Laaltain

!مفتی صاحب، ذرا سی مدد

25 ستمبر، 2015
میرے ملک کے “دارالحرب” میں جب سن دو ہزار پانچ عیسوی میں زلزلہ آیا تو مفتی صاحب آپ نے میری قوم کی ذہنی الجھن میں سلجھن کا سامان کیا۔ آفت میں گھری اس قوم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ لمحوں میں آخر ہوا کیا! آپ کا نسخہ تیر بہدف رہا۔ اس کی آہوں اور سسکیوں پہ آپ نے اپنا علمی و ناقدانہ تجزیہ چست کیا۔ میرے جیسے کیئوں نے کہا کہ یہ فطری و قدرتی عملوں میں سے ایک کا مظہر ہے، اس میں انسانی اعمال کا ایسا کوئی دخل نہیں! لیکن میرے ایسوں کو طعنے اور گالیاں دی گئیں اور نیچری ہونے کی دفعہ دُور قِسمی دفعات لگائی گئیں۔ مفتی صاحب آپ نے اس وقت کی حقیقتِ حال پہ تجزیہ رسید کیا کہ زلزلہ “میرے مذہب، (نہیں، نہیں معذرت) میرے فرقے کے اعتقاد سے دوری، نہیں، نہیں، میرے ذاتی الٰہی اعتقاد سے مغائرت کے نتیجے کی ایک بھیانک مثال ہے۔ یہ سبق ہے، یہ سزا ہے، گستاخوں کے ساتھ یونہی ہوتا چلا آیا ہے۔” گویا آپ نے ہر میسر کان کا ہر دستیاب ذائقے اور کاٹ والا نمک چھڑکا میرے دیس کے زلزلہ میں ہوئے جاں بحقوں پہ! میں عامی تھا اور عامی سے بڑھ کے آپ کے فتویاتی ہتھیاروں کا عادی تھا۔ میں اپنی نادانی پہ آنسو بہا کہ، اپنی علمی حسرتوں پہ خون جلا کے، جل کے بھُن کے سو گیا، اور اولادِ آدم کی سنت میں بھول گیا۔
ارباب اختیار نے سیلاب کو خوب دھمکیاں دیں اور کہا گیا کہ “اِب کے آ، اِب کے آ کے تو دِکھا، رزیل !” اور وہ بارہا آتا رہا اور با رہا دھمکیوں کی سبیلیں لگائی جاتی رہیں۔
پھر کیا ہوا، وہی جو ہر سال اداروں کی نالائقی، پے درپے کی خاکی اور سیاہ بخت جمہوری حکومتوں کے ان سے بھی بڑھ کے ناہنجار پرزوں یعنی حکومتی کارندوں کی ہمہ دم اپنی ترقیوں، ٹی۔اے/ ڈی۔اے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے چھیچھڑے کے خوابوں خیالوں میں مست، بلی نما خرگوشوں کی کارگزاریوں کے سبب ہوتا آیا ہے۔۔۔۔۔ذرا مینہ برسا، تودے پگھلے اورسیلاب چلا آیا۔ نقصان میرے ملک کے ان حصوں اور جُزوں کا ہوا جو زیادہ غریب اور ارباب اقتدار کے ہاتھوں زیادہ نظر انداز ہیں۔ کئی کھیتوں کی زرخیزی کے نہ صرف ثمر یعنی فصلیں اجڑ گئیں بلکہ زمین کی اوپری تہہ کی زرخیزی بھی بہہ کے کسی اور کے کھیتوں میں چلی گئی؛ مویشی اور کچے مکان بھی تو ” رُڑ پُڑ جانے” اپنی پانی کی قبر میں زندہ درگزر ہو گئے۔ ادھر سیاسی رہنما نا تھکنے والی تصویریں بنوانے کی حرکات کرتے پائے گئے۔ میڈیا نے بھی اس “ہڑ” کو سکرینوں پہ خوب بیچا، چھوٹے شہروں کے رپورٹروں کا نام بھی لائیو کوریج کے دوران آیا۔ اسی کے سامنے ارباب اختیار نے سیلاب کو خوب دھمکیاں دیں اور کہا گیا کہ “اِب کے آ، اِب کے آ کے تو دِکھا، رزیل !” اور وہ بارہا آتا رہا اور با رہا دھمکیوں کی سبیلیں لگائی جاتی رہیں۔ “نجات دہندے” بھی لانچیں اور کشتیاں لے کے آئے، کچھ ڈوبتوں کو تنکوں کا سہارا ملا۔ ازلی دشمن کی سیلابی جارحیت کی “ضَرَبتُم، ضَرَبتُنّائی” کی گردان سے رو گردانی بالکل نا کی گئی۔ سب رسمیں آخری سمجھ کے ادا ہوئیں، سب رنگ، ہر رنگ کُھل کُھلا کے کھِلا۔
اب کچھ دیر سے پھر دیکھ رہا ہوں کہ دورانِ حج بہت سے انسان خدا کے گھر کے اندر تھے کہ خدا کے اور زیادہ پاس چلے گئے ہیں، تھوک کے حساب سے ان کی روحیں بخارات میں بدل رہی ہیں، کبھی کرین گرتی ہے تو کبھی شیطان کو کنکریاں مارنے کی رسم میں بھگدڑمچتی ہے
مفتی جی، آپ نے اس موقعے پر بھی وہی منتر پھر سے جَپے، آپ نے اپنے خالص تصورِ الہیت سے فرلانگوں کی دُوری کو عذاب کا وجہِ تسمیہ گردانا اور برحق ہی جانا ہوگا۔ وہ مر رہے تھے اور آپ کا مرہم روحوں پہ چھالے ڈالنے میں گُم سُم نہیں تھا بلکہ ہلکان ہوئے جا رہا تھا۔ آپ نے ہماری قوم کی شیطانیت سے جپھیوں کو ہمارے مصائب کے سب سببوں کا سردار سبب مانا اور اونچے منبر سے منوایا بھی!
اس بار میری سوچ کو کچھ “جمہوریت کے نقاد کامیاب صحافیوں” نے تھوڑی دیر کو مہمیز ضرور دیا کہ کچھ اور وجہیں بھی ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں کچھ ہِل جُل سی ہوئی کہ ہر سانحہ محض حادثہ نہیں ہوتا اور ہر واقعہ فقط اعمالِ فطرت نہیں کہ۔۔۔ لیکن میں عامی تھا اور عامی سے بڑھ کے آپ کے فتویاتی ہتھیاروں کا عادی تھا۔ میں اپنی نادانی پہ آنسو بہا کہ، اپنی علمی حسرتوں پہ خون جلا کے، جل کے بھُن کے سو گیا، اور اولادِ آدم کی سنت میں پھر سب بھول گیا۔
اب کچھ دیر سے پھر دیکھ رہا ہوں کہ دورانِ حج بہت سے انسان خدا کے گھر کے اندر تھے کہ خدا کے اور زیادہ پاس چلے گئے ہیں، تھوک کے حساب سے ان کی روحیں بخارات میں بدل رہی ہیں، کبھی کرین گرتی ہے تو کبھی شیطان کو کنکریاں مارنے کی رسم میں بھگدڑمچتی ہے! بہت سے ایسے ویسے قسم کے وسوسے ذہن کے دروازے کو کھٹکھٹا رہے ہیں۔ مفتی صاحب دستِ سوال اٹھائے کھڑا ہوں کہ عامی ہوں، بتا دیجئے یہ ماجرا کیا ہے؟ یہ دھندہ کوئی گورکھ دھندہ تو نہیں؟ یہ شیطان کے بڑھتے سکوپ کی کوئی مثال تو نہیں؟ یہ کیا ہے؟ میری علمیات تو پہلے ہی نحیف تھی اب اتنے بڑے وجودیاتی سوال منہ چڑائے آ کھڑے ہیں۔ ازارہِ کرم ارشاد کیجئے کہ سب حاجی کہیں سرکاری بیت المال سے حج کرنے تو نہیں آ گئے کہ خدا ناخوش ہوگیا؟ یاکہیں خدا کے گھر میں بھی وہ آپ کے عقیدے سے دور تھے تو عذاب نازل ہو گیا؟ بتا دیجئے کہ دل بڑی کسک سے دو چار ہے! میرے شعوری دھارے میں یہ لفظ اُڑتے پھر رہے ہیں: “عذاب”، “دوری”، “اعمال”، “شیطان”، “خدا کا گھر؟”، “حکمران”، “گورکھ دھندہ“۰۰۰۰۰۰۰ مفتی صاحب! حجرے میں بیٹھ کے یا باہر آ کے، لیکن مہربانی کرکے اس آگہی کی ندیا کو بند باندھ دینے والا کوئی جواب ارشاد کر دیجئے! شکسپئر کی ٹریجڈی کنگ لیئر کے ایکٹ 4 سین نمبر 1 میں بولتے کردار، گلاؤسسٹر کے یہ گستاخ الفاظ میرے ذہن پہ خراشیں ڈال رہے ہیں جن کو اردو میں کچھ یوں ڈھالا جا سکتا ہے کہ:
” بالکل انہیں شریر لونڈے لپاڑوں کی طرح، ہم بھی خداؤں کے ہاتھ ہیں چڑھے
وہ مسلتے ہیں ہمیں مکھیوں کی طرح”
زبان درازی مت سمجھئے گا کہ گردن زدنی کا سزاوار ٹھہروں، یہ دماغ پہ برستے ہتھوڑے ہیں جو دماغ درازی کر رہے ہیں۔
میرے محض “ہاؤ ٹُو” کے درجے تک فائز علم کو وجودیات کے گھمبیر سوال درپیش ہیں، کچھ ارشاد ہو تو ہم مزید شکر گزار ہو جائیں گے آپ کے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *