Laaltain

نعمت خانہ – دوسری قسط

2 مئی، 2017
اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

نظر نہ آنے والے ہمارے آباؤاجداد
ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
اُن چھوڑی گئی سڑکوں پر
کاروں کا شور، بچّوں کی کلکاری
جوان لڑکیوں کے جسم اُن کے آر پار جاتے ہیں
دھندلے،غیر مادّی، ہم اُن کے آرپار سفرکرتے ہیں
اوکتاویوپاز

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مفاد! مفاد کیا تھا؟

 

ہوا کی پتھّرائی ہوئی آنکھیں کیا کیا دیکھیں؟

 

اِن آنکھوں نے دیکھا کہ وہ اپنے ہی گھر میں بھٹک رہا ہے۔ ایک ہاتھ میں مٹّی کی ہانڈی لیے اور دوسرے ہاتھ میں کاغذ کا ایک پیلابوسیدہ نسخہ لیے۔
وہ بھٹک رہا ہے مگر کچھ بھی نہیں دیکھ رہا ہے۔ اس کوّے تک کو نہیں جس کی حادثاتی موت پر نہ جانے کہاں سے، دور دور سے، بہت سارے کوّے چلے آئے تھے اور حیرت انگیز طور پر بغیر کوئی شورمچائے باورچی خانے کی منڈیر پر سر جھکائے بیٹھ گئے تھے۔ ایک گری ہوئی کڑی پر وہی مرا ہوا کوّا خاموش بیٹھا تھا مگر اُس نے نہیں دیکھا۔ قابلِ افسوس حد تک نہیں دیکھا۔

 

ہوا نے دیکھا کہ وہ کن کٹا خرگوش اُس کا ساتھ چھوڑ کر دراصل اپنی ہی قبر پر اُگی ہوئی گھاس کھا رہا تھا اور کاکروچ، اُس کی قمیص سے اُڑ کر، بدنیتی کے ساتھ رینگتا ہوا اُدھر، اس طرف جارہا تھا جہاں باورچی خانے کی اینٹوں اور دیواروں کا ملبہ تھا۔

 

ہوا جانتی تھی کہ سارے گناہوں کو، سارے چٹورپن اور ساری بدنیتی کو اُدھر ہی جانا ہوتا ہے چاہے وہ سب بچپن کے کھیل ہی کیوں نہ ہوں۔ سب کا مقدّر بہرحال ایک ہی ہے۔ شطرنج کی بساط پلٹنے کے بعد بھی، بندر کے مُردہ پنجے کے مانند گزر گئے وقت کو دوبارہ کھینچ کر لانے کے نتیجے میں صرف وہشت اور پشیمانی ہی حاصل ہوسکتے تھے اور کچھ نہیں۔ اصل بات بدنیت اور پیٹ کا کتّا بننا اور پھر مٹ جانا تھا۔ ایک مکمل انہدام کی جانب انسان کا ذہنی اور جسمانی سفر جاری ہے یہاں تک کہ حافظے کا انہدام ہی سب کی معراج ہے۔

 

ہوا اس دنیا کو بھی جانتی تھی کہ وہاں کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا۔ خون کی زنجیر محض ایک حافظہ ہے۔ ساری عبادتیں، سارے مذاہب، سارے اخلاقی فعل دراصل حافظے سے پیچھا چھڑانے کی ترکیبیں ہیں۔ وہاں سب اپنی تنہائی میں مسرور ہوں گے۔ ایک بھیانک بے شرمی کے ساتھ۔ ایسی بے شرمی سے تو بھوت بھی پاک ہے۔ بھوت اس لیے ہے کہ وہ اِس دنیا سے بہرحال کوئی نہ کوئی رشتہ تو قائم رکھتا ہی ہے۔ یہ اور بات کہ اس رشتے میں بدنیتی، حسد اور شیطنت بھری ہو، مگر وہ اپنے حافظے سے دست بردار نہیں ہوتا اور اِس کی سزا اُسے نُکیلے ناخنوں اور آنکھوں کے غاروں کے ذریعے دے دی جاتی ہے۔

 

تو اس دنیا کے تمام رشتے، تمام جذبے، محبتیں، نفرتیں، شہوتیں سب کو حافظے سے نکالناہوگا۔ انسان ایسی جنت میں جاکر کیا کرے گا، جہاں اُسے یہ بھی یاد نہ ہوگا کہ اُس کا باپ کون تھا؟

 

اس نفسا نفسی کے عالم کو برداشت کرنا ہوگا۔ صبر کے ساتھ برداشت کرنا۔

 

ہوا کو اُس کا چہرہ پل بھر کو صاف نظر آگیا۔ وہ ایک طویل اور تکلیف دہ سفر کرکے آنے والے کا تھکا ہوا چہرہ تھا۔ بہت طویل سفر، اتنا ہی طویل جتنا کہ گرم اور سرد ہوائیں طے کرتی ہیں۔ وہ ایک چلتی ہوئی ہوا کی طرح اپنے گھر آیا تھا۔

 

گھر؟

 

اگرچہ گھر شاید کہیں نہ تھا، بس ایک کالاپانی تھا اور ایک بہتا ہوا مہیب کنارہ تھا جو ملبہ نظر آتا تھا۔ جس پر وہ ٹھوکریں کھاتا اِدھر سے اُدھر گھوم رہا تھا۔ ایک اندھے اور حواس باختہ شخص کی طرح ایک بار تو وہ اس طرح گرتے گرتے بچا جیسے کوئی سوکھا پتّہ اپنی ہی پرچھائیں پر گرتا ہے۔ یہ خواب کی مانند تھا، مگر خواب دیکھتے وقت کوئی اپنی ایک آنکھ تک نہیں دیکھ سکتا۔ کاش کہ وہ دیکھ سکتا۔ ہوا کی مانند دیکھ سکتا اپنی اُس ایک آنکھ کی بدنصیبی، اُس کی خشکی اور اس کی نمی۔ افسوس کہ یہ کہاں ممکن تھا کہ جو آنکھ خواب دیکھے، اُس آنکھ کو خواب دیکھنے والا بھی دیکھے۔ کہرے کی مار سے،اپنے آخری اسٹیشن پر بہت دیر سے پہنچنے والے، شکست خوردہ، ایک شرمندہ اور تھکے ہوئے ریلوے انجن کا سا چہرہ دیکھے جو بس اُداس ہوکر سیٹیوں کی مُطلق خاموشی میں دھواں پھینکے جاتا ہے ۔
ہوا کو وہ اپنی ہی طرح نظر آیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *