
ملک بہزاد نے وہ تھیلی پکڑ کر واپس غلام حیدر کی جھولی میں رکھ دی اور بولا،بھتیجے تُو فکر نہ کر۔ مَیں کل تیرے ساتھ چلتا ہوں اور عدالت میں وکیل اور دوسرے معاملات کو دیکھتا ہوں۔ یہ پیسے میرے پاس بہت ہیں۔ اللہ کا دیا بڑا فضل ہے۔ کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔

 

اس گفتگو کے بعد دونوں اُٹھ کر باہر آگئے۔ اُنہیں دیکھ کر سب ایک مر تبہ پھر اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ جب دونوں بیٹھے تو دوسرے بھی اپنی جگہ آرام سے بیٹھ گئے۔ شام کے سات بج گئے تھے۔ یہ وقت غلام حیدر کے جلال آباد جانے کا نہیں رہ گیا تھا۔ اِس لیے رات کے کھانے اور رات کے بسر کرنے کا سامان ہونے لگا۔ ملک بہزاد نے اُٹھ کر اپنے ملازموں کو حکم جاری کرنے شروع کر دیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *