اینڈی ویئر: تم نے میری طرف حیرانی سے دیکھا۔تمہیں میں خدا کی طرح تو نہیں لگ رہا تھا۔بس ایسا ہی نظر آتا تھا جیسے کوئی بھی اجنبی مرد۔یا ممکن ہے عورت۔ یا شاید کوئی مبہم سی بااختیار شخصیت۔ خدا کی بہ نسبت کسی پرائمری اسکول کا استاد۔
اتالو کلوینو: اگر یہ تمام آوازیں ایک باربط تسلسل سے، برابر وقفوں کے بعد سنائی دیتی رہیں تو تمہیں یقین رکھنا چاہئے کہ تمہارے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں، کم از کم اس لمحے، اس گھنٹے اور اس دن۔
پریمو لیوی: تمام صحت مند قیدی (ماسوائے کچھ ایسے مصلحت اندیشوں کے جو آخری لمحے میں بے لباس ہو کر ہسپتال کے بستروں میں چھپ گئے) 18جنوری 1945 کی رات کے دوران کوچ کر گئے۔ مختلف کیمپوں سے تعلق رکھنے والے یہ کم و بیش بیس ہزار افراد تو ضرور ہوں گے۔انخلاء کی پیش قدمی میں یہ تقریباً مکمل طور طور پر غائب ہو گئے۔ البرٹو ان میں ہی تھا۔شاید کسی دن کوئی ان کی داستان رقم کرے۔
پیٹر برجر: ہم ایک ایسے علمِ سماجیات کی بات کر رہے ہیں جو کلاسیکی دور کے عظیم سوالوں کی جانب لوٹ جائے، جو وسیع المشرب اور طریقیاتی لچک رکھتا ہو، نظریاتی جبر کے خلاف ہو۔
ریونسوکی اکوتاگاوا: آخر کار میں تھکا ہارا درخت کے نیچے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ میرے سامنے وہ خنجر گرا پڑا تھا جو میری بیوی نے پھینکا تھا۔ میں نے وہ اٹھایا اور اپنے سینے میں گھونپ لیا۔ خون کا ایک فوارہ ابل کر میرے منہ پر آن پڑا ، لیکن رتی برابر درد محسوس نہ ہوا ۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مشکل پر قابو پانے کا کوئی دوسرا نفیس طریقہ نہ ہونے کے باعث یہ مخصوص روایتی مذہبی شعور اب اپنی داخلی سماعت کے پردوں سے خدا کی یہ تحکمانہ آواز ٹکراتے سن رہا ہے کہ دوڑ میں آگے نکلنے والے حریف کو اڑنگا دے کر گرا دیا جائے؟