Laaltain

مسلم دینیاتی فکر کا المیہ

19 مارچ، 2016
کہا جاتا ہے کہ سرسید وہ پہلے مسلمان مفکر تھے جنہوں نے جدید علم الکلام کی ضرورت محسوس کی۔ علم الکلام سے مراد سائنسی اور فلسفیانہ اصولوں کی مدد اور تاویل سے مذہبی و ایمانی معاملات کا جواز پیدا کرنا ہے۔ کلاسیکل مسلم کلام کا آغاز مسلمانوں کے عہدِ زریں کے ان ایام سے جوڑا جاتا ہے جب یونانی و ہندی فلسفہ و حکمت کی کتب کے دھڑادھڑ تراجم ہونے کے باعث حساس مسلم اذہان میں نئے سوال پیدا ہوئے اور اہلِ مذہب کو اپنے عقائد کا جواز پیدا کرنے کے لئے الہامی فرمودات کے علاوہ منطق و فلسفہ سے استفادہ کرنا پڑا۔ مسلم کلام کی ایک Dis­course کی حیثیت سے بنیادی نوعیت یونانی فلسفے کو سامنے رکھتے ہوئے تشکیل دی گئی تھی اور اشعریت سے غزالی تک کلام کے تمام مکاتب و مشاہیر نےیونانی فلسفے کی تاویل و ترمیم یا تنیسخ کا رویہ اپنائے رکھا۔

 

کلاسیکل مسلم کلام کا آغاز مسلمانوں کے عہدِ زریں کے ان ایام سے جوڑا جاتا ہے جب یونانی و ہندی فلسفہ و حکمت کی کتب کے دھڑادھڑ تراجم ہونے کے باعث حساس مسلم اذہان میں نئے سوال پیدا ہوئے
مسلم تہذیب کے زوال پذیر ہونے کے بعد علم و فن نے مغرب کا رخ کیا اور نشاۃِ ثانیہ کے یورپ میں ماضی کا فکری سرمایہ ایک نئے انداز سے پرکھے جانے کا طریقہ عام ہوا۔ یہ دور فلسفے میں مدرسیت اور یونانیت سے بتدریج انحراف کا دور تھا اور کچھ ہی عرصے میں مفکرینِ فرنگ نے علم کی عمارت یکسر جدید زاویوں پر استوار کی۔ یہی دور سائنس کی ترقی کا دور ہے۔ طبعیات میں میکانکی مادیت اور فلکیات میں آفتاب مرکزیت کے تصور نے قدیم تصورِ کائنات کی دھجیاں اڑا دیں اور عیسائیت کا ایک بڑا حصہ جو ان قدیم نظریات کا محض طفیلی تھا منہدم ہو گیا۔

 

کائنات کی حقیقت و کارگزاری کے علم کے لئے سائنس اور معاشرتی معاملات کی تفہیم کے لئے سماجی علوم سامنے آئے۔ اس ساری صورتحال میں مذہب آہستہ آہستہ ذاتی معاملہ سمجھا جانے لگا اور اس کا احاطہ محض اخلاقیات کے چند مسائل اور انفرادی نجات کا سامان کرنے کا بہانہ رہ گیا۔ مغربی دینیات اور اس کے مباحث اس سارے عمل کے ساتھ ساتھ اپنی شکل بدلتے گئے اور جدید یورپ میں مذہب کے معنی و کردار کے بارے میں انقلابی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔

 

تبدیلی کا یہی دور مسلم دنیا میں بدترین فکری جمود اور سیاسی تنزل کا زمانہ ہے۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے کہانی سنتے کسی شخص کے کان بند ہو جائیں اور کہانی چلتی رہے اور جب اس کے کان کھلیں تو کہانی کئی باب آگے بڑھ چکی ہو۔ اس کا نتیجہ جہاں وقت میں پیچھے رہ جانا نکلا وہیں لاعلمی میں گوندھا ابہام ایک بیماری کی طرح ہمارے تہذیبی وجود سے چمٹ گیا۔ مسلم علم الکلام ان سب تبدیلیوں سے بے خبر اب بھی یونانی فلسفہ جسے خود مغرب مسترد کر چکا تھا کا تکیہ لئے محو خواب تھا۔ اس کی نمایاں ترین مثالوں میں ارض مرکزیت کے نظریے پر پچھلی صدی تک مسلم مفکرین کا اصرار ہے۔ ( ہرچند سرسید بھی اس میں شامل ہیں۔) ارض مرکزیت کا یونانی فلسفے اور بعدازاں مدرسیت سے جو جوہری تعلق ہے وہ اربابِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ آدمی اپنے حلیفوں سے پہچانا جاتا ہے لہذا یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ مسلم دینیاتی فکر اس بحث میں کس طبقے کی حلیف اور کس عہد کی نمائندہ ہے۔

 

سرسید نے جدید مغربی علوم کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئے علم الکلام کی بنیاد اٹھانا چاہی جو تازہ مباحث مثلاً سائنس و مادیت کے تعلق سے مذہب کا جواز پیدا کرنے کی ایک کوشش تھی۔
سرسید نے جدید مغربی علوم کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئے علم الکلام کی بنیاد اٹھانا چاہی جو تازہ مباحث مثلاً سائنس و مادیت کے تعلق سے مذہب کا جواز پیدا کرنے کی ایک کوشش تھی۔ علامہ اقبال نے اس راستے پر ان کی تقلید کی اور متکلمانہ جدت کا سہارا لیتے ہوئے عصرِ حاضر کے سائنسی مسائل جیسا کہ نظریہ اضافیت اور تحلیلی نفسیات کو شاملِ بحث کرتے ہوئے اسلام کا جواز پیدا کرنا چاہا۔ جدید کلام اس تواتر سے محروم رہا جو کلاسیکل کلام کو نصیب ہوئی۔ چنانچہ اس سمت میں کام نہ ہونے کے برابر ہو کر قریباً رک سا گیا اور آج فکری سطح پر اسلام کے بطور مذہب معنی و کردار، مسلم دنیا کا وجودی بحران اور بین الاقوامی معاشرے سے مسلم تہذیب کے تعامل سے جنم لینے والے ان گنت معاملات ( جیسا کہ دہشت گردی، جمہوریت، انسانی حقوق وغیرہ ) پر ہمارا تہذیبی رویہ بطور ایک مسلمان کے بے جواب ابہام سے پر ہے۔ اس فکری بحران کے سماجی اثرات ناقابل یقین حد تک بھیانک ہیں اور بیشتر مسلم معاشروں میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلم دینیاتی فکر کا یہ المیہ کئی پہلو رکھتا ہے اور ذیل میں اس کا ایک اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

 

۱۔ کلاسیکل کلام کی طرح جدید مسلم کلام بھی جوہری سطح پر ایک ہی سمت جاتا دوسرا تیر ہے۔ ہرچند کلاسیکل کلام یونانی فلسفہ و سائنس سے مشروط تھا اور جدید کلامی رجحان نے مغربی فلسفہ و سائنس کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن ہر دو نے مذہب کا معروضی جواز پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ طبعی دنیا اور اس کے عوامل کی سائنسی تشریح کو مآلِ کار مذہبی عقائد سے مشروط کیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کلاسیکل کلام نے جس سائنس اور فلسفے سے استفادہ کیا وہ طبعی تحقیق و نظریہ سازی میں روحانی عنصر کو شامل رکھنے کی گنجائش رکھتا تھا جب کہ جدید سائنسی منہاج اسے خارج کر چکا ہے۔ جب خود سائنس ہی اس قدر بنیادی تبدیلی سے گزر کر اپنا آپ بدل چکی ہو تو کوئی کسی طرح اس سے وہی کچھ ثابت کر سکتا ہے جو پہلے ممکن تھا۔ عیسائیت کے ساتھ سائنس کی تاریخی پیکار نے مغربی دینیات کو سائنس کا سہارا لے کر مذہب کا معروضی جواز ڈھونڈنا ممکن نہیں رہنے دیا۔ فلسفے میں جدید ارتیابیت اور لسانی منہاج نے فلسفیانہ سرگرمی میں روحانیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔

 

ریاست و مذہب کی یکجائی ، منظم مذہبی اداروں کا سماجی اثر و نفود اور خود پرستانہ ادعائیت کا اجتماعی مظاہرہ اسی دینیاتی فکر کا پروردہ ہے جو مذہبی سچائی کے معروضی جواز پر یقین رکھتی ہے۔
ایک عرصے تک فلسفے میں نظام سازی کا فیشن موجود رہا ہے اور فلسفیوں نے عظیم نظریات پر مبنی ایسے نظام پیش کئے جو مادی و روحانی عناصر کو آپس میں سموتے ہوئے حقیقت کا ایک کلی تصور پیش کرتے تھے۔ یہ رجحان اس انسانی کیفیت کے بطن سے پیدا ہوا ہے جو کائنات کی کوئی ایسی تشریح چاہتا ہے جس میں انسانی مقام و مقصد کا پہلو بھی موجود رہے۔انسانی پہلو کی ان معنوں میں جوہری موجودگی مذہب کا بھی خاصہ ہے چنانچہ نظام ساز فلسفہ کے زوال سے ساتھ ہی فلسفے کا وہ سرمایہ ختم ہو گیا جو صدیوں سے مذہب کی معاونت کرنے پر قادر تھا۔ جب سائنس اور فلسفہ دونوں ہی ہاتھ سے نکل گئے تو مغربی دینیات نے مذہب کا مسئلہ فرد کے مسئلے سے جوڑ دیا تاکہ جواز کا ایک نیا میدان ہموار ہو سکے۔ جدید وجودیت کا مذہبی حصہ اسی امر کی یادگار ہے۔ تعجب کی بات ہے یہ مسلم فکر نے کلام کی جدید صورت گری میں جدید سائنس اور کسی حد تک فلسفے کو تو خود میں داخل کیا مگر خود دینیات بطور ایک میلانِ تحقیق کی ان حدود کو نظر انداز کیا جن کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ چنانچہ جدید مسلم دینیاتی فکر نے گویا نہائے بغیر نئے کپڑے بدل کر تازہ دکھنے کی کوشش کی۔ اسی رویے کا عملی اظہار گوناگوں مظاہر میں ہوا ہے۔ ریاست و مذہب کی یکجائی ، منظم مذہبی اداروں کا سماجی اثر و نفود اور خود پرستانہ ادعائیت کا اجتماعی مظاہرہ اسی دینیاتی فکر کا پروردہ ہے جو مذہبی سچائی کے معروضی جواز پر یقین رکھتی ہے۔

 

یہاں اس مسئلے کو ایک اور انداز سے دیکھے جانے کی بھی ضرورت ہے۔ تاریخی اعتبار سے مذاہب نے کائنات کی تشریح اپنے اصولوں کی مدد سے کرنا چاہی ہے۔ کونیات مذہب کا ایک اہم جزو ہے جو کائنات کی تخلیق، تعامل اور حتمی طورپر تباہی کی وضاحت دیگر مذہبی عقائد کے تعلق سے کرتا ہے۔ جدید دور میں جہاں یہ ذمہ داری سائنس نے لے لی ہے وہیں مذہب کی سماجی معروضیت یعنی سیاسی اداروں اور سماجی اقدار میں اس کے نفود میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ لبرلزم کا آغاز اسی واقعے کا ظہور ہے۔

 

اپنے تاریخی تجربے میں بھی اسلام نے ریاست و معاشرے میں اپنے اثر کو برقرار رکھںا چاہا ہے جو ایک ایسی دنیا میں تو ممکن ہے جہاں اسلامی کونیات کا علمی جواز موجود ہو مگر اس کے سوا نہیں۔ مسلم کلام نے سائںسی کونیات پر کوئی گراں قدر کام نہیں کیا۔
جدید دنیا میں مذہبی معروضیت کی ان دونوں صورتوں کا انہدام اسی حقیقت کے دو رخ ہیں۔ ہمارے ہاں ہرچند رسمی اعتبار سے ہی سہی مگر کسی حد تک سائنس کو کونیاتی تشریح کرنے کا مقام دیاگیا ہے۔ یہاں رسمی اعتبار سے مراد اکیڈیمک مجبوری کے طور پر ہی سہی پڑھائی جانے والی سائںس ہے۔ شاید اس امر سے اب فرار ممکن نہیں اور اہل مذہب اب سائںس کو رد کرنے کی بجائے اس کی تاویل کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس کے متوازی مذہب کی سماجی معروضِت اب بھی قائم ہے جو سراسر تضاد ہے۔ مذہبی کونیات پر ایمان رکھے بغیر مذہب کی سماجی معروضیت پر اصرار منطقی بنیادوں پر درست نہیں۔ چنانچہ یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ ہم کائںات کا معروضی علم حاصل کرنے کے لئے سائںس اور اس کے عملی افادے کے لئے سائنسی علم پر تشکیل کردہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں جب کہ سماجی ڈھانچے کی تشکیل میں مذہب کا سہارا لیتے ہیں۔ مسلم کلام کو اس مسئلے سے نمٹنے کی زیادہ سنجیدہ ضرورت ہے کیونکہ مسیحیت کا یہ نظریہ کہ مذہبی کتب خدا کا ذاتی کلام نہیں بلکہ رسولوں کا لکھا ہوا ہے جو انہوں نے الوہی ہدایت کے زیر اثر رقم کیے۔اس لحاظ سے مذہبی کتب کی تفسیر و تاویل کی صورت بدل جاتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے عقائد میں قرآن خدا کا براہ راست ذاتی کلام ہے اور اس کے کونیاتی و سماجی احکام کی نوعیت بھی اٹل ہے۔ اپنے تاریخی تجربے میں بھی اسلام نے ریاست و معاشرے میں اپنے اثر کو برقرار رکھںا چاہا ہے جو ایک ایسی دنیا میں تو ممکن ہے جہاں اسلامی کونیات کا علمی جواز موجود ہو مگر اس کے سوا نہیں۔ مسلم کلام نے سائںسی کونیات پر کوئی گراں قدر کام نہیں کیا۔ ہمارے بزرگ کئی سوسال سے زمین کی گردش کے انکار، چھت جیسے آسمان کے وجود پر اصرار، نظریہ ارتقاء کی ایک طویل عرصہ تضحیک کے بعد بے جا تاویلات جیسے کام ہی کرتے آئے ہیں جن کی علمی افادیت صفر بھی نہیں جبکہ دوسری طرف اسلامی سیاسی نظام، اسلامی معاشی نظام، اسلامی عدالتی نظام وغیرہ پر جتنا کام موجودہ دور میں ہوا ہے شاید کسی دور میں نہ ہوا ہو۔

 

۲۔ اس صورتِ حال کا ایک منفی نتیجہ فرد کے مسئلے سے نظر پوشی کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے جو اپنی اہمیت کے لحاظ سے مذہب کے اہم ترین سوالوں کا جوہر ہے۔ مذہبی عقیدے کا فرد کے داخلی وجود سے تعلق اہلِ مذہب کے مباحث میں صدیوں سے موجود رہا ہے لیکن اسلامی دینیاتی فکر کی زیادہ تر توانائی معروضی احوال پر صرف ہونے کے باعث فرد کا مسئلہ نظر انداز ہوا ہے۔ یہاں کچھ باتیں جو باہم متعلق ہیں نہایت اہمیت کی ہیںَ۔

 

کیرکیگارڈ کے نزدیک فرد کو عرفانِ ذات کی روشنی میں مذہبی سچائی کے غیرمتزلزل اور قدر آفریں منبع کو تجربے میں لاتے ہوئے اپنے افعال کے اختیاری چناو کی صورت اپنی خودی کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہونا گا۔
جدید مغربی فکر میں کیرکیگارڈ نامی ایک فلسفی ہو گزرا ہے جسے وجودیت کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ مذہب اور انسانی وجود کے داخلی جوہر کے تعلق پر اس کے مباحث یادگاری حیثیت کے حامل ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے یورپ کی اجتماعی زندگی فکری و تاریخی انقلابات اور بحرانوں کا شکار رہی۔ یہ نطشے کی تاریک دور کے آنے کی بشارت اور اسپینگلر کے زوال مغرب لکھنے سے پہلے کی بات ہے جب کیرکیگارڈ نے اس تہذیبی بحران کی نبض پر ہاتھ رکھا جو نصف صدی میں ہی عظیم جنگوں کی صورت سامنے آیا۔ کیرکیگارڈ کے نزدیک فرد کو عرفانِ ذات کی روشنی میں مذہبی سچائی کے غیرمتزلزل اور قدر آفریں منبع کو تجربے میں لاتے ہوئے اپنے افعال کے اختیاری چناو کی صورت اپنی خودی کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہونا گا۔ اس نے اپنے زمانے کے کلیسا پر بھرپور تنقید کی اور ریاستی مفادات کے لئے مذہب کے آلہٗ کار بن جانے کو عیسائیت کے اس سچے احساس کی تباہی قرار دیا جو محض فرد کے تجربے میں ہی آسکتا ہے۔

 

ریاست کے لئے مذہب سے دوری کی بات تو کئی مفکرین نے کی ہے لیکن کیرکیگارڈ معدودے چند مذہبی مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے اسے خود مذہب کے لئے مضر سمجھا۔ جدید فکر کے اس اہم ترین فلسفی نے دینیات کو جواز کا ایک نیا علاقہ عطا کیا اور مذہبی سچائی کو فرد کے داخلی تجربے سے پھوٹتے اعمال میں دیکھا۔ کیرکیگارڈ اور سرسید ہم عصر ہیں اور یہی دور ہمارے جدید کلام کے آغاز کا دور بھی ہے۔ ہرچند تحریکِ پاکستان کے دوران مسلمانوں کے اجتماعی اضطراب کے دنوں کی وجودی کشمکش اقبال کے تصور خودی میں کہیں کہیں نظر آتی ہے تاہم فرد اقبال کی دینیاتی فکر کا بنیادی موضوع نہیں ہے۔

 

اس دروان سوشلزم کے ظہور نے نئی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی اور مسلم فکر نے اسلام کے سیاسی، معاشی اور ریاستی نظام کی تشریح و توضیح پر پورا زور لگا دیا۔ یاد رہے کہ یہ سب مذہب کے معروضی جواز کا سماجی اظہار تھا جس کی بنیاد میں موجود تضاد سطورِ بالا میں بیان کیا جا چکا ہے۔ ہمارے سماج میں جس منظم طریقے سے مذہب کو ریاست سے ملا کر اقتدار کی سازشوں اور طاقت کی پالیسیوں کا حربہ بنایا گیا وہ نہ صرف کیرکیگارڈ کے اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ اس سے خود مذہب کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ یہ بات بھی واضح کرتا ہے کہ آخر کیوں انبوہ در انبوہ مذہبی شدت پسند اپنی داخلی زندگی میں کسی گہرے مذہبی وجدان کے نا ہونے کے باوجود مذہب کے نام پر کسی کو بھی قتل کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا نظریہ جس کی حتمی بنیاد ہی فرد کے داخلی احساس پر ہو اگر فرد کی زندگی سے بیگانہ ہو کر سیاسی طاقت اور متشدد سماجی تنظیم کی شکل اختیار کر لے تو وہ اپنے بنیادی جواز کی خود ہی نفی کر دیتا ہے۔ یہی نفی موجودہ مسلم دنیا کو زندگی کے اکثر میدانوں میں درپیش ہے اور اگر مسلم دینیاتی فکر نے اسے سلجھانے کی فوری کوشش نہ کی تو شاید تاریخ کو اس کشمکش سے خود ہی باہر نکلنا پڑے مگر ایسی صورت میں ہمارا بہت کچھ ہم سے چھن جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *