[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
نارسائی کی دسترس
[/vc_column_text][vc_column_text]
خیال جیسے کوئی چونّی
پڑی ہو ذہنِ رسا کی پٹڑی پہ
آنکھ میچے
پڑی ہو ذہنِ رسا کی پٹڑی پہ
آنکھ میچے
دل ایک بچہ سا منتظر
استوائے مقنا کے معجزے کا
استوائے مقنا کے معجزے کا
زمین سے آسمان تک کی مسافتوں کی کسے خبر ہے؟
رسائی ہو جائے تو غنیمت
نہ ہو سکے تو
یہ نارسائی بھی اپنی نظروں میں معتبر ہے
رسائی ہو جائے تو غنیمت
نہ ہو سکے تو
یہ نارسائی بھی اپنی نظروں میں معتبر ہے
سخن نہیں گر تو کیا مرے دل!
خیال تو تیرا ہمسفر ہے
خیال تو تیرا ہمسفر ہے
سو غم ہی کیا ہے
اگر نہ ابھریں
نظر میں آہن ربا تماشے
سرشت تیری سفر ہی ٹھہری
ترا نصیبا کہ تو انہی نارسائیوں سے سخن تراشے
اگر نہ ابھریں
نظر میں آہن ربا تماشے
سرشت تیری سفر ہی ٹھہری
ترا نصیبا کہ تو انہی نارسائیوں سے سخن تراشے
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]