Laaltain

تمہارا نام اور دیگر نظمیں (فاطمہ مہرو)

15 مئی, 2020
Picture of فاطمہ مہرو

فاطمہ مہرو

صبحِ خوبصورت

وہ اپنی پسندیدہ لِپ سٹِک
پستول کی نوک سے لگاتی ہے
کئی طرح کے پسینوں کی خوشبؤوں سے
اُس کی ڈریسنگ ٹیبل بھری رہتی ہے
اُسے لفافوں کو بوسوں سے
بند کرنے کی پُرانی عادت ہے
خواہ ڈاکیا اُنہیں خود پڑھ لے
اُس کی الماری
جاگ کر بدلے جانے والے کپڑوں سے
خالی خالی
چاند، اُسے، اپنے ماتھے
اور ستارے، کلائی پر باندھنے سے فُرصت نہیں
ناشتے کی میز پر، اخبار میں، اُسے
گزشتہ شب کی سُرخی پسند ہے
اور خادموں میں، کُتے
کسی نئے مہمان کو خوش آمدید کہنے کو
ہر برینڈ کا سگرٹ
اُس نے شام سے پہلے ہی لے رکھا ہے
وہ الکوحل کی بوتل
اپنے بیڈ کے بائیں طرف
کھڑکی کے سامنے چُھپائے رکھتی ہے
رات گئے ایک سیب اور خنجر
اُس کے سرہانے چمکتے ہیں
اور اندھیرے، اُس کا لباس بنے
ساری رات بدن چاٹ کر
صبح کی روشنی تیار کرتے رہتے ہیں !

عورتیں ہمیں دھکیلتی ہیں

ہم گندم پر اکتفا کر لیتے
لیکن ہمارے سامنے کچی روٹی کی مہک رکھی گئی
اور پھر روزے توڑنے پڑے
ہم ایک گناہ پر راضی تھے
لیکن اُن میں مامتا کوٹ کوٹ کے بھری تھی
سو ہمیں سارے ثواب کھونے پڑے
ہم اپنی زمینوں پہ مطمئن ہونے کو تھے
کہ جنگل میں لکڑہارے سے ملاقات ہو گئی
اور اچانک برسات
ہمیں چار کے معنی معلوم نہ ہو پاتے
اگر کبھی ہم ایک سے سیر نہ ہوئے ہوتے
اور عمل کو ضربِ مسلسل سے نہ گزارا جاتا
ہمیں ہر کنویں میں خودکشی کا شوق بھی نہ ہوتا
اگر وہ ہماری رات سے زیادہ گہرے نہ ہو سکتے
اور پانی مزید سستا
ہم ان کے پیروں تلک رہتے
اگر دل کو راستہ، ناف سے ہو کر نہ جاتا
اور دماغ، وہ تکیوں پہ نہ دھر آتیں
ہمیں سرخ رنگ کی عادت ڈالی گئی
جس سے ان پر لگنے والے سارے دھبے ہمارے کہلائے
اور شراب کے معنی بدلتے رہے
ہمیں آگ سے کھیلتے ہوئے
ایک رات بھی نہ مکمل ہوئی کہ اعلان ہوا:
اپنی مرضی سے کھیلنے پر ہاویہ ہمیشہ کے لیے تمہاری ہوئی !

چشمہ

وہ اِس سے ساری عورتوں کو
دیکھتا ہے
اور میَں
سارے مردوں کو

اُسے دن میں اِس سے بلیک ہول کا ہالہ
اور رات میں کہکشاں دکھائی دیتی ہے
مجھے، مکھیوں کے لئے شہد

سونے سے پہلے اِسے اتارنے پر
مَیں دھندلا جاتی ہوں
اور وہ مجھے صاف نظر آنے لگتا ہے

مجھے ہمیشہ اس میں اپنا ماضی نظر آتا ہے
اُسے، اپنا حال
سو ہم اِس بد صورتحال میں
مستقبل سے بے نیاز رہتے ہیں

اِسے ڈھنگ سے پہن کر کوئی بھی
آدم و حوا کی جبلت و خصلت
کی ناک پر بنا کوئی نشان چھوڑے
سارے جسم کا رنگین سی ٹی سکین کر سکتا ہے

وہ اِسے زیادہ تر بارش
اور مَیں، دھوپ میں استعمال کرتی ہوں
استعمال، اکارت نہیں جاتا

اُسے، اِس میں سے سب کچھ سُرخ
اور مجھے، گندمی دکھائی پڑتا ہے
یہ گرگٹان رنگ بدلنے میں ماہر ہے

اِس چشمے کو رہن رکھ کر
پانی بیچا
اور شہد خریدا جا سکتا ہے

وہ سب اِسے دن میں کھُلےعام بیچنے
اور رات کو، چُپکے سے خریدنے پر تُلے ہوئے ہیں
یہ منافع بخش کاروبار کی ضمانت ہے

ایک بار کسی نے اِسے بے دھیانی سے کھولا
اور جلد بازی میں جوڑ دیا
اب کسی سائز کا فیتہ، دوبارہ،
اس کا نظارہ ایڈجسٹ نہیں کر سکتا !

تمہارا نام

تمہارا نام شاعری ہونا چاہیے تھا
ہم آنکھیں موند کر
صرف تمہارا دیکھنا سوچتے
اور میرؔ کا دیوان سُلگ اٹھتا

تمہارا نام سمندر ہونا چاہیے تھا
کہ تمہاری بحرالکاہلی گہرائی
ماپنے کو دنیا کے تمام جزائر سے زیادہ
فاصلہ طے کرنا پڑتا

تمہارا نام پینٹنگ ہونا چاہیے تھا
کوئی مونا لیزا تمہیں سمجھ نہ پاتی
اور تمہارے قیمتی ترین ہونے پر
ساری زندگی تمہاری قیمت جمع کرنے میں لگا دیتی

تمہارا نام موسیقی ہونا چاہیے تھا
تاکہ تمہاری خامشی اور منظر کے درمیان
موجود لہروں کو ترتیب دے کر
اک نیا سلامت علی خان بنایا جا سکتا

تمہارا نام دیوتا ہونا چاہیے تھا
کہ تمہاری داڑھی میں اک سفید بال کو
دن میں سات مرتبہ چوم کر
گھر بیٹھے حج کیا جا سکتا !!

برائے فروخت

برائے فروخت
برائے فروخت
سانپ کی کھال اور بکرے کا گوشت
زبان، ضمیر، دل گُردے یا پوست
تازہ، مفید اور سستا مرے دوست
برائے فروخت

کوڑے دان میں دسترخوان سجاتا فقیر
دھکا دے کر گاڑی بھگاتا امیر
کارل مارکس کے سارے مخالف یا اسیر
برائے فروخت

ٹی ہاٶس میں ملنے والی چائے
جگت بازی، مباحثے، نقادوں کی رائے
اونچے ایوانوں میں دیوانوں کی ہائے
برائے فروخت

دنیا کو تیسری جنگ سے بچانے کی ترکیب
خُدا، خلا، سزا ، جزا اور بلاِ مہیب
گیتا، قرآن اور نظم پڑھنے کی ترغیب
براۓ فروخت

آۓ روز سڑکوں پہ احتجاجی صدا
ہڑتالوں میں نعرے لگاتے چند بے نوا
خودکشی، خواب اور مستقبل کا پتہ
برائے فروخت

ترتیب سے درخت کاٹتا آدمی
انگلیاں چھیدتی ہوئی بانسری
ان سے چِھلے کاغذ پہ لکھی شاعری
برائے فروخت

عزت،بشہرت، سچ اور کھوٹ
سرطان، عقرب، حمل یا حوت
زندگی، عمر، پیدائش اور موت
برائے فروخت !

ایک لڑکی جو چاند کے نیچے سوتی ہے

ایک لڑکی جو چاند کے نیچے سوتی ہے
ادھار دے سکتی ہے دودھیا چاندنی
رات کی رانی کو خوشبوٶں کے سراب
گھنے درخت کو ایک سانپ

ایک لڑکی جو چاند کے نیچے سوتی ہے
پیدا کر سکتی ہے کسی بھی دریا میں
کششِ ثقل کی لہریں
غزل کہنے والوں کے لئے بحریں

ایک لڑکی جو چاند کے نیچے سوتی ہے
بھیج سکتی ہے ہوا کے ہاتھ
اپنے سے دُور محبوب کو رنگین راتیں
خواب، رتجگے اور برساتیں

ایک لڑکی جو چاند کے نیچے سوتی ہے
کاٹ سکتی ہے آنکھوں میں رات
گُھپ اندھیروں میں بن کر ستارے
مچھلی ہو کر سمندر کے دھارے

ایک لڑکی جو چاند کے نیچے سوتی ہے
کر سکتی ہے ہر اندھے کنویں میں
گولائیوں کی صورت اجالا
اچانک خطا کا بر وقت ازالہ

ایک لڑکی جو چاند کے نیچے سوتی ہے
کھول سکتی ہے پچھلے پہر
صبح کاذب میں پھوٹنے والے راز
کون جانے چاند کے نیچے سو جانے
سے۔۔۔۔ چاندنی۔۔ پاکباز۔۔۔

چال

چلنے کے لئے
رُکنا پڑتا ہے
اور ایک جگہ رُکنے کے لئے
بہت زیادہ چلنا پڑ سکتا ہے
چلتے چلتے
اک دَم رُک جانے سے
قدم ڈگمگا سکتے ہیں
اور رُکنے کی جگہ پہ
اچانک چلنے سے، چلن خراب ہو سکتا ہے
رُکنا اور چلنا
آدمی کو
نظروں میں اُٹھا اور گِرا سکتا ہے

ہمارے لیے لکھیں۔