Laaltain

مذہب، ریاست اور معاشرہ

1 اکتوبر، 2014
موجودہ دور کےتمام ترقی یافتہ ممالک کا نظام سیکولر جمہوریت پہ قائم ہے ،ان ممالک میں مذہب کا ریاست اور اس کے انتظامی امور میں کوئی عمل دخل نہیں۔ جدید فلاحی ریاست نہ تو مسیح ہے نہ ہندو اور نہ یہودی بلکہ یہ سب عقیدوں کے ماننے والوں کیلئے ہے تاہم بد قسمتی سے مسلم اکثریتی معاشروں میں ریاست اور سیاست کو مذہبی بنیادوں پر چلانے اور متحد کرنے کا چلن ابھی بھی موجود ہے۔ جب ریاست کو عقیدے اور مذہب کی شناخت دی جاتی ہے تو وہ ہر شہری کویکساں اورمساوی شہریت کے اصول کے بجائےمخصوص عقیدے کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ریاستوں خصوصاًپاکستان میں کوئی غیر مسلم کسی کلیدی عہدےپرمحض مذہبی تعصب کی بنا پر نہیں پہنچ پاتا۔مذہبی ریاستوں میں آئین اور قوانین بھی ویسے ہی بنتے ہیں جو مقتدرطبقات کے مکتبہ فکر یا عقیدے سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ان حالات میں ہر شہری ریاستی پالیسی یا اکثریتی فرقہ سے مطابقت رکھنے والے طرزعمل کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے، لہٰذا معاشرے سے وہ تمام تنوع تحلیل ہونے لگتا ہے جو کسی بھی معاشرے کو فعال اور خوبصورت بناتا ہے ۔اس کے برعکس اگر ہم ان ریاستوں کہ جائزہ لیں جہاں ریاستی امور میں مذہب کوئی کردار نہیں تو ہمیں بے پناہ تنوع نظر آے گا جو معاشروں کی ترقی،تہذیب و تمدن اور برداشت میں بنیادی عنصر اورعامل ہے۔
ذرا تصور کیجئے کہ اگر ریاست ہائے متحدہ امریکا کا نام کرسچین ریپبلک آف امریکا یا بھارت کا نام ہندو ریپبلک آف انڈیا رکھ دیا جائے اور وہاں کا آئین اور قوانین بھی اتنے ہی مذہبی ہوں جتنے ہمارے یہاں ہیں تو وہاں بسنے والی اقلیتوں سے متعلق معاشرتی رویوں پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
ذرا تصور کیجئے کہ اگر ریاست ہائے متحدہ امریکا کا نام کرسچین ریپبلک آف امریکا یا بھارت کا نام ہندو ریپبلک آف انڈیا رکھ دیا جائے اور وہاں کا آئین اور قوانین بھی اتنے ہی مذہبی ہوں جتنے ہمارے یہاں ہیں تو وہاں بسنے والی اقلیتوں سے متعلق معاشرتی رویوں پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ امریکا اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو کو اگر ہر سرکاری و انتظامی تقریب سے پہلے بائبل اور گیتا کے اقتباسات سننا پڑتے تو وہ کیا محسوس کرتے،ریاست سے انکی وفاداری کس حد تک برقرار رہتی اور اگر حضرت عیسیٰ علیہ سلام کو الله کا بیٹا نہ ماننے پر عیسائی اکثریت کے حامل ممالک توہین رسالت کا قانون نافذ کر دیں تو کیا وہاں بسنے والے مسلمان خود کو محفوظ تصور کر سکیں گے؟ لیکن ترقی یافتہ معاشروں کی خوبصورتی یہی ہے کے وہاں مذہب کو ریاستی امور سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے ، گرجا ہو مسجد ہو یا مندر؛ ریاست کی نظر میں ایک جیسی تکریم کے مستحق ہیں، کسی مخصوص عقیدے کے حامل کو کسی دوسرے عقیدے پر عمل کرنے والے پر کوئی فوقیت نہیں۔
ریاستی امور میں اگر ایک مرتبہ مذہب کو داخل کر دیا جائے تو وو اپنا اثرو رسوخ پھیلاتا ہی چلا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب اکثریتی مذہب کے نفاذ کے بعد ریاستی جبر اور طاقت کے بل بوتے پر اکثریتی فرقہ کے غلبہ اور دیگر مسالک کی تکفیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ مذہب کا سیاسی استعمال مذہبی علماء کے طبقہ کو طاقتور کرتا ہے جو سیاست کے بعد معاشرت میں دخیل ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں آج عالم یہ ہے کہ پولیو مہم ہو،یوٹیوب کا استعمال یا حقوق نسواں؛ ہر معاملہ میں جدید علوم سے بے بہرہ مولوی حضرات قوم کی رہنمائی کر رہےہیں۔سوٹ بوٹ والے اینکر ہیپاٹائیٹس اور دیگر متعدی امراض کا علاج وظائف اوردم درود کے ذریعہ ٹی وی سکرینوں پر بتا رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر عورت کے کار چلانے کی خامیاں بتائی جا رہی ہیں اور مذہبی علماء خواتین کی نقل و حمل کی آزادی کو محدود کرنے کا درس مذہب کے نام پر دے رہے ہیں۔ یہ مسائل صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ وہ تمام ممالک جن کے ناموں کے ساتھ مذہب کا لاحقہ لگ چکا ہے وہاں معاشرے کی “تطہیر” کا کام ریاست کی سرپرستی میں جاری ہے۔ مثال کے طور پر ایران میں مولوی حضرات خواتین کی بے حیائی کو زلزلوں کی بنیادی وجہ بتا رہے ہیں، خوش ہو کر گانے یا ناچنے پر تعزیری سزائیں دی جارہی ہیں، سعودی عرب کے مولوی ابھی یہ نہیں طے کر سکے کہ عورت کن حالات میں گاڑی چلا سکتی ہے اور کیا محرم کے بغیر علاج معالجہ بھی کرا سکتی ہے یا نہیں۔
معاشرتی رویوں کا انحصار ریاستی سطح پراپنائے جانے والی اقدار پر ہے، اگر ریاست سب شہریوں کو ایک نظر سے دیکھے گی تو افراد بھی ایک دوسرے کے لیے عزت اور احترام کے جذبات رکھیں گے اور ریاست بھی مستحکم ہوگی ، لیکن اگرکسی ایک طبقہ کے مذہب یا عقیدہ کا ریاستی امور میں عمل دخل بڑھتا رہے تو ایک وقت آتا ہے کہ معاشرہ تکفیریت کی روش پر تمام اقلیتوں کو ریاست سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم کر دیتا ہے۔

One Response

  1. Dear Writer:

    You are talk­ing about India as a lib­er­al sec­u­lar state and they don’t allow their reli­gion and reli­gios­i­ty in state affairs. Accord­ing to my poor obser­va­tion and read­ings, India has a high­ly con­tro­ver­sial and dis­crim­i­nat­ed state towards reli­gious dis­crim­i­na­tion. Don’t you remem­ber the Babri Masjid Issue, Gujjrat Train Inci­dent and many oth­er issues fac­ing by Mus­lims and oth­er minori­ties??

    Yes, we in Pak­istan is fac­ing lot of issues due to our var­ied reli­gious beliefs and inter­ven­ing of reli­gious val­ues in state affairs but the need of the time is to give solu­tions and prac­ti­cal imple­men­ta­tions rather than just crit­i­cism and expla­na­tions of facts.

    Thanks,
    Nazia Hus­sain

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. Dear Writer:

    You are talk­ing about India as a lib­er­al sec­u­lar state and they don’t allow their reli­gion and reli­gios­i­ty in state affairs. Accord­ing to my poor obser­va­tion and read­ings, India has a high­ly con­tro­ver­sial and dis­crim­i­nat­ed state towards reli­gious dis­crim­i­na­tion. Don’t you remem­ber the Babri Masjid Issue, Gujjrat Train Inci­dent and many oth­er issues fac­ing by Mus­lims and oth­er minori­ties??

    Yes, we in Pak­istan is fac­ing lot of issues due to our var­ied reli­gious beliefs and inter­ven­ing of reli­gious val­ues in state affairs but the need of the time is to give solu­tions and prac­ti­cal imple­men­ta­tions rather than just crit­i­cism and expla­na­tions of facts.

    Thanks,
    Nazia Hus­sain

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *