Laaltain

نولکھی کوٹھی – بائیسویں قسط

18 جولائی، 2017

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

 

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

(40)

ولیم کو جلال آباد میں آج چارسال ہو چکے تھے۔ وہ بنگلے سے نکل کر پیدل ہی کمپلیکس کی طرف چلنے لگا۔ آج اُس نے جو کپڑے پہنے تھے،اُن سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ کیتھی کا عمل دخل آخر کار اُس کی ذاتی پسندو ناپسند میں شامل ہو چکا ہے۔ کنٹوپ کی جگہ کیپ نے لے لی تھی اور شرٹ پر ہُڈ والے بٹنوں کی جگہ شیشے کے باریک ٹیکوں کے بٹن لگ چکے تھے۔ کوٹ بھی اب کُھلا ڈُھلا نہیں تھا،باقاعدہ سوٹ کے ساتھ فٹنس میں تھا۔ ولیم کا قد ویسے بھی لمبا تھا اور جسم کی ہڈی اکہری ہونے کی وجہ سے بہت سمارٹ بھی تھا۔ جوتے بھی ویسے ہی بارعب اور چمکدار جو کمشنروں کی شخصیت کے آئینہ ہوتے ہیں۔ اِس قدر روشن دن میں ولیم کی نیلی آنکھوں کے گھیراؤ میں سرخ و سفید چہرہ واقعی اپنی مثال آپ تھا۔ ہاتھ میں بید تو وہی پُرانی تھی لیکن آج اُس کی لچک پہلے سے زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ نہائت نپے تُلے قدم اُٹھاتا ہوا پُروقار چال چلنے لگا۔ ولیم کے بنگلے سے تحصیل کمپلیکس تک سڑک کے دونوں جانب بیس کے قریب سنتری کھڑے تھے۔ جب وہ دفتر آتا یا واپس بنگلے پر جاتا،یہ سنتر ی خاکی وردی پہنے ہر چالیس قدم کے فاصلے پر موجود صاحب کی نگہبانی کے لیے ایستادہ ہوجاتے۔ سنتریوں کی وردی شرٹ اور لمبی نیکروں پر منحصرتھی۔ سنتری سکھ،ہندو اور مسلمان سبھی قوموں سے تھے۔ اُن کی شرٹیں اور نیکریں بھی ایک جیسی تھیں لیکن سر پر پگڑی رکھنے کے لیے سکھوں کو استثنیٰ حاصل تھا۔ وہ سرکاری ٹوپی کی بجائے نیلے رنگ کی پگڑی پہن سکتے تھے۔ سنتریوں کے علاوہ بھی تین چار افسر ولیم کے استقبال کے لیے صبح اُس کے گھر کے سامنے پہنچ جاتے تاکہ وہیں سے صاحب کو پروٹوکول کے ساتھ دفتر میں لائیں مگر ولیم اِن چیزوں کا خیال کم ہی کرتا۔ اکثر اِن سب کو نظر انداز کرتا ہوا سیدھا پیدل ہی چل پڑتا۔ جیسا کہ آج سُرخ اینٹوں کی ٹھنڈی سڑک پر چہل قدمی کرتا ہوا چل رہا تھا۔ یہ سڑک ولیم کے جلال آباد آنے کے ایک سال بعد پکی کر دی گئی تھی۔ جس کی گرد پہلے محض ریت اور بھٹے کی کیری ڈال کربٹھائی تھی۔ اب اِس سڑک پر کمپلیکس تک دو رویہ پیپلوں کے درخت بھی لہلہا رہے تھے۔ یہ بھی ولیم کے جلال آباد تعیناتی کے بعد ہی لگے تھے۔ بلکہ ولیم نے خود لگوائے تھے۔ سردی کے وہی دن لوٹ آئے تھے،جب ولیم نے جلال آباد میں قد م رکھے تھے اور آج اُس کی تعیناتی کو چار سال ہو چکے تھے۔ اِس عرصے میں اُس نے جلال آباد تحصیل میں کئی انقلابی قدم اُٹھا ئے۔ تعلیم کا معیار پنجاب کی تمام تحصیلوں سے آگے نکل چکا تھا۔ اِسی طرح ایک نئی نہر اور دوسرے کئی چھوٹے چھوٹے رجواہے جاری کر دیے۔ جن کی وجہ سے تحصیل کے ہر گوشے میں پانی کی بہتات ہوگئی۔ گندم،چاول اور مکئی کی فصلیں کثرت سے پیدا ہونے لگیں اور لوگوں کے چہروں پر ایک قسم کی خوشحالی آنے لگی۔ ہر طرف درخت اورفصلوں کے سبز آئینے لہلہارہے تھے۔ اِس کے علاوہ سرکاری سر پرستی میں نجی سطح پر لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کروا دیے،جن میں جلال آباد کے مضاف میں لگا ئے گئے شہتوتوں کے باغ بھی شامل تھے۔

اب ولیم جلال آبا د سے اِس قدر مانوس ہو چکا تھا کہ اگر اُسے ساری عمر بھی یہاں رہنے کی اجازت دی جاتی تو وہ اس کے لیے بھی تیار تھا۔ سبب اِس کا یہی تھا کہ جلال آباد شہر سے لے کر اُس کے مضافات تک ولیم نے ہر جگہ کو اپنی ذاتی جمالیات کے آئینوں میں ڈھال لیا تھا۔ رہٹ،نالے،نہریں اور باغات جگہ جگہ پیدا ہو چکے تھے اور مزید کے لیے کوششیں جاری تھیں۔ دوکانوں سے لے کر مکانوں تک،ہر شے میں ایک قسم کی نفاست جھلکنے لگی،جو ولیم کی ابتدائی کوششوں کے بعد خود بخود مقامی لوگوں میں ظاہر ہو رہی تھی۔ ولیم کے یہ چار سال گویا اُس کی زندگی کے حاصل تھے،جن میں اُس نے اس طرح دل جان سے کام کیا کہ یہ علاقہ بالکل بدل گیا۔ دریا کے ساتھ بھینسیں اور بھیڑ بکریاں پالنے والوں کے لیے باقاعدہ چراگاہوں کا قیام سرکاری کھاتوں میں کر دیا گیا اور اُن علاقوں میں چرواہوں کو پوری آزادی دے دی گئی۔ اِس عرصے میں اُس کا تبادلہ کئی دفعہ ہوتے ہوتے بچا،جس کو رکوانے میں اُس نے خود بھی چیف سیکرٹری تک تعلقات قائم کر لیے۔ اِن تعلقات میں اُس کے باپ کا کافی زیادہ دخل تھا کہ سیکرٹری صاحب اُن کے ذاتی دوستوں میں سے تھے،جنہیں دیسی گھی مکھن سے لے کر بھینسوں،بیلوں اور لڑاکا مرغوں تک کا چسکا پڑ گیا تھا۔ جس کی بنا پروہ یہاں چار سال نکالنے میں کامیاب ہو گیا ِ۔ اپنی مرضی سے بھرپور طریقے سے کام کیے اور جلال آباد میں برطانوی راج کے فوائد پورے طریقے سے عوام تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اُسے اس معاملے میں کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مگر وہ فائدے نچلی سطح تک لیجانے میں کامیاب ہو ہی گیا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا نام جلال آباد اور اُس کے مضافات کے غریب غربا تک بھی پہچان میں آ چکا تھا۔ حتیٰ کہ اُس کی شکل بھی جلال آباد کے کئی عام لوگوں نے دیکھ لی تھی۔ امن و امان کے حوالے سے سردار سودھا سنگھ اور عبدل گجر وغیرہ کے قتل کے بعد کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جو ولیم کے لیے پریشانی کا باعث بنتا۔ اگرچہ غلام حیدر لاکھ کوشش کے بعد بھی گرفتار نہیں ہو سکا تھا اور نہ ہی اُس نے دوسری کاروائی کی۔ گویا اپنا بدلا لے کر روپوش ہو چکا تھا۔ البتہ اُس کے اشتہاری ہونے کے بعد ولیم نے اُس کی زمین اُسی کی رعا یا میں بانٹ دی بلکہ اُن کے لیے بھی وہی سہولتیں جاری کر دیں،جو عام تحصیل میں تھیں لیکن ولیم نے اُس کا انتقال کسی وجہ سے غلام حیدر ہی کے نام رہنے دیا۔

مولوی کرامت نے جس قدر محنت اور تندہی سے کام کیا تھا،اُس کے عوض ولیم نے ذاتی دلچسپی لے کر اُس کی مالی اور سماجی حیثیت میں اتنا اضافہ کر دیاکہ اب وہ تحصیل جلال آبادکے معززین میں شمار ہونے لگا۔ بلکہ اُس کے بیٹے فضل دین کو دسویں درجے میں انتہائی اچھے نمبروں میں پاس ہونے کے بعد ذاتی خرچ پر اور کچھ وظیفہ دے کر لاہور ایف سی کالج میں پڑھنے کے لیے بھجوا دیا۔ اب فضل دین بھی وہ فضل دین نہیں رہا تھا،جوصرف روٹیاں مانگنے کا ماہر تھا۔ سکول میں تو ویسے ہی وہ دو دو درجے ایک ایک سال میں طے کر گیا تھا۔ مولوی کرامت کے بھی اتنے پر نکل آئے کہ کئی دفعہ صاحب بہادر سے خود ملاقات نکال کر اُن لوگوں کی شکایات بھی کیں،جو اُس کے کام میں حارج ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ غضب تو یہ کہ اُن شکایات کو سنابھی گیا تھا،جس کے بعد بیشتر لوگ بابووں سمیت مولوی کرامت کی چاپلوسی پر اُتر آ ئے تھے۔ کئی بابو اپنی سفارشیں بھی لے کر آتے،جنہیں مولوی کرامت ولیم تک پہنچانے کی جرات تو نہ کر سکتا تھا،لیکن وہ اُن سفارشی لوگوں کو کام ہونے کی اس طرح تسلی کروا دیتا جیسے یہ اُس کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔ اِن سفارشوں کے عوض مولوی صاحب نے کسی سے پیسے تو نہیں پکڑے تھے،جس کا اُس وقت رواج بھی کم تھا۔ البتہ مختلف قسم کے تحفے تحائف ضرور وصول کر لیتا،جو بظاہر سفارشی حضرات اصرار کر کے مولوی صاحب کے حوالے کردیتے تھے۔ مولوی صاحب اُنہیں اِس لیے بھی قبول کر لیتے کہ اُنہوں نے یہ حدیث پڑھ رکھی تھی کہ ایک دوسرے کو تحفے لینے دینے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مولوی کرامت فی الحال اِس حدیث کے ایک حصے پر عمل کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ مولوی کرامت کے جلال آباد کے اکثر زمینداروں سے اتنے خو شگوار تعلقات پیدا ہو گئے کہ وہ اُسے شادی بیاہ اور موت،غمی سے آگے بڑھ کر اپنی رشتے داریوں کے متعلق بھی مشوروں میں شریک کرنے لگے اور چھوٹے موٹے فیصلوں کا ثالث بھی قرار دے لیتے۔ مولوی کرامت کی ثالثی اِس لیے بھی پائیدار تھی کہ سب جانتے تھے،مولوی صاحب کا کمشنر جلال آباد سے ذاتی تعلق ہے۔ اِس لیے وہ صاحب بہادر سے کہ کر کسی کا بھی چوبارہ گول کر سکتا ہے۔ اِن سب باتوں سے الگ اسکول منشی ہونے کے ساتھ مولوی کرامت نے اپنے لیے جامع مسجد جلال آباد کی امامت بھی حاصل کر لی تھی کہ تین سال پہلے مسجد کے سابقہ پیش امام کو منصوبے کے مطابق ملازمت دلوا کر منڈی گرو ہر سا بھیج کر اور اپنی تمام ذاتی قابلیتوں کے پیش نظر مسجد کی امامت کے فرائض سنبھال لیے تھے۔ جس سے اتنی آمدنی مزید ہو جاتی جتنی مولوی صاحب کی گورنمنٹ کی طرف سے تنخواہ تھی۔ مولوی کرامت کی خوشحالی کے ساتھ شریفاں کے اطوار بھی کافی بدل چکے تھے۔ چک راڑے میں تو کبھی کسی کی میت کے گھر پُرسہ دینے یا مُردہ عورت کو نہلانے اور کفن پہنانے کے سوا دوسرا کام نہیں کیا تھا لیکن جلال آباد میں باقاعدہ گھروں میں میلاداور دیگر بہت سی تقریبات میں مدعو ہونے لگی،جس میں اُسے مولوی کرامت کے برابر نہ سہی،گھر کے خرچے یعنی ہانڈی روٹی کی آمدن ہو ہی جاتی۔ بلکہ اُس نے کچھ نعتیں اور آئتیں رحمت بی بی کو بھی یاد کروا دیں۔ وہ بھی شریفاں کے ساتھ گھروں میں جا کر طرح طرح کی نذر نیاز کا سبق دینے لگی تھی۔ اِس طرح پورے جلال آباد میں مولوی کرامت کے گھر کے علم اور فتووں کی دھوم مچی ہوئی تھی اور کاروبار اِتنا ترقی کر گیا تھاکہ ضلع قصور کے چک راڑے میں تو اِس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ اُدھر فضل دین کا لاہور کے کالج میں پڑھنے سے فضل دین اب بچپن میں ہی مولانا فضل دین بن چکا تھا۔ ایف سی کالج نے اُسے دھوتی کی بجائے پاجامہ پہنا دیا اور بابو بنا کر رکھ دیا۔ عربی فارسی تو اُسے پہلے ہی آتی تھی،کالج کے ماحول نے انگریزی کا اثر ڈالا تو مولانا فضل دین ایک ہی سال میں کئی باتیں انگریزی میں ہی بولنے لگا۔ چھُٹی پر جلال آباد آتا تو لوگ دیکھنے کے لیے آتے اور باتوں باتوں میں ایک دوسرے کو کہتے،بھائی مولوی کا بیٹا تو کوئی بڑا انگریز بنتا جا رہا ہے۔ بعض لوگ اِس بات پر مولوی کرامت سے نا خوش بھی تھے کہ اُس نے اپنے بیٹے کا مذہب خراب کر دیا ہے۔ فضل دین کو باقاعدہ کرسٹان بنا کر مولوی کرامت نے دین کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر وہ مولوی کرامت کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھتے تھے لیکن مولوی کے صاحب بہادر سے تعلقات کی بنا پر کھلے عا م مخالفت سے بھی ڈرتے تھے۔ مولوی کو بھی اُن کی کوئی پرواہ نہیں تھی کیو نکہ ایسے لوگ دیہاتوں میں تو کافی تھے لیکن شہر میں اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی کیونکہ مولوی کرامت کی پچھلے تین سال کی تبلیغ نے جلال آباد کو انگریز بہادر کا وفادار بنا ہی دیا تھا۔

الغرض ولیم نے مولوی کرامت کی حالت بدلنے سے لے کر فیروز پور کی تحصیل جلال آباد کو تعلیمی،معاشی،اور سماجی سطح پر اتنی کچھ ترقی دے دی کہ اُسے محسوس ہی نہیں ہورہا تھا،وہ اپنی نولکھی کوٹھی میں رہ رہا ہے یا جلال آباد کے بنگلے میں۔ کیتھی شادی کے بعد ولیم کے ساتھ جلال آباد کے بنگلے میں تھی۔ بلکہ اب توان کا ایک بچہ بھی تھا،جس کی عمر ڈیڑھ سال ہو چکی تھی۔ کیتھی روزانہ نہیں تو ہر دوسرے دن گھوڑے پر بیٹھ کے جلال آباد کے مضافات میں سیر کو ضرور نکلتی،جس کے دائیں بائیں بیسیوں نوکر،مامائیں اور پولیس والے اٹین شین چلتے اور بھاگتے نظر آتے۔ میم صاحبہ نے یہاں آکر بھی عجب طرح کے پُرپرزے نکال لیے تھے۔ کچھ دن تو دیسی ملازمین کے ساتھ ملائمت سے بات کرتی رہی۔ یہ لوگ اُسے فرشتوں جیسے اور تابع فرمان لگتے تھے۔ اُس کے خیال میں اِن ہندوستانی کالوں کے اندرانتہائی سادگی اور معصومیت تھی کیونکہ اُن کا اپنا نہ کوئی تقاضا تھا اور نہ شکائت۔ یہی وہ لوگ تھے جو صرف صاحب بہادر،میم صاحبہ اور بابا لوگوں کے لیے جیتے اور اُن کی خدمت گزاری میں مرتے تھے۔ اِس لیے اُن کے ساتھ محبت اور شفقت کرنا گورے لوگوں کا فرض تھا۔ کیتھی بات بات پر اُنہیں انعامات سے نوازتی اور شاباش سے دل بڑھاتی۔ لیکن جیسے جیسے ولیم کے اختیارات کی وسعت اور اقتدار کا نشہ دیکھا،لہجے اور خیالات میں تبدیلی آتی گئی۔ حتیٰ کہ تین ہی سال کے اندر اُس نے ولیم کو بھی سرزنش کرنا شرع کر دی کہ وہ اِن دیسی لوگوں کو زیادہ رعایت دیتا ہے اور ملازموں کی غلطی کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اب یہ لوگ اُسے گنوار،اُجڈ،بھکاری،کام چور،چاپلوس اور چغل خور نظر آنے لگے۔ وہ اِس بات کی سختی سے قائل ہو گئی کہ کالے ایک بد بخت نالائق اور منحوس قوم ہیں۔ اِن کے جسموں سے بدبو آتی ہے۔ نہاتے نہیں اور گوروں کے درمیان بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ اِن کو پیار سے نہیں ذلًت اور رسوائی کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ کیتھی کے اپنے شغل بھی ضرور یات سے آگے نکل کر تفریح میں بدلتے گئے،جن میں سے ایک اُسے اُونٹ پر سواری کرنے کا بھی شوق پیدا ہو گیا۔ اِس شوق کو پورا کرنے کے لیے کئی اونٹ خرید ے گئے اور اُن کی دیکھ بھال کے لیے آٹھ آٹھ ملازم رکھ لیے۔ کیتھی ولیم کو بھی اُونٹوں پر اپنے ساتھ سیر کرنے کا اصرار کرتی،جسے پورا کرنے کے لیے اُس نے کئی دفعہ یہ سواری بھی کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب ولیم بھی اُونٹ کی سواری سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اُونٹوں کے علاوہ کیتھی کی کوششوں سے جلال آباد میں اوکا ڑہ کے مقابلے کا تو خیر نہیں،لیکن ایک چھوٹا سا مویشیوں کا فارم ضرور بن گیا۔ اِس فارم کے لیے نیلی کی عمدہ بھینسیں چُن کر دُگنے تگنے مول میں خرید لی گئیں۔ اِس کے علاوہ بنگلے کے پچھواڑے اچھا خاصا باغیچہ بنا دیا۔ اِس میں دُور تک درختوں کی قطاریں ہری چھاؤں کے ساتھ لہلہانے لگیں،جن پر توریوں،کدؤوں،اور کریلوں کی بیلیں چڑھ گئیں تھیں۔ بنگلے کے قُر ب و جوار میں درختوں کی عمر ابھی چار سال ہی تھی لیکن اُن کی حفاظت اِس اچھے طریقے سے ہوئی کہ وہ اب اچھا خاصا سایہ دینے لگے تھے۔

بیلوں کے چڑھ جانے سے اور بھی اچھے لگتے،جو سردیوں کے موسم میں عجیب بہار پیدا کر دیتیں۔ کیتھی نے اپنی بیٹی کے لیے بنگلے کے صحن میں ایک نوابی قسم کا جھولا بھی بنوالیا تھا۔ جھولے میں اپنی سائرز کو لٹا کر اُسے بعض اوقات اپنے ہاتھ سے جھولاتی۔ لیکن اکثر یہ کام ماما سر انجام دیتی اور کیتھی خود صحن میں بے شمار سفیدکبوتروں کو اُڑا اُڑا کر دانہ ڈالتی اور اُن کا تماشا دیکھتی۔ اِن کبوتروں کے صرف پھڑ پھڑانے کی آواز سننے کے لیے کیتھی نے یہ کبوتر آگرہ سے منگوائے تھے۔ کیتھی کے مسلسل جلال آباد میں ہی قیام کی وجہ سے اوکاڑہ میں کیتھلک چرچ اسکول کا کام معطل پڑا تھا۔ لیکن اب ولیم کو کیتھی کے ساتھ رہنے کی عادت پڑ چکی تھی۔ وہ اُسے ایک لمحے کے لیے اپنے سے دور نہیں رکھنا چاہتا تھا،نہ ہی یہ بات کیتھی کو منظور تھی کہ ولیم ڈیوٹی کے وقت کے علاوہ کسی کلب میں بھی اُس کے بغیر جائے یا دوستوں کے ساتھ گپ بازی کرے اور وہ گھر میں اکیلی بیٹھی رہے۔ ولیم سے دُور اوکاڑہ میں رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہاں وہ دونوں اوکاڑہ میں براستہ ہیڈ سلیمان کی ہر پندرہ دن میں دو دن کے لیے چکر ضرور لگاتے،کہ یہ فاصلہ جیپ کے آگے کچھ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ اب تو راستے میں کئی مقامی لوگوں کو بھی اُن کے معمول کے سفر کا علم ہو گیا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی عرضیاں ولیم کے رستے میں پڑنے والی چوکیوں پر جمع کرادیتے،جس کا آڈر ولیم نے پولیس والوں کو بھی کر دیا تھا۔

اب کچھ دن سے ولیم کو ڈپٹی کمشنر رالف کی طرف سے دھڑکا لگا ہوا تھا۔ اُسے ولیم کا اِتنا عرصہ ایک ہی تحصیل میں رہنا گوارا نہیں تھا اور چیف سیکرٹری بیڈن صاحب بھی بدل چکے تھے۔ رالف کو فیروز پور میں آئے ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ اُس نے ولیم کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار شروع کر دیا۔ اِدھر ولیم کو بھی پتا چل چکا تھا کہ اُس کے اب جلال آباد میں دن تھوڑے ہی رہ گئے ہیں۔ اُس نے کیتھی کو آگاہ کر دیا تھا کہ اب وہ جلال آباد سے اپنا بستر لپیٹنے کے لیے تیار ہو جائے کیونکہ پنجاب گورنمنٹ کسی وقت بھی اُسے اُٹھا کر کہیں بھی بھیج سکتی ہے اور آج وہی کچھ ہوا۔ ولیم آرام سے بیٹھ کر فائلوں کا جائزہ لینے لگا تو سب سے پہلے اُس نے جو فائل کھولی اُس میں ولیم کے ٹرانسفر آڈر پڑے تھے۔ ولیم کو مطلع کیا گیا تھا کہ اُس کے چار سالہ تجربے کے پیشِ نظرچیف سیکرٹری آفس لاہور کو اُس کی خدمات کی ضرورت ہے۔ لہذا وہ جتنی جلد ی ہو سکے اپنا چارج تحصیل دار مالیکم کو سونپ کر لا ہورچیف سیکرٹری آفس میں جوائننگ رپورٹ دے۔ ولیم نے آڈر دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور پھر بیل دبا کر کرم دین سے کافی کا کپ بنانے کے لیے کہا۔ آڈر اتنے اچانک اور محتاط انداز میں تیار کئے گئے تھے کہ وقت سے پہلے اُن کی ہوا بھی باہر نکلنے نہیں دی گئی تھی۔ ولیم یہ تو جانتا تھا کہ وہ یہاں سے جانے والاہے لیکن اِتنا اچانک،اُس کے بھی گمان میں نہیں تھا۔ اس لیے اب ولیم نے کسی نئی سفارش کا بندوبست کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ ویسے بھی ذہنی طور پر اب وہ اپنے تبادلے کے لیے تیار ہو چکا تھا،جو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا۔ اب چونکہ ولیم کو جلال آباد کے کسی کام میں قانونی تو پر دخل اندازی کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی وہ یہاں کسی چیز کا ذمہ دار رہا تھا،اس لیے اُس نے فوراً اپنے آپ کو ہلکا پُھلکا کر کے باقی تمام فائلوں کو ایک طرف کر دیا اور دل ہی دل میں رالف پر لعنت بھیج کر پچھلے چار سال میں پیش آنے والے تمام واقعات پر نظر دوڑانے لگا۔ جس میں طرح طرح کے بے شمار کردار ایک ایک کر کے اُس کی آنکھوں میں گھومنے لگے۔ پہلے دن فیروز پور میں ملنے والا باورچی نظام دین،اُس کے معتوب افسر،جن میں لوئیس اور وہ جو ایک دو لوگ ریٹائر ہو کر گھر بھی جاچکے تھے۔ ان کے علاوہ مدن لال ماسٹر،سردار سودھا سنگھ،غلام حیدر،رسہ گیر چوہدری،مولوی کرامت،تھانیداروں سے لے کر عوام تک اور پھر اُس کے ماتحت کام کرنے والی تحصیل انتظامیہ،سینکڑوں ہی طرح کے لوگوں سے اُسے واسطہ پڑا تھا۔ جن میں ایماندار بھی تھے،چاپلوس بھی،کام چور بھی اور کام کے ماہر مگر نکمے بھی۔ اِنہی میں وہ بھی تھے،جو دونوں طرف مخبری کا کام دیتے تھے اور نہایت ایمانداری سے۔ وہ بھی،جنہوں نے ہمیشہ منافقت اور کام چوری سے ربط رکھا۔ یہ سب کچھ ولیم کو یاد آرہا تھا۔ اُسے یہ بھی خبر تھی کہ آنے والا کوئی بھی افسر اس طرح جلال آباد میں کام نہیں کرے گا جس طرح اُس نے کیا ہے۔ وہ عوام کو اپنی رعایا نہیں غلام بنا کر رکھے گا،جیسے خود اُس کی بیگم کا اِن لوگوں کے ساتھ رویہ ہو گیا تھا،۔ اِس خیال کے آتے ہی ولیم ہلکا سا مسکرا دیا،گویا انگریز افسرعورت بن کر مقامی لوگوں کے ساتھ سلوک کرتے تھے،جس کا اُسے اس وقت قلق تو ہو رہا تھا لیکن اب کیا کیا جا سکتا تھا۔ ولیم نے سوچاجلا ل آباد کے لوگوں کو کیا پتا،اُن کی تحصیل میں ولیم کے تبادلے کا کتنا بڑا انقلاب آ چکا ہے۔ اُس نے خود بھی دل میں جلال آباد کو اپنا گھر تسلیم کر لیا تھا اور اُس کے لیے اُسی طرح کام کیا تھا جس طرح اپنے گھر کو بنانے میں کیا جاتا ہے۔ اِسی اثنا میں ولیم نے دوبارہ بیل بجا کر نجیب شاہ کو طلب کیا۔ نجیب شاہ جیسے ہی کمرے میں آیا،ولیم نے اُسے بنگلے میں موجود تمام سامان کو بحفاظت پیک کروانے کا حکم دے دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *