Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

معراج محمد خان

test-ghori

test-ghori

22 جولائی, 2016

[blockquote style=”3″]

معراج محمد خان پر یہ سوانحی مضمون معروف کالم نگار ندیم فاروق پراچہ نے انگریزی روزنامے ڈان کے لیے لکھا تھا۔ یہ مضمون ندیم فاروق پراجہ کے سلسلہ مضامین ‘کریزی ڈائمنڈ’ میں شامل ہے جسے ڈاکٹر عبدالمجید عابد نے ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمجید عابد کے یہ تراجم لالٹین قارئین کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔

[/blockquote]

سنہ 1963ء میں کراچی میں منعقدہ مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کے لئے وقت کے فوجی آمر ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے سٹیج سنبھالا تو بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان نے سٹیج پر ہلہّ بول دیا اور جلسے کا کاروائی معطل کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان طلبہ کو بعدازاں پولیس کے ہاتھوں مار پیٹ اور جیل کی ہوا کھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس روز ان طلبہ کی سربراہی معراج محمد خان نامی ایک شعلہ جوالا نوجوان کر رہا تھا۔ چار سال بعد وہی معراج محمد خان، بھٹو صاحب، نامور دانشوران، ٹریڈ یونین ارکان، صحافیوں اور سیاست دانوں کے ہمراہ ایک نئی سیاسی جماعت(پاکستان پیپلز پارٹی) کا بانی رکن بنا۔

معراج محمد خان معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کے ہمراہ ڈاو میڈیکل کالج کی ایک تقریب میں
معراج محمد خان معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کے ہمراہ ڈاو میڈیکل کالج کی ایک تقریب میں
1950 ء اور 1960ء کی دہائیوں کے دوران طلبہ سیاست سے ابھرنے والے افراد میں سب سے پرجوش اور پرعظم طالب علم، معراج تھا۔ کراچی کے ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والے معراج نے 1957ء میں کالج کے زمانے میں NSF کی رکنیت حاصل کی۔ وہ جلد ہی اس تنظیم کا ایک اہم رکن بن گیا۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف چلنے والی طلبہ تحاریک میں اس نے بھرپور حصہ لیا اور اس ضمن میں کئی بار حوالات کی سیر بھی کی۔ 1960ء کی دہائی کے اوائل میں NSF روس نواز اور چین نواز گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ معراج اور جامعہ کراچی میں اسکا ہم عصر راشد احمد خان، چین نواز دھڑے میں شریک ہوئے۔ سنہ 1965ء میں پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی ناکامی کے بعد بھٹو صاحب نے ایوب خان پر ’جیتی ہوئی بازی مذاکرات کے میز پر ہارنے‘ کا الزام لگایا، اور ان کو کابینہ سے نکال دیا گیا۔ بھٹو صاحب کو معلوم تھا کہ ان کی بات میں زیادہ وزن نہیں لیکن ان کا یہ موقف عوام (جنہیں جنگ کے دوران بے وقوف بنایا گیا تھا) میں ان کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ بنا۔

معراج محمد خان، بھٹو اور رشید احمد خان
معراج محمد خان، بھٹو اور رشید احمد خان
بھٹو صاحب خاص طور پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں میں مقبول ہوئے، اور اس دہائی میں زیادہ تر جامعات میں سٹوڈنٹ یونینیں ان تنظیموں کے زیر اختیار تھیں۔ NSF کا چین پرست دھڑا بھٹو صاحب کے مداحوں میں شامل تھا، اور انہوں نے اس دور کی باقی دنیا کی طرز پر بھٹو صاحب کو ملک میں سوشلسٹ انقلاب لانے کی دعوت دی۔ انقلاب سے زیادہ سیاست کی جانب رجحان رکھنے والے بھٹو صاحب نے بائیں بازو کی ایک سوشل ڈیمو کریٹک جماعت تشکیل دینے کا منصوبہ بنایا۔ مارکسی دانشور جے اے رحیم، سوشلسٹ دانشور ڈاکٹر مبشر حسن (اور شیخ رشید احمد)، اور ’اسلامی سوشلسٹ‘ حنیف رامے اور معراج خالد کے تعاون سے انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی تشکیل دی۔ نئی جماعت کا پہلا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا اور اس میں ترقی پسند دانشوروں، ٹریڈ یونین ارکان، صحافیوں اور سیاست دانوں نے شرکت کی۔ طلبہ کے دستے کی سربراہی اٹھائیس برس کے معراج محمد خان نے کی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ بھٹو صاحب نے معراج کو اپنا قریبی ساتھی اور ہو بہو عکس قرار دیا۔

طلبہ کے دستے کی سربراہی اٹھائیس برس کے معراج محمد خان نے کی اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ بھٹو صاحب نے معراج کو اپنا قریبی ساتھی اور ہو بہو عکس قرار دیا۔
سنہ 1968ء میں ایوب آمریت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو NSF نے صحافیوں اور سیاسی جماعتوں (پیپلز پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی) سمیت اس تحریک میں حصہ لیا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستوں نے اس تحریک کا بیڑا اٹھایا۔ ایوب کے رخصت ہونے پر جنرل یحییٰ خان نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی اور عام انتخابات کا اعلان کیا۔ انتخابی تحریک کے دوران جماعت اسلامی کے غنڈوں نے پیپلز پارٹی کی ریلیوں میں ہنگامہ آرائی کی اور جماعت نے پیپلز پارٹی پر ’ملحدانہ‘ نظریات کی ترویج اور اسلام کو خطرہ پہنچانے کا الزام لگایا۔ اس جھنجھٹ سے نبٹنے کے لئے معراج اور شیخ رشید احمد نے ریلیوں کے تحفظ کی خاطر NSF ارکان پر مشتمل ’سرخ گارڈز‘ تشکیل دیے۔ انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں برتری حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہری۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یحییٰ خان کو اقتدار سے ہٹا کر پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی۔ اس حکومت میں بھٹو صاحب نے معراج کو وزیر برائے محنت وافرادی قوت مقرر کیا۔ وہ اس حکومت کے پہلے دو سال فعال ترین وزیر رہا۔ ایوب کے خلاف چلنے والی تحریک نے طلبہ اور ٹریڈ یونینوں کو متحرک کر دیا تھا اور ان کی انقلابی رو پیپلز پارٹی حکومت آنے کے بعد بھی برقرار رہی۔ حکمران جماعت کے بائیں بازو نے سوشلسٹ اصلاحات بڑھانے پر زور دینا شروع کر دیا۔ اصلاحات کی سست رفتاری کے خلاف کراچی میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک نے فیکٹریوں پر قبضہ کر کے ان کو بند کرنا شروع کر دیا جس پر بھٹو صاحب خوب سیخ پا ہوئے۔ وہ یونینوں کو غیر ذمہ دار سمجھنے لگے اور ان سے پوچھا کہ آخر تم میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو؟ تم ملک کی تباہ شدہ حالت کے باوجود فیکٹریاں کس طرح بند کر سکتے ہو؟ انہوں نے معراج کو یونین سربراہان سے نبٹنے کا حکم دیا لیکن معراج نے صا ف انکار کر دیا اور انہیں اصلاحات کی رفتار بڑھانے کا مشورہ دیا۔ بھٹو صاحب کو اپنے وزیر کی یہ بات پسند نہ آئی اور 1973ء میں ٹریڈ یونینوں اور مزدور یونینو ں کے خلاف کاروائی کا آغاز ہو گیا۔ معراج نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ دینے کے کچھ عرصے بعد بھٹو صاحب کے حکم پر معراج کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور گرفتار کر لیا۔ بھٹو دور کے باقی ماندہ سالوں میں معراج ایک جیل سے دوسری جیل کے چکر کاٹتا رہا اور مختلف کمیونسٹ جماعتوں کا رکن رہا۔ بھٹو صاحب کے خلاف 1977ء میں عوامی مہم شروع ہوئی تو معراج اس تحریک کا حصہ بنا۔

استعفیٰ دینے کے کچھ عرصے بعد بھٹو صاحب کے حکم پر معراج کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور گرفتار کر لیا۔ بھٹو دور کے باقی ماندہ سالوں میں معراج ایک جیل سے دوسری جیل کے چکر کاٹتا رہا اور مختلف کمیونسٹ جماعتوں کا رکن رہا۔
بائیں بازو کے چند دیگر افراد کے ہمراہ وہ پی این اے (جو مذہبی جماعتوں پر مشتمل تھی) کی تحریک میں شریک ہوا۔ تحریک کے باعث ملک میں انتشار پیدا ہوا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج نے پھر سے اقتدار سنبھال لیا۔ معراج مارشل لاء کے نفاذ کے بعد روپوش ہو گیا۔ بھٹو صاحب کے خلاف قتل کا مقدمہ شروع ہوا تو معراج نے بیگم نصرت بھٹو کو صلح کا پیغام بھیجا۔ نصرت بھٹو نے معراج اور دیگر ترقی پسندوں کے ہمراہ بحالی جمہوریت کی تحریک (MRD) چلانے کا فیصلہ کیا۔ بینظیر بھٹو نے معراج، مفتی محمود اور اصغر خان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں ’میرے والد کے قاتل‘ قرار دیا۔ بعدازاں انہیں نے مصالحت کی راہ اپنائی۔ اس تحریک کے باعث معراج کو کئی دفعہ تشدد اور جیل کا سامنا کرنا پڑا۔ ضیاء کی ہلاکت کے بعد ملک میں جمہوریت بحال ہوئی اور پیپلز پارٹی نے بینظیر کی سربراہی میں حکومت کی۔ معراج نے حکومت کا حصہ بننے کی بجائے ملک میں کمیونسٹ جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی (ناکام) کو شش شروع کر دی۔ حیران کن طور پر انہوں نے 1998ء میں عمران خان کی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ وہ ابتدائی طور پر عمران خان اور اس کی جماعت کو ترقی پسند سمجھتے رہے لیکن 2003ء میں انہوں نے تحریک انصاف کو الوداع کہا۔ ان کے مطابق عمران خان آمرانہ طبیعت کا مالک اور سیاست سے نابلد آدمی تھا۔ اب پچاس کے پیٹے میں معراج ریٹائر زندگی گزار رہا ہے اور بہت سی جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ ناقدین معراج کی شعلہ بیانی اور جذباتی طبیعت کو اس کے زوال کا سبب بتاتے ہیں، اور اس کے قریبی ساتھیوں کے مطابق وہ اپنی جدوجہد کی بنیاد پر بہت سی وزارتیں حاصل کر سکتا تھا لیکن وہ اپنے اصولوں پر سودا کرنے کو تیار نہیں تھا۔
ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران معراج محمد خان کو گرفتار کیا گیا
ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران معراج محمد خان کو گرفتار کیا گیا