Laaltain

میں خاموشی سے کیوں زندہ ہوں؟

11 نومبر، 2015
رات بے چین پھر رہی تھی آنگن میں
اندر کمرے میں
دنیا بھر کے لوگوں کی
چلنے کی آواز آرہی تھی

 

دیوار پر بیٹھی بلی
اربوں ستاروں کے بوجھ تلے دبی
چلا رہی تھی
گھر اپنے کچن میں کھڑا
کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوا چائے پی رہا تھا
اندھیرا جماہی لے رہا ہے
گھانس پر لیٹا ہوا
مٹی مدہوش پڑی تھی

 

ہم آوازوں کے ختم ہونے کا سوچتے ہی نہیں
جب لفظ اپنے آخری حلق سے
آخری بار نکلے گا
جب آخری بار
کائنات میرے ہاتھوں میں
میرے حلق کی تاروں میں
لرز کر
ٹھنڈی ہو جاۓ گی
اور میں پہلی دفعہ
سر اٹھا کر دیکھوں گا
اور میں دنگ رہ جاؤں گا
میری جنس مجھ سے جھڑ جاۓ گی
مجھے آخری استعارے مل جائیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *