رات بے چین پھر رہی تھی آنگن میں
اندر کمرے میں
دنیا بھر کے لوگوں کی
چلنے کی آواز آرہی تھی
اندر کمرے میں
دنیا بھر کے لوگوں کی
چلنے کی آواز آرہی تھی
دیوار پر بیٹھی بلی
اربوں ستاروں کے بوجھ تلے دبی
چلا رہی تھی
گھر اپنے کچن میں کھڑا
کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوا چائے پی رہا تھا
اندھیرا جماہی لے رہا ہے
گھانس پر لیٹا ہوا
مٹی مدہوش پڑی تھی
اربوں ستاروں کے بوجھ تلے دبی
چلا رہی تھی
گھر اپنے کچن میں کھڑا
کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوا چائے پی رہا تھا
اندھیرا جماہی لے رہا ہے
گھانس پر لیٹا ہوا
مٹی مدہوش پڑی تھی
ہم آوازوں کے ختم ہونے کا سوچتے ہی نہیں
جب لفظ اپنے آخری حلق سے
آخری بار نکلے گا
جب آخری بار
کائنات میرے ہاتھوں میں
میرے حلق کی تاروں میں
لرز کر
ٹھنڈی ہو جاۓ گی
اور میں پہلی دفعہ
سر اٹھا کر دیکھوں گا
اور میں دنگ رہ جاؤں گا
میری جنس مجھ سے جھڑ جاۓ گی
مجھے آخری استعارے مل جائیں گے
جب لفظ اپنے آخری حلق سے
آخری بار نکلے گا
جب آخری بار
کائنات میرے ہاتھوں میں
میرے حلق کی تاروں میں
لرز کر
ٹھنڈی ہو جاۓ گی
اور میں پہلی دفعہ
سر اٹھا کر دیکھوں گا
اور میں دنگ رہ جاؤں گا
میری جنس مجھ سے جھڑ جاۓ گی
مجھے آخری استعارے مل جائیں گے
