میں واقعی سبین محمود کو نہیں جانتا تھاجب تک ان کے قتل کی اطلاع مجھ تک نہیں پہنچی تھی مجھے علم ہی نہیں تھا کہ کوئی سماجی کارکن کراچی میں سبین محمود نام کی بھی ہے، جس کا اپناکوئی کیفے ہے، جو مختلف عنوانات پر سیمینار کرواتی ہے، جو عموماً سول سوسائٹی کے اجتماعات میں جایا کرتی ہے، یہ سب باتیں اس خاتون کے قتل کے بعد میرے علم میں آئی ہیں۔
جب تک ان کے قتل کی اطلاع مجھ تک نہیں پہنچی تھی مجھے علم ہی نہیں تھا کہ کوئی سماجی کارکن کراچی میں سبین محمود نام کی بھی ہے، جس کا اپناکوئی کیفے ہے، جو مختلف عنوانات پر سیمینار کرواتی ہے، جو عموماً سول سوسائٹی کے اجتماعات میں جایا کرتی ہے
میرے علم میں تو یہ بھی نہیں تھا کہ کوئی فرزانہ مجید بلوچ نام کی لڑکی بھی ہے جس کا بھائی لاپتہ ہے، وہ تو پچھلے سال چھوٹی عید پر ٹی وی آن کرکے دیکھا تو پتہ چلا کہ عید کے روز بھی کراچی پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کا کیمپ لگا ہوا ہے۔ یہ لڑکی کہہ رہی تھی کہ اگر میرا بھائی قصوروار ہے تو اسے بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ مجھے اس لڑکی کی باتوں میں گہرا غم وغصہ سنائی دیا۔مگر خیر چھوڑیئے ہم اور آپ کوئی پاگل تو ہیں نہیں کہ ان باتوں کو لے کر بیٹھ جائیں جو وسیع تر قومی مفاد کے خلاف بھی ہوسکتی ہیں۔
اور ہاں!! ایک آدمی تھا جس کا نام تھا پروفیسر صباد شتیاری وہ بلوچستان یونیورسٹی میں اسلامیات پڑھایا کرتا تھا۔ اسے کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ مجھے اس کی سرگرمیوں کا علم بھی، اس کے قتل کی خبر جان کر ہی ہوا تھا۔اسی طرح ایک لڑکا تھا جس کا نام ثناء سنگت بلوچ تھا یقین جانئے مجھے اس کے بارے میں جب تک وہ زندہ رہا کچھ معلوم نہیں تھا۔ ایک دن اخبار میں مسخ شدہ لاش ملنے کی خبر چھپی جسے ثناء سنگت بلوچ کے نام سے شناخت کیا گیا تھا۔اس خبر میں لکھا تھا کہ ذاکرمجید بلوچ اور ثناء سنگت کے اغوا کا معاملہ ایک جیسا ہی تھا تبھی تو ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید کہہ رہی تھی کہ اگر میرا بھائی بھی اغوا کے بعد مر چکا ہے تو اس کی لاش بھی مل جانی چاہیئے۔ دراصل فرزانہ کو ذاکر مجید کی بطور اپنے بھائی کچھ زیادہ فکر نہیں، وہ توکہہ رہی تھی کہ میرا باپ بوڑھا ہےتو بہتر یہی ہوگا کہ وہ بیچارہ مرنے سے پہلے ایک بار اپنے بیٹے کے زندہ یا مردہ ہونے کی خبر سن لے۔ ہاں بھئی! کہتی تو وہ لڑکی سچ ہی تھی، بوڑھے بلوچ ماں باپ کا اپنے لاپتہ جوان بیٹے پر اتنا حق تو ہوتا ہی ہے۔ خیر۔
ایک آدمی اور بھی تھا، جس کا نام تھا بشیر قریشی،ستم ظریفی دیکھئے! مجھے اس شخص کا بھی اس کے مرنے سے پہلے علم نہیں تھا۔اسی طرح کوئی دو مہینے پہلے سندھ کے ایک لڑکے کے بھی قتل ہونے کی اطلاع تھی جس کے باپ نے اسے سیاہ کلہاڑی والے لال پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا تھا۔ مجھے اس کا نام یاد نہیں آرہا کوئی مختلف سا نام تھا مگر میں اُس کے نام کو گوگل پہ تلاش نہیں کروں گا کیونکہ میں یہ فیصلہ کرکے بیٹھا ہوں جو کچھ بھی میں لکھنے جا رہا ہوں اسے اپنی یاداشت سے ہٹ کر نہیں لکھنا۔اسی طرح کوئٹہ میں ایک خاتون پروفیسر قتل ہوئی تھیں جن کا نام تھا پروفیسر ناظمہ طالب یا شائد ناظمہ طالب مہدی۔۔ پتہ نہیں۔ بہرحال ایسا ہی کوئی نام تھا۔ میں انہیں بھی قتل سے پہلے نہیں جانتا تھا۔
اور ہاں!! ایک آدمی تھا جس کا نام تھا پروفیسر صباد شتیاری وہ بلوچستان یونیورسٹی میں اسلامیات پڑھایا کرتا تھا۔ اسے کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ مجھے اس کی سرگرمیوں کا علم بھی، اس کے قتل کی خبر جان کر ہی ہوا تھا۔اسی طرح ایک لڑکا تھا جس کا نام ثناء سنگت بلوچ تھا یقین جانئے مجھے اس کے بارے میں جب تک وہ زندہ رہا کچھ معلوم نہیں تھا۔ ایک دن اخبار میں مسخ شدہ لاش ملنے کی خبر چھپی جسے ثناء سنگت بلوچ کے نام سے شناخت کیا گیا تھا۔اس خبر میں لکھا تھا کہ ذاکرمجید بلوچ اور ثناء سنگت کے اغوا کا معاملہ ایک جیسا ہی تھا تبھی تو ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید کہہ رہی تھی کہ اگر میرا بھائی بھی اغوا کے بعد مر چکا ہے تو اس کی لاش بھی مل جانی چاہیئے۔ دراصل فرزانہ کو ذاکر مجید کی بطور اپنے بھائی کچھ زیادہ فکر نہیں، وہ توکہہ رہی تھی کہ میرا باپ بوڑھا ہےتو بہتر یہی ہوگا کہ وہ بیچارہ مرنے سے پہلے ایک بار اپنے بیٹے کے زندہ یا مردہ ہونے کی خبر سن لے۔ ہاں بھئی! کہتی تو وہ لڑکی سچ ہی تھی، بوڑھے بلوچ ماں باپ کا اپنے لاپتہ جوان بیٹے پر اتنا حق تو ہوتا ہی ہے۔ خیر۔
ایک آدمی اور بھی تھا، جس کا نام تھا بشیر قریشی،ستم ظریفی دیکھئے! مجھے اس شخص کا بھی اس کے مرنے سے پہلے علم نہیں تھا۔اسی طرح کوئی دو مہینے پہلے سندھ کے ایک لڑکے کے بھی قتل ہونے کی اطلاع تھی جس کے باپ نے اسے سیاہ کلہاڑی والے لال پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا تھا۔ مجھے اس کا نام یاد نہیں آرہا کوئی مختلف سا نام تھا مگر میں اُس کے نام کو گوگل پہ تلاش نہیں کروں گا کیونکہ میں یہ فیصلہ کرکے بیٹھا ہوں جو کچھ بھی میں لکھنے جا رہا ہوں اسے اپنی یاداشت سے ہٹ کر نہیں لکھنا۔اسی طرح کوئٹہ میں ایک خاتون پروفیسر قتل ہوئی تھیں جن کا نام تھا پروفیسر ناظمہ طالب یا شائد ناظمہ طالب مہدی۔۔ پتہ نہیں۔ بہرحال ایسا ہی کوئی نام تھا۔ میں انہیں بھی قتل سے پہلے نہیں جانتا تھا۔
میں پاکستانی ہزارہ برادری کے کوئٹہ میں واقع محلوں سے تب تک آگاہ نہیں تھا جب تک کہ ان کا قتل عام شروع نہیں ہوا مگر اب مجھے پتہ ہے کہ وہاں ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد کے رلاقوں میں ہزارہ رہتے ہیں
میں پاکستانی ہہ ہزارہ برادری کے کوئٹہ میں واقع محلوں سے تب تک آگاہ نہیں تھا جب تک کہ ان کا قتل عام شروع نہیں ہوا مگر اب مجھے پتہ ہے کہ وہاں ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد کے علاقوں میں ہزارہ رہتے ہیں جو اپنے محلوں سے باہر اس لیے نہیں جاتے کیونکہ انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔۔ وہ یونیورسٹی بھی نہیں جاتے، ملازمتیں بھی نہیں کرپاتے اور تو اور کھلے عام میل جول بھی نہیں رکھتے، جان کس کو پیاری نہیں ہوتی(نجانے کیوں مجھے یہ سب لکھتے ہوئے یہودیوں کی نسل کشی اور اس پر بنی فلمیں یاد آ رہی ہیں)۔
اعتزاز، ملالہ،شفقت حسین، جولین اسانج، ایڈورڈسنوڈن، پروین رحمان اور نجانے کتنے اور بھی سینکڑوں ہزاروں افرادجن سے میں کبھی نہیں ملا، کبھی بھی نہیں۔میں نے توابھی پورا پنجاب تک نہیں دیکھا، میں کبھی سندھ، بلوچستان، گلگت، کشمیر، کہیں نہیں گیا۔ بس پشاور گیا تھا چرسی تکہ والے کے پاس۔ ایک دوست نے کہا کہ اسلام آباد میں ہو اور پشاور نہیں دیکھا۔۔ حد ہے۔ چلو۔ چرسی چلتے ہیں اور میں چلا گیا، میں کیا جانوں کہ سندھ کیا ہورہا ہے اور مجھے کیا معلوم کہ بلوچستان کیسا ہے۔
چھوڑیئے فضول باتیں ہیں جنہیں شاید کوئی نہ چھاپے مگر میں یہ بھیجوں گا ضرور کیوں کہ یہ بلاگ نہیں ہے، یہ کالم یا مضمون بھی تو نہیں ہے۔یہ ایک احساس ہے، کچھ آنسو ہیں، تھوڑا غم ہے۔ یہ اُس سب کچھ کا ایک حصہ ہے جو کسی گرد کی طرح دماغ میں کہیں جمع ہے۔ میں نے یہ گرد اس لیے جھاڑی ہے کہ اب یہ بڑھتی ہی چلی جارہی تھی، میں یہ سب کچھ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ان افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن کے مرنے کی خبر سے ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔
اعتزاز، ملالہ،شفقت حسین، جولین اسانج، ایڈورڈسنوڈن، پروین رحمان اور نجانے کتنے اور بھی سینکڑوں ہزاروں افرادجن سے میں کبھی نہیں ملا، کبھی بھی نہیں۔میں نے توابھی پورا پنجاب تک نہیں دیکھا، میں کبھی سندھ، بلوچستان، گلگت، کشمیر، کہیں نہیں گیا۔ بس پشاور گیا تھا چرسی تکہ والے کے پاس۔ ایک دوست نے کہا کہ اسلام آباد میں ہو اور پشاور نہیں دیکھا۔۔ حد ہے۔ چلو۔ چرسی چلتے ہیں اور میں چلا گیا، میں کیا جانوں کہ سندھ کیا ہورہا ہے اور مجھے کیا معلوم کہ بلوچستان کیسا ہے۔
چھوڑیئے فضول باتیں ہیں جنہیں شاید کوئی نہ چھاپے مگر میں یہ بھیجوں گا ضرور کیوں کہ یہ بلاگ نہیں ہے، یہ کالم یا مضمون بھی تو نہیں ہے۔یہ ایک احساس ہے، کچھ آنسو ہیں، تھوڑا غم ہے۔ یہ اُس سب کچھ کا ایک حصہ ہے جو کسی گرد کی طرح دماغ میں کہیں جمع ہے۔ میں نے یہ گرد اس لیے جھاڑی ہے کہ اب یہ بڑھتی ہی چلی جارہی تھی، میں یہ سب کچھ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ان افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن کے مرنے کی خبر سے ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ میں خوفزدہ ہوں، مجھے علم ہے کہ میں ماما قدیر یا فرزانہ مجید نہیں ہوں کہ مجھے کچھ ہو جائے تو بلوچ قوم پرست شور مچانے لگ جائیں گے، میں سبین محمود بھی نہیں کہ ہر اخبار اور ہر رسالے میں میری مشکوک موت پر مضامین لکھے جائیں اور سِول سوسائٹی والے سڑکوں پر آجائیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ میں خوفزدہ ہوں، مجھے علم ہے کہ میں ماما قدیر یا فرزانہ مجید نہیں ہوں کہ مجھے کچھ ہو جائے تو بلوچ قوم پرست شور مچانے لگ جائیں گے، میں سبین محمود بھی نہیں کہ ہر اخبار اور ہر رسالے میں میری مشکوک موت پر مضامین لکھے جائیں اور سِول سوسائٹی والے سڑکوں پر آجائیں۔ میں تو سلیم شہزاد بھی نہیں، میں رضا رومی بھی نہیں، میں حامد میر بھی نہیں ہوں، کہ صحافی شور مچائیں گے۔
میں تو بس میں ہوں جس کی شناخت خاندان اور چند دوستوں سے باہر موجود نہیں۔ مجھے معاف کیجئے گا میں ایک منتشرمزاج شخص ہوں جسے اول فول لکھنے اور بولنے کاخبط ہے۔میں نے آج صبح ہی درج بالاعنوان پر ایک کثیرالاشاعتی اخبار میں ملک کے ایک ممتاز لکھاری کاکالم پڑھنے کی غلطی کی جس میں سبین محمود کے قتل پر شائع ہونے والے اکثر مضامین پر بھونڈی تنقید کی گئی تھی۔ مجھے لگا کہ جیسے موصوف مصنف اُس لمحے ہمارے معاشرے میں اس طے شدہ روایت کو بھی پسِ پشت ڈال چکے ہیں جس کے مطابق خواتین کا قتل روا نہیں ہوتا۔کسی بھی صورت!!لوگ کہتے ہیں سبین پرلکھنے والے اپنے غیرملکی آقاؤں کے ایجنڈے پر عمل پیراء ہیں۔ اوئے میرے کیہڑے غیرملکی آقا؟؟ میں تے “پنجابی” آں، سونہہ رب پاک دی!! لیکن پھر بھی اگر میری گم نامی بھی کسی اخباری خبر کی مرہون منت ختم ہوئی تو؟؟؟
میں تو بس میں ہوں جس کی شناخت خاندان اور چند دوستوں سے باہر موجود نہیں۔ مجھے معاف کیجئے گا میں ایک منتشرمزاج شخص ہوں جسے اول فول لکھنے اور بولنے کاخبط ہے۔میں نے آج صبح ہی درج بالاعنوان پر ایک کثیرالاشاعتی اخبار میں ملک کے ایک ممتاز لکھاری کاکالم پڑھنے کی غلطی کی جس میں سبین محمود کے قتل پر شائع ہونے والے اکثر مضامین پر بھونڈی تنقید کی گئی تھی۔ مجھے لگا کہ جیسے موصوف مصنف اُس لمحے ہمارے معاشرے میں اس طے شدہ روایت کو بھی پسِ پشت ڈال چکے ہیں جس کے مطابق خواتین کا قتل روا نہیں ہوتا۔کسی بھی صورت!!لوگ کہتے ہیں سبین پرلکھنے والے اپنے غیرملکی آقاؤں کے ایجنڈے پر عمل پیراء ہیں۔ اوئے میرے کیہڑے غیرملکی آقا؟؟ میں تے “پنجابی” آں، سونہہ رب پاک دی!! لیکن پھر بھی اگر میری گم نامی بھی کسی اخباری خبر کی مرہون منت ختم ہوئی تو؟؟؟
One Response
Laal, toeing the same line. Focusing on one issue and neglecting many others. A responsible journalism