میں جب ساتویں مرتبہ خواب سے بیدار ہوا تو خود کو میز پر جُھکے پایا۔ کلاک مسلسل بارہ بجائے جا رہا تھا۔ میں کافی لمبی چھٹی گزار کر آرہا تھا۔ میں نے دراز کھولا اور بنڈل نکال کر میز پر رکھا۔ “آج کام کافی زیادہ ہو گا” میں نے سوچا۔ کُل ایک کم سو خط تھے جنہیں میں نے اپنی منزل تک پہنچانا تھا۔ آج سے اٹھائیس برس پہلے میں محکمہ ڈاک میں ملازم ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں اس شہر میں آیا تھا تو سولہ سترہ سال کا جوان لڑکا تھا۔ میں محکمہ جاسوسی میں بھرتی ہونا چاہتا تھا مگر شہر میں داخل ہوتے وقت ایک حادثے میں میری دائیں آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ وہاں سے مایوس ہو کر میں ڈاک کے محکمہ میں بھرتی ہونے چلا آیا۔ انہوں نے میری ایک آنکھ سے نظر بچا کر میری متجسس جبلت کی تعریف کرتے ہوئے فوراً بھرتی کر لیا۔ میرا کام اُن خطوں کو منزل تک پہنچانا تھا جن کہ اوپر کسی بھی قسم کا پتہ درج نہ ہوتا تھا۔ ان اٹھائیس سال میں ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں کسی خط کو منزل تک نہ پہنچا پایا ہوں۔ محکمہ میری کارکردگی سے بہت خوش تھا وہ مجھے ترقی دے کر ٹکٹ شماری کے شعبے میں بھیجنا چاہتے تھے مگر مجھے گمنام خطوں کے قاصد بننے کے علاوہ کچھ بھی آتا نہیں تھا سو میں اسی شعبے میں ٹکا رہا۔ مجھے ٹھیک سے یاد تو نہیں کہ میں نے اب تک کتنے خطوں کو منزل تک پہنچا پا ہو گا مگر وہ یقینا ہزاروں میں ہوں گے۔
ان اٹھائیس سالوں میں ہمارا وطن دو جنگوں سے گزرا تھا، چار آمرانہ اور ایک جمہوری دور بھی آیا تھا، چھ سیلاب اور دو زلزلے بھی آئے تھے۔ ایک بار طاعون کی وبا اور قحط سالی بھی آئی جس میں آدھا شہر ختم ہو گیا مگر میرے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ عام طور پر مہینوں میں چند ہی خط موصول ہوتے تھے لیکن کبھی کبھی تو ایک دن بھی سینکڑوں خط پہنچانے پڑتے۔ میں ہمیشہ آفس آتے ہی نیچے کا دراز کھولتا، تمام گمنام خطوں کو ترتیب لگاتا، انہیں چمڑے کےبستے میں ڈالتا اور دفتر کی پچھلی طرف کی سیڑھیاں اُتر کر برگد کے درخت کے نیچے کھڑی اپنی پرانی بائسکل (یہ ہمیشہ سے پرانی ہی تھی)اُٹھاتا اور گمنام خطوں کی منزل کی طرف چل پڑتا۔ یقین جانئیے میں نے آج تک کسی سے راستہ نہیں پوچھا تھا۔ جیسے میں پہلے سے ہی جانتا تھا کہ کس خط کو کہاں پہنچانا ہے۔
میں نے اپنی اکلوتی آنکھ کو پیشانی پہ درست کیا اور تمام خطوں کو میز پر پھیلا کر ترتیب دینے لگا۔ سب سے پہلے وہ خط الگ کئے جن کے کونے بائیں طرف سے مُڑے ہوئے تھے۔ اُن کو میں نے بستے کی سب سے اوپر والی جیب میں ڈالا۔ پھر ان خطوں کو الگ کیا جن پر کچھ بھی تحریر نہیں تھا لیکن ان کے ورق پھر بھی کورے نہیں تھے یہ خط تعداد میں سب سے زیادہ موصول ہوتے تھے۔ ان کو میں نے بستے کی انتہائی اندرونی جیب میں رکھا۔ کچھ ایسے خط بھی تھے جن میں محض اخباری تراشے چسپاں تھے۔ اُن خطوں کو بیگ کی عقبی جیب میں رکھا۔ دو گیلے خط بھی موصول ہوئے تھے جن کو تقدس کے ساتھ میں نے بیگ میں پھیلا کر رکھ دیا۔ ایک خط میں گلاب کی سوکھی ہوئی پتیاں تھیں۔ جن کو میں نے سب کے اوپر رکھ دیا۔ ابھی میں خطوں کو ترتیب دینے میں مشغول تھا کہ سامنے کے دروازے سے وہ داخل ہوا۔ سورج کی تیز روشنی میں پہلے تو اُس کا چہرہ ٹھیک سے نظر ہی نہیں آ رہا تھا لیکن وہ ایک ٹانگ سے لنگڑا رہا تھا تب میں نے اُسے پہچانا۔یہ خوش شکل لڑکا جب بھی دفتر آتا تو چائے کی دوپیالیاں لے کر میرے پاس آجاتا۔ یہ بہت عجیب لڑکا تھا میں نے اسے ہمیشہ خوش ہی دیکھا تھا۔ اُس نے مجھے آتے ہی بتایا کہ اُس کی ماں پچھلے ہفتے مر گئی تھی۔ اُس کی ماں کو کینسر اور انتظار کا مرض عین جوانی میں لگ گیا تھا۔ اس لڑکے نے اپنے باپ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کچھ لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ اس کی ماں ایک رقاص کی محبت میں مبتلا ہو گئی تھی جو روز برگد کے درخت کے نیچے ٹھیک بارہ بجے رقص کیا کرتا تھا۔ رقاص کے قدم کہاں ٹھہرتے ہیں ایک دن ایسے ہی ناچتے ناچتے وہ گم ہو گیا تھا۔ مجھے لوگوں کی باتوں سے کیا، مجھے یہ نوجوان بہت اچھا لگتا تھا۔ درحقیقت میں اس کی محبت میں مبتلا ہو چکا تھا۔ میں اور وہ اُس کی ماں کی موت کے سوگ میں دو منٹ خاموش رہے۔ لیکن اُس کے لئے خاموش رہنا بہت مشکل تھا۔ اُس نے فورا اپنا نیا خط پڑھ کہ سُنانا شروع کر دیا۔ وہ جب بھی آتا اپنا نیا خط مجھے پڑھاتاجو اُس نے اپنی محبوبہ کےنام لکھا ہوتا تھا۔ چائے کا تو بہانہ ہی ہوتا تھا اُس نے دراصل مجھے اپنا خط سنانا ہوتا تھا۔ میں اکثر اُسے کہتا کہ وہ یہ خط مجھے دے دے تا کہ میں اس کو منزل تک پہنچا دوں گا لیکن اُس نے مجھے کبھی خط نہیں دیا تھا۔ کبھی کبھی تو مجھے گمان ہوتا کہ اُس کی محبوبہ ایک فرضی کردار ہے اور وہ محض خط لکھنے کی محبت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ لیکن میں نے اُس سے یہ بات کبھی نہیں کی تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ اُس کا جواب مجھے کسی گمشدہ خط کی طرح اداس کر دے گا۔ مجھے احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ کب کا جا چُکا ہے۔ جب میں تنہا ئی کو پڑھتے پڑھتے اکُتا گیا تو اپنا بیگ سمیٹتے ہوئے باہر نکل آیا۔ برگد کے درخت کے نیچے سے سائیکل اٹھاتے وقت مجھے ایک فکر نے آن گھیرا۔ مجھے رہ رہ کر یہ احساس ہو رہا تھا کہ کوئی خط میز کے اوپر چھوڑ آیا ہوں۔ کیا “میں آج تمام خط پہنچا پاوں گا میں نے خود سے سوال کیا”۔ ہوا میرے اندر رقص کر رہی تھی بیگ میں موجود تمام خط پھڑپھڑا رہے تھے۔