انڈہ

اینڈی ویئر: تم نے میری طرف حیرانی سے دیکھا۔تمہیں میں خدا کی طرح تو نہیں لگ رہا تھا۔بس ایسا ہی نظر آتا تھا جیسے کوئی بھی اجنبی مرد۔یا ممکن ہے عورت۔ یا شاید کوئی مبہم سی بااختیار شخصیت۔ خدا کی بہ نسبت کسی پرائمری اسکول کا استاد۔

بادشاہ سنتا ہے

اتالو کلوینو: اگر یہ تمام آوازیں ایک باربط تسلسل سے، برابر وقفوں کے بعد سنائی دیتی رہیں تو تمہیں یقین رکھنا چاہئے کہ تمہارے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں، کم از کم اس لمحے، اس گھنٹے اور اس دن۔

خشک نمی

عاصم بخشی: تیرے آنے میں ابھی وقت ہے اے راحتِ جاں سینۂ خشک پہ لازم ہے کہ ایماں رکھے تو جب آئے گی، گھٹا چھائے گی، بارش ہو گی

اگر یہ انسان ہے (انتخاب)

پریمو لیوی: تمام صحت مند قیدی (ماسوائے کچھ ایسے مصلحت اندیشوں کے جو آخری لمحے میں بے لباس ہو کر ہسپتال کے بستروں میں چھپ گئے) 18جنوری 1945 کی رات کے دوران کوچ کر گئے۔ مختلف کیمپوں سے تعلق رکھنے والے یہ کم و بیش بیس ہزار افراد تو ضرور ہوں گے۔انخلاء کی پیش قدمی میں یہ تقریباً مکمل طور طور پر غائب ہو گئے۔ البرٹو ان میں ہی تھا۔شاید کسی دن کوئی ان کی داستان رقم کرے۔

بانسوں کے جھنڈ میں

ریونسوکی اکوتاگاوا: آخر کار میں تھکا ہارا درخت کے نیچے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ میرے سامنے وہ خنجر گرا پڑا تھا جو میری بیوی نے پھینکا تھا۔ میں نے وہ اٹھایا اور اپنے سینے میں گھونپ لیا۔ خون کا ایک فوارہ ابل کر میرے منہ پر آن پڑا ، لیکن رتی برابر درد محسوس نہ ہوا ۔

Insomnia

عاصم بخشی:سوچتا ہوں کہ بھلا کیسے میں سو پاؤں گا اب! روزنِ دید سے کترا کے گزر جائیں گے آنکھ لگتے ہی مرے خواب بکھر جائیں گے

نارسائی کی دسترس

زمین سے آسمان تک کی مسافتوں کی کسے خبر ہے؟ رسائی ہو جائے تو غنیمت نہ ہو سکے تو یہ نارسائی بھی اپنی نظروں میں معتبر ہے

عرفان

اور وہیں کہیں مالک اس سوال چہرے پر ان خیال آنکھوں میں میں نے تجھ کو دیکھا تھا تو بھی سوچتا ہو گا کتنا خوبصورت تھا یہ جو ایک منظر تھا

اونگھ

عشق وہ سرحدِ افلاکِ تمنا پہ کھڑا طائرِ کوتاہ جو پھیلائے اگر پنکھ زمانوں میں سما جائے مگر ڈرتا ہے

روایتی مسلم ذہن میں مسئلۂ الحاد کی غلط تفہیم

کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مشکل پر قابو پانے کا کوئی دوسرا نفیس طریقہ نہ ہونے کے باعث یہ مخصوص روایتی مذہبی شعور اب اپنی داخلی سماعت کے پردوں سے خدا کی یہ تحکمانہ آواز ٹکراتے سن رہا ہے کہ دوڑ میں آگے نکلنے والے حریف کو اڑنگا دے کر گرا دیا جائے؟