Laaltain

لکهنوی تعجیب

28 اکتوبر، 2015
لکهنؤ کے ایک علاقہ میں افواه پهیلی ہوئی تهی کہ جنّت الفردوس جانے کے لیے نماز پڑهنے، روزه رکهنے یا زکوٰۃ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ نجمہ محمد کے ہاں پکنے والا کهانااس قدر لذیذ اور مزیدار ہے کہ گویا جنّت نجمہ صاحبہ کے معمولی سے مکان میں ہے۔ ہر پختہ ایمان مسلمان کو جنّت کی شہد، دودھ اور شراب کی نہروں کی پیاس رہتی ہے، لیکن نجمہ صاحبہ کی ہاں چوبیس گھنٹے ابالے کو دھری پستے بادام والی چائے سے یہ پیاس بجهائی جا سکتی ہے اور ان کی بے مثال بریانی ، مزے دار مٹهائیاں اور لا جواب کباب کهاکر، جنّت کے پهلوں اور مرغ و ماہی کی تمنّا باقی نہیں رہتی۔
جب یہ افواه، جو حقیقت سے بہت دور نہیں تهی، لکهنوی علما تک پہنچی تو ان میں سے کچھ دین دار اور متشرع حضرات سخت پریشان اور فکرمند ہو گئے۔ خدا نخواستہ، اگر سب مسلمانوں کو یہ بات پتہ چل گئی تو وه لوگ کیوں کرعبادت گاہوں کا رخ کریں گے، زکوٰۃ ، فطرانہ اور صدقہ ادا کرنے والے ہاتھ روک لیں گے اور ان کی مساجد ویران ہو جائیں گی؟
شیخ الشیوخ حضرت یاسر ابن ابی یاسر اس ‘حسن بن صباحیت’ پر سب سے زیادہ ملول و دل گرفتہ تھے ۔ شیخ لکهنؤ کے عظیم الشان علماء میں سے سب سے جانے پہچانے اور ضعیف العمرمولانا تهے جنہوں نے سعودی عرب میں جوانی کاٹی تھی اور امام کعبہ سے درس لیتے رہے تھے۔ سرزمین حجاز کی برکت سے وه ہمیشہ ایک خاص انداز میں خطبہ دیتے تهے جس میں اردو کی نسبت عربی جملوں کا بے محل اور مہمل استعمال زیادہ ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے بیشتر لوگوں کو ان کی باتوں میں سے اکژ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تها مگر عربی کی مار کھانے والوں پر ان کی علمیت کی دھاک خوب جمی ہوئی تھی۔ شیخ صاحب نے نجمہ خاتون کو فتنہ گردانا اور ان کا تدارک اذن الٰہی۔
اگلے ہی جمعہ شیخ صاحب اسلام بچانے کےلئے ایک پُر جوش خطبہ دیا تاکہ مسلمانوں کی غیرت بیدار ہو سکےاور غیرت مند مسلمان نجمہ صاحبہ کے اس فتنے کا تدارک کرنے کو اٹھ کھڑے ہوں۔ قرآن شریف کی کئی آیات کی تلاوت اور طویل عربی دعا کے بعد انہوں نے “فأما بعد”کہہ کر اپنی مخصوص عربی زدہ اردو میں خطبہ دینا شروع کیا:
“مسلمین و مسلمات، اخوان و اخوات، ہمارے عیون کے بالمقابل ایک خبیث و شریر، ابلیس صفت ملعونہ و مطعونہ فتنہ پرور عورت امت کو گم راہ کر رہی ہے۔ اعوذ بالله من الشیطان اللعین الرجیم – جس کا نتیجہ لا یزال مضروب الحال بلا سوال للمُسنین والاطفال ہو سکتا ہے!”
لکهنؤ کے ایک علاقہ میں افواه پهیلی ہوئی تهی کہ جنّت الفردوس جانے کے لیے نماز پڑهنے، روزه رکهنے یا زکوٰۃ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ نجمہ محمد کے ہاں پکنے والا کهانا اس قدر لذیذ اور مزیدار ہے کہ گویا جنّت نجمہ صاحبہ کے معمولی سے مکان میں ہے۔
اس پیچیده عربی زده اردو جملہ کو حاضرین نے قرآن پاک سمجها۔ کچھ لوگوں نے “صدق الله العظیم” پڑها، اور دوسروں نے اپنی جھینپ چهپانے کے لیے کہا “سبحان الله، کیا بات ہے! سبحان الله!” ۔
“یا ایہا المؤمنون!” مولانانے اپنی بات جاری رکهی، “مسئلۂ ما بہ النزاع کیا ہے؟ خبیث واقعۂ متذکّره کیا ہے؟ ہَل اَنتُم مِنَ اَلعَالِمِین؟ ” یہ عربی سوال یعنی “کیا آپ لوگ جاننے والوں میں سےہیں؟” پوچھ کر مولانا جواب کے انتظار میں کچھ رکے۔ حاضرین کو بالکل نہیں معلوم تها کہ مولانا کیا کیا کہے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اندازه لگایا کہ آخری جملے کا مطلب “آمین یَا رَبَّ اَلعَالَمین” تها اور اسی وجہ سے سب لوگوں نے اپنے پهیلےہوئے ہاتھ اپنے منہ پر پهیرے اور “آمین” کہہ کر کهڑے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا کر چلے گئے۔
مولانا یاسر کا خطبہ مؤثر نہ ہونے کے با وجود ، جب سیّد عبد الحسین حسینی نے اس خطبہ کی خبر سنی، تو بہت ناراض ہو ئے ۔ سیّد حسینی لکهنؤ کے ایک اہم شیعہ عالم ا ور مولانا یاسر کے رقیب تهے۔ انہوں نے اپنے وعظ کی تیاری شروع کی۔ مولانا یاسر کی مخالفت کرنے کے لئےسیّد حسینی چاہتے تهے کہ حضرت رابعہ بصری کے بارے میں بات کریں۔ صوفی لوگ کہتے ہیں کہ ایک بار رابعہ بصری گلیوں میں گهومتے پهرتے چلی جا رہی تهیں، ان کے ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے میں پانی کا ایک لوٹا تها۔
جب لوگوں نے ان سے پوچها کہ مشعل اور لوٹے سے کیا کریں گی تو انہوں نے جواب دیا:
” ہمیں جنّت کے باغ کو جلانا اور جہنّم کی آگ کو بجهانا چاہیئے، تا کہ کوئی جنّت کی امید سے یا جہنّم کےخوف سے خدا کی عبادت نہ کرے بلکہ صرف خدا ہی کے لئے پُر خلوص عبادت کرے۔”
سیّد حسینی کے نزدیک، اگر نجمہ محمد کے ہاتھ میں ودیعت کردہ ذائقے کے طفیل جنّت کی طلب مٹ جاتی ہے تو اچهی بات ہے کیوں کہ جنّت کی چاہ مٹ جانے کے بعد مسلمان صرف خدا کے لئے عبادت کریں گے نہ کہ جنّت جانے کے لئے۔
لہذا، سیّد حسینی کے نزدیک، اگر نجمہ محمد کے ہاتھ میں ودیعت کردہ ذائقے کے طفیل جنّت کی طلب مٹ جاتی ہے تو اچهی بات ہے کیوں کہ جنّت کی چاہ مٹ جانے کے بعد مسلمان صرف خدا کے لئے عبادت کریں گے نہ کہ جنّت جانے کے لئے۔
یہ خطبہ لکهنے کے بعدسیّد حسینی اپنے امام باڑہ پہنچے اور خطبہ دینے لگے:
” برادرانِ گرامی، ایک سنجیده مسئلہ ہمارے سامنے آیا ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک نیک صفت ، نیک طنیت، فخر زہرہ، مونس بتول نجمہ محمد—”
نجمہ محمد کا نام آتے ہی لوگ سمجھے کہ شاید آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہوا ہے۔ ان کی بات کاٹ کر حاضرین نے ایک پُر جوش صَلَوات بهیجی۔ اس کے بعد سیّد حسینی نے اپنی بات جاری رکهنے کی کوشش کی۔
“اس بات پر غور کیجیے کہ لکھنو کے گلی کوچوں میں یہ شریف زادی نجمہ محمد۔۔۔ ”
دوباره ان کی بات کاٹ کر حاضرین نے اونچی آواز سے صَلَوات بهیجی، “اللہم صل علی محمد و آل محمد!”
بار بار نجمہ محمد کی بات کرنے کی کوشش میں سیّد حسینی کی بات کٹ جاتی تهی۔ آخر کار حسین صاحب نے ‘نجمہ محمد’ کا مکمل نام نہ لینے کے لیے “نجمہ صاحبہ” کہہ کر کام چلانے کا فیصلہ کیا:
“خدا را سُنو! نجمہ صاحبہ کے پکوان۔۔۔”
پهر کوئی “نعره حیدری!!!” چیخا اور نہایت اونچی آواز سے سب حاضرین نے نعره حیدری بلند کیا۔ کچھ اور صَلَوات اور نعروں کے بعد مایوس ہو کر سیّد حسینی نے اپنا وعظ ادھورا چهوڑ دیا۔ وہ بھی مولانا یاسر کی طرح لوگوں کو کچھ پیغام نہیں دے سکے۔
آخر کار نہ مولانا یاسر کی بات سمجھی گئی اور نہ سیّد حسینی کی بات سنی گئی۔ نہ کسی پر کوئی اثر ہوا اور نہ کسی قسم کا فساد۔ مولانا یاسر اپنی پیچیده عربی زده اردو میں خطبہ دیتے رہے اور سیّد حسینی کی بات پُر جوش صلوات اور نعروں سے کٹتی رہی اور نجمہ محمد، جن کو اس معاملہ کی کوئی خبر نہیں تهی، اپنا لذیذ کهانا پکاتی رہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *