اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
باورچی خانہ ایک خطرناک جگہ ہے۔
ہمارا گھر حویلی نما تھا، جس میں دو دالان تھے۔ ایک اندرونی اور دوسرا بیرونی۔ بیرونی دالان سے ملحق برآمدہ تھا جس میں ٹین پڑا تھا۔ اس کے سامنے ایک وسیع و عریض کچا آنگن جس میں آم کا درخت لگا تھا۔ اندرونی دالان سے ملی ہوئی دونوں اطراف میں کوٹھریاں تھیں، ایک کوٹھری میں بکس ہی بکس رکھے ہوئے تھے۔ نہ جانے کون کون سے زمانوں کے بکس اور ایک کوٹھری میں کتابیں، جو زیادہ تر پرانی اور خستہ حال تھیں۔
برآمدے کے ٹین کو لکڑی کے تھموں اور داسے کے ذریعے روکا گیا تھا، داسے میں جگہ جگہ لوہے کے ہُک نصب تھے جن میں لالٹین جلتی رہتی تھی۔ ٹین کے مشرقی حصّے میں مرغیوں کا ڈربہ اور کبوتروں کی کابُک تھی۔ مرغیوں کے ڈربے سے ملا ہوا زینہ تھا۔ چھت پر کوئی عمارت نہیں تھی۔ صرف منڈیریںتھیں جن پر دن میں کوّے، فاختائیں اور جنگلی کبوتر مٹرگشتی کرتے رہتے تھے اور رات میں آوارہ بلّیاں اگرچہ ہمارے گھر میں بھی کئی پالتو بلّیاں تھیں۔
آنگن میں دونوں طرف قطار سے چھوٹے چھوٹے پودے لگے ہوئے تھے اور ایک نارنگی کا درخت بھی تھا۔
چھتیں سب لکڑی کی کڑیوں کی تھیں اور خستہ حال ہو رہی تھیں،بارش کے دنوں میںجگہ جگہ سے ٹپکتی تھیں۔ کڑیوں میں چھپکلیوں اور چمگادڑوں نے بھی اپنے ٹھکانے بنا لیے تھے۔
آنگن کے مشرقی حصّے میں ہتّھے والا نل لگا تھا جس کے نیچے ایک چھوٹی سی حوضیہ تھی۔ یہاں کپڑے اور برتن دُھلتے رہتے تھے اور گرمیوں کے خشک موسم میں بھڑیں اکٹھا رہتی تھیں۔
اس نل کے سامنے بالکل ناک کی سیدھ میں وہ تھا۔
آنگن کے مشرقی حصّے میں ہتّھے والا نل لگا تھا جس کے نیچے ایک چھوٹی سی حوضیہ تھی۔ یہاں کپڑے اور برتن دُھلتے رہتے تھے اور گرمیوں کے خشک موسم میں بھڑیں اکٹھا رہتی تھیں۔
اس نل کے سامنے بالکل ناک کی سیدھ میں وہ تھا۔
وہ— یعنی باورچی خانہ۔
باورچی خانے کی کڑیوں کی چھت، کم از کم جب سے میں نے دیکھا، دھوئیں سے کالی ہی دیکھی۔ ان کڑیوں میں لٹکتے ہوئے مکڑیوں کے جالے بھی دھوئیں سے کالے ہو گئے تھے اور اُن پر دھول اور غبار کی موٹی تہہ جم گئی تھی۔ جب کبھی بھی (ایسا کبھی سالوں بعد ہوتا تھا) انہیں بانس کے ڈنڈے سے صاف کیا جاتا تو وہ فرش پر کالے کپڑے کی پتلی اورباریک دھجّیوں کی طرح نیچے گرتے باورچی خانے کی مکڑیاں اور چھپکلیاں بھی، وہاں زیادہ تر وقت گزارنے والی عورتوںکی طرح کالی پڑ گئی تھیں اور شاید اسی سبب سے اصل سے کچھ زیادہ زہریلی نظر آتی تھیں۔
ہر طرف کی دیوار کالی تھی اور ہر کونہ کالا تھا۔ مگر اِس سیاہی سے وہاں ایک مانوسیت اور اپنے پن کا احسا س قائم تھا۔ کبھی کبھار جب باورچی خانے میں چونے سے قلعی کروائی جاتی تو بھی یہ سیاہی، سفید چونے کے پیچھے سے جھانکتی ہی رہتی اور جلد ہی اِس پردے سے نکل کر باہر آجاتی۔
باورچی خانے کا فرش کھرنجے کا تھا اور جگہ جگہ سے اُدھڑ رہا تھا، اس میں بڑی بڑی دراڑیں تھیں جن میں چیونٹیاں اور کنکھجورے رہتے تھے اور کبھی کبھی سانپ کے چھوٹے چھوٹے بچّے بھی رینگتے ہوئے اِنہیں دراڑوںمیں گم ہوجاتے تھے۔
باورچی خانے کی چھت کے وسط میں ایک کڑی میں چالیس واٹ کا بلب، بجلی کے تار کی ایک ڈوری سے لٹکتا رہتا تھا۔ اُس زمانے میں ہمارے چھوٹے سے شہر میں بجلی آگئی تھی۔ مگر بجلی زیادہ تر غائب رہتی تھی اس لیے باورچی خانے کے دروازے کی چوکھٹ کے اوپر بھی ایک لالٹین ہمیشہ لٹکی رہتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ یہ لالٹین زیادہ تر بھڑکتی رہتی تھی۔ اس میں کوئی عیب تھا۔ یہ مٹّی کے تیل کو زیادہ مقدار میں برداشت نہیں کر پاتی تھی۔ اکثر اس کی چمنی ایک چھناکے کے ساتھ پھٹ جایا کرتی تھی مگر پتہ نہیں کیوں، باربار چمنی کو بدلتے رہنے کے باوجود، کبھی بھی اس لالٹین کو بدلا نہیں گیا، جس کے پیندے میں ہی کوئی خرابی تھی یا جس کا اپنی ہی بتّی سے کوئی جھگڑا تھا۔
بجلی کا تار لال رنگ کا تھا، مگر بعد میں،وہ بھی کالا پڑ گیا تھا اور اُس پر نہ جانے کیوں مکھیاں چپکی رہتی تھیں۔ باورچی خانے کی جنوبی دیوار پر روشندان تھا۔ جو پام کے ایک پیڑ کی طرف کھلتا تھا، کبھی کبھی جب پام کے پتّے پرانے ہوجاتے تو روشندان سے باورچی خانے کے اندر جھانکنے لگتے بلکہ شاید اَندر داخل ہونے کی کوشش کرتے۔ پام کے یہ پتّے بھی خوب تھے، ٹین سے ٹپکتی ہوئی بارش بھی پام کے اوپر سے گزرتی اور بوندیں یہاں الگ انداز سے گونجتیں۔ بے جان دھات، ٹین اور ایک جاندار شئے پتّوںمیں موسیقی کا ایک مقابلہ ہوتا، ایک اُداس جُگل بندی۔ پام کے یہ پتّے جب بہت بڑے ہوجاتے تو انھیں آری سے کاٹ دیا جاتا اور گھر سے باہر پھینک دیا جاتا، جہاں محلّے کے بچّوں کو ایک دلچسپ مشغلہ ہاتھ آجاتا۔ وہ اس دبیز، نم اور سبز غالیچے جیسے پتّے پر بیٹھ جایا کرتے اور دوسرے بچّے ڈنڈی سے پکڑ کر اُس وسیع و عریض پتّے کو سڑک پر گھسیٹتے پھرتے۔
مجھے افسوس ہے کہ میں کبھی پتّے پر نہ بیٹھ سکا۔ دراصل میری یادداشت میں پام کا پیڑ اور باورچی خانہ آپس میں اِس طرح گڈمڈ ہیں کہ ایک کے بارے میں بات کرنا دوسرے کے بغیر اگر ناممکن نہیں تو ادھوری اور تشنہ ضرور ہے۔
دوسری طرف کی دیوار میں اینٹوں کی ایک جالی لگی تھی جو زینے کی طرف کھلتی تھی۔ زینے کی چوتھی سیڑھی پر بیٹھ کر باورچی خانے کا منظر ایک کالی تصویر کی مانند نظر آتا تھا جس کے وسط میں ایک سرخ دہکتا ہوا دھبّہ تھا۔
یہ چولہا تھا، پنڈول سے پُتا ہوا، جس کے عقب میں اونلہ تھا۔ ایک کھانا پک جانے کے بعد اُس کی ہانڈی اونلے پر رکھ دی جاتی، تاکہ گرم رہے۔ لکڑیاں اگر سوکھی ہوتیں تو چولہے میں دھڑا دھڑ جلتیں اور اگر گیلی ہوتیں تو سارا باورچی خانہ دھوئیں سے بھر جاتا۔ چولہے کے سامنے بیٹھیں ہوئی عورتوں کی آنکھوں سے لگاتار پانی یا آنسو بہتے رہتے۔ جو باورچی خانے کی سیاہی میں گیلاپن بھی پیدا کر دیتے تھے۔ کھاناپک جانے کے بعد، چولہے میں بھوبل باقی رہتی۔ ایک سلیٹی رنگ کی راکھ جس کو کریدنے پر شعلے برآمد ہوتے تھے، اکثر رات کو دودھ کا برتن گرم کرنے کے لیے، اسے بھوبھل پر ہی رکھ دیا جاتا تھا۔
ہمارے گھر میں گوبر کے اُپلوں کا رواج نہیں تھا۔ وہ نسبتاً غریب اور نچلے طبقوں میں استعمال کیے جاتے تھے۔ مگر مجھے جلتے اور سُلگتے ہوئے اُپلوں پر بنی چائے بہت پسند تھی۔ اُس چائے میں دودھ کی خوشبو بہت خالص اورممتا سے بھری ہوئی محسوس ہوتی تھی۔
میں نے ایسی چائے کئی بار پی ہے۔
میں نے ایسی چائے کئی بار پی ہے۔
ہاں مگر ہمارے یہاں بُرادے کی انگیٹھی ضرور تھی، ہر پندرہ دن بعد ایک آدمی ٹھیلے پر بُرادے کی بوری رکھے ہوئے نمودار ہوتا اور بوری کواپنی کمر پر لاد کر تقریباً دہرا ہوتے ہوئے اُسے باورچی خانے کی اندھیری کوٹھری میں لے جاکر پٹک دیتا۔
اُس انگیٹھی میں برادے کو بہت ٹھونس ٹھونس کر بھرنا ہوتا جو ایک مشکل اور تکڑم والا کام تھا۔ ورنہ انگیٹھی اچھی طرح نہیں سلگ پاتی تھی۔
چولہے سے دو ہاتھ کے فاصلے پر دائیں طرف، دیوار پر اینٹوں کی ایک الماری تھی، جس میں روزمرہ کے برتن اور مسالے وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ اکثر یہاں پیاز سڑتی رہتی تھی، فرش پر ایک طرف آٹا گوندھنے کا پیتل کا تسلہ، کالے رنگ کا بڑا اور بھاری توا جو مجھے کالے سورج کی طرح دکھائی دیتا تھا اور جس پر بڑی بڑی گیہوں کی چپاتیاں پکتی تھیں۔ اُن دنوں چھوٹے چھوٹے پھلکوں کا راوج نہ تھا بلکہ اُنہیں بہت حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔
توے کے ساتھ ہی اِدھر اُدھر چمٹا اور پھنکنی بھی پڑے رہتے۔ دونوں کالے رنگ کے تھے اور تشدّد آمیز محسوس ہوتے تھے۔ فرش پر ڈھیر سی، اونچی نیچی، لکڑی کی پٹلیاں تھیں جن پر بیٹھ کر عورتیں کام کرتیں اور جاڑوں کے دنوں میں سب لوگ اُنہیں پٹلیوں پر بیٹھ کر چولہے کے آگے کھانا کھاتے۔
توے کے ساتھ ہی اِدھر اُدھر چمٹا اور پھنکنی بھی پڑے رہتے۔ دونوں کالے رنگ کے تھے اور تشدّد آمیز محسوس ہوتے تھے۔ فرش پر ڈھیر سی، اونچی نیچی، لکڑی کی پٹلیاں تھیں جن پر بیٹھ کر عورتیں کام کرتیں اور جاڑوں کے دنوں میں سب لوگ اُنہیں پٹلیوں پر بیٹھ کر چولہے کے آگے کھانا کھاتے۔
شب برات کے دوسرے دن کی صبح تو دیکھنے کا منظر ہوتا۔ گھر کا ہر شخص، ناشتے کے وقت، باورچی خانے میں آکر پٹلیوں پر بیٹھ جاتا اور رات کے باسی حلوے کو چولہے پر گرم کرکے، تام چینی کی رکابیوں میں باسی روٹی کے ساتھ کھاتا۔
میں یہ بتانا بھول گیا کہ باورچی خانے کے اندرایک طرف، اندھیری کوٹھری تھی جس میں زیادہ تراناج، غلّہ، گھی، تیل وغیرہ بھرے ہوتے تھے۔ اس میں بجلی کا بلب نہیں تھا اور دن میں بھی یہاں لالٹین یا مٹّی کے تیل کی ڈبیہ لے کر جانا پڑتا تھا۔
باورچی خانے میں ہر طرف ایک بکھرائو اور بدنظمی کا منظر تھا۔ جبکہ دیکھا جائے تو کھانا پکانے میں مدد دگار اشیا یا آلات وغیرہ بہت کم تھے۔ صرف توا، پھنکنی، چمٹا، پتھّر کی سِل، ہاون دستہ اور چند چھوٹے بڑے چمچوں یا کفگیر وغیرہ سے ہی کام چلالیا جاتا تھا۔ گرم برتن کو اُٹھانے کے لیے کپڑے کا استعمال کیا جاتا تھا جسے صافی کہا جاتا۔ اگرچہ وہ چکنائی اور سیاہی سے اِس طرح سنا ہوتا کہ عورتوںکی انگلیاں اُس سے چپک جاتیں اور ویسے توتجربہ کار یا منجھی ہوئی عورتیں بغیر صافی کے ہی گرم سے گرم برتن کو چولہے سے اُٹھا لیتیں۔ ان کے ہاتھوں کی کھال سُن ہو چکی تھی۔
برتنوں میں زیادہ تر تو بدقلعی تھے۔ دیگچیاں، ہانڈیاں، پتیلے وغیرہ میں نے ہمیشہ بدقلعی ہی دیکھے۔ جہاں تک کھانا کھانے کے برتنوں کا سوال ہے تو باورچی خانے میں تو تام چینی کی رکابیاں ہی تھیں اور چائے پینے کے مگ بھی تام چینی ہی کے تھے۔ اچھے اور قاعدے کے برتن اندر، دالان میں ایک الماری میں رکھے تھے جو مہمانوں کی دعوت وغیرہ میں ہی باہر نکالے جاتے اور دھوکر فوراً دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ دیے جاتے۔
دعوتوں اور تیوہاروں وغیرہ کے موقعوں پر تو باورچی خانے کی یہ بدنظمی اور بھی بڑھ جاتی۔ خاص طور سے عید کے موقع پر جب چینی کے پیالوں میں سویّاں رکھی جاتیں اور کھرنجے کا فرش ان پیالوں سے ڈھک جاتا جس کو پھلانگ پھلانگ کر اور اپنے غراروں یا شلواروں کے پائینچوں کو اُٹھا اُٹھا کر عورتیں حواس باختہ سی، باورچی خانے میں اِدھر اُدھر بھاگا کرتیں اور اکثرایک دوسرے سے ٹکرا جاتیں۔
کیا کبھی اس بات پرسنجیدگی سے غورکیا گیا ہے کہ باورچی خانے کی تقریباً تمام اشیا میں، چند خاص مواقع پر ایک خطرناک ہتھیار بن جانے کے امکانات پوشیدہ ہیں۔ چاہے وہ ترکاری کاٹنے والی چھری ہو، توا ہو، چمٹا ہو، پھنکنی ہو، جلتی ہوئی لکڑی ہو، چولہے میں روشن، دھڑادھڑ جلتی ہوئی آگ ہو، مسالہ پیسنے والی سل ہو، پسی ہوئی مرچیں یا بھبکتی ہوئی بھوبل ہو یا پھر مٹّی کا تیل ہی کیوں نہ ہو۔گھر کے کسی اور حصّے میں اتنی زیادہ تعداد میں ایسی اشیا نہیں تھیں۔ یہاں تک کہ بیرونی دالان کی دیوار پر کیل میں ٹنگی بندوق بھی ان اشیاء کے آگے حقیر اور کمزور نظر آتی تھی۔
گھر کے کسی بھی حصّے میں اتنے خطرناک بہروپئے نہیںپائے جاتے جتنے کہ رسوئی میں اور گھر کے کسی بھی اور مقام پر عورتیں اتنی برانگیختہ، برافروختہ، حسد سے بھری ہوئیں، تشدّد آمیز اور چھوٹی ذہنیت کی نہیں ہوتیں جتنی کہ باورچی خانے میں۔
باورچی خانہ چاہے گھر کے کسی حصّے میں ہو یا کسی بھی رُخ پر بنا ہو، چاہے واستو شاستر والوں سے کتنی ہی مدد کیوں نہ لے لی جائے، وہاں کے لڑائی جھگڑے نہیں جاتے۔ باورچی خانہ ایک میدانِ جنگ ہے اور پورے گھر، پورے خاندان بلکہ بنی نوع آدم کی قسمت کا فیصلہ اِسی چھوٹے سے اور بظاہر پاک صاف مقام سے ہی ہوتا ہے۔ عدالت یہیں لگتی ہے، مقدمہ یہیں چلایا جاتا ہے۔ اور پورا گھر اپنی خاموش آنکھوں سے یہ تماشہ دیکھتا ہے جب تک کہ آخر وہ کھنڈر نہ بن جائے۔ انسانی آنتوں کی بھوک اور دو وقت کی روٹی میں ایک پُراسرار اور بھیانک شہوت چھپی رہتی ہے۔ یہ شہوت صرف سیاہی اور خون کی طرف بڑھتی ہے۔ اور انجام کار بس ایک فحش اور مغالطہ آمیز بدنیتی بچ جاتی ہے۔ جس کے نشے کے زیر اثر کالی پیلی اور گوری عورتیں، گرم برتنوں کو اپنے سُن ہاتھوں سے اُٹھاتے رہنے کی عادی ہوکر باورچی خانے کے برتنوں سے وہی سلوک کرنے لگتی ہیں جو وہ اپنے مردوں سے کرتی ہیں۔ ان کے مرد آہستہ آہستہ چھوٹے بڑے برتنوں میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ باورچی خانے میں وہ سب بے حد حاوی اور خود غرض ہو جاتی ہیں۔ اُن کے جسم کی کھال سُن ہو جاتی ہے۔ عورتیں، باورچی خانے کے برتنوں کے ساتھ مباشرت کرتی ہیں۔