Laaltain

علی محمد النمر کون ہے؟

29 ستمبر، 2015
پاکستان کے ایک ، دو انگریزی اخبارات میں خبر آئی ہے کہ 21 سالہ سرگرم شیعہ کارکن علی محمد النمر کو سعودی عرب سرقلم کرکے مصلوب کرنے کی تیاری کررہا ہے اور اس کی آخری اپیل بھی مسترد کردی گئی ہے۔ اردو پریس اس معاملے پر بالکل خاموش ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں کسی چینل نے بھی اس خبر کو نشر کرنا ضروری خیال نہیں کیا ہے۔ روزنامہ ایکسپریس سمیت کئی ایک اردو اخبارات نے ٹیکساس کے ہائی اسکول میں اپنا بنایا ہوا ” گھڑیال ” لےجانے اور بم سمجھ کر پکڑے جانے والے سعودی نژاد احمد کے اسکول چھوڑ کر عمرہ ادا کرنے کی خبر کو صفحہ اول پر شائع کی ہے۔ ہالی ووڈ کے فلم سٹار اور امریکی ٹی وی چینل “ایچ بی او “پر ” رئیل ٹائم ” کے نام سے ٹاک شو کرنے والے بل ماہر نے اپنے شو میں “علی محمد النمر ” کی الم ناک کہانی کو اجاگر کیا اور کہا کہ اگر آپ نے اپنا ساراہیرو ازم “آئی سٹینڈ ود احمد ” ہیش ٹیگ پرخرچ نہ کردیا ہو تو ہیش ٹیگ علی محمد النمر کے لیے بھی اپنا کچھ وقت وقف کریں۔ علی محمد النمر کون ہے ؟ اور اس کے لیے آواز اٹھانا کیوں ضروری ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر ذہنوں میں موجود ہے۔
سعودی پولیس ، انٹیلی جنس اور فوج نے خفیہ ٹارچر سیل بنارکھے ہیں جہاں سیاسی مخالفین پر جبر و تشدد کیا جاتا ہے
۱۴ فروری ۲۰۱۴ کو سعودی عرب کے تیل کی دولت سے مالا مال دو مشرقی صوبے قطیب اور الاحصاء “بہار عرب ” سے متاثر ہوئے اور مقامی افراد کی اپنے حقوق کے لیے شروع کی گئی تحریک میں تیزی آگئی ۔ ان دونوں صوبوں کے عوام سڑکوں پر آگئے، مظاہرے شروع ہوگئے اور شیخ محمد نمرالنمر اس تحریک کے روح رواں بن کر ابھرے۔ شیخ محمد نمر ایک روشن خیال ، اعتدال پسند شیعہ عالم اور سیاسی رہنماء خیال کئے جاتے ہیں ۔سعودی عرب کے ان دونوں مشرقی صوبوں یعنی احصاء اور قطیف کی 99فیصد آبادی شیعہ ہے اور سعودی عرب میں شاید یہی دو صوبے ایسے ہیں جہاں کی غیر وہابی آبادی اپنی مذہبی شناخت قربان کرکے سعودی حکام سے مراعات حاصل کرنے سے انکاری ہے اور مزاحمت بھی کررہی ہے ۔ اس آبادی نے آج تک “آل سعود ” کے حجاز پر قبضے کو تسلیم نہیں کیا ۔ سعودی عرب کی جابر ریاستی مشینری ان صوبوں کو زبردست جبر ، خوف ، تشدد اور پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہے اور ان دونوں صوبوں ميں انسانی حقوق کی بدترین پامالی دیکھنے کو ملی ہے۔ سعودی پولیس ، انٹیلی جنس اور فوج نے خفیہ ٹارچر سیل بنارکھے ہیں جہاں سیاسی مخالفین پر جبر و تشدد کیا جاتا ہے ۔شیخ محمد نمر النمر نے اپنی بے مثال جدوجہد، استقامت اور واضح سیاسی فکر کی وجہ سے شیعہ اکثریت کے ان دو صوبوں میں مقبول ترین سیاسی رہنماءکی حیثیت حاصل کر لی ہے اور وہ اس علاقے میں جاری سیاسی مزاحمت بلااختلاف متفقہ قائد ہیں۔ ان کی مقبولیت اور ان دونوں صوبوں ميں تحریک مزاحمت میں تیزی سے سعودی حکام سخت پریشان تھے اور جب فروری 2012 میں قطیف و احصاء میں بڑے پیمانے پر بہار عرب پھیل گئی اور مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تو سعودی حکام نے پوری طاقت سے اسے کچلنے کافیصلہ کرلیا۔پہلے شیخ محمد نمر النمر کو گرفتار کیا گیا اور ان پر “اللہ سے بغاوت کرنے” کا الزام عائد کیا گیا کیونکہ سعودی عرب میں سعودی بادشاہ کے خلاف سیاسی احتجاج کا مطلب اللہ سے بغاوت کرنا ہے ۔ انہیں “ایرانی ایجنٹ ” قرار دے کر سعودی عرب کے خلاف مسلح بغاودت کی تیاریاں کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ جبکہ ساری دنیا کو علم ہے کہ شیخ محمد نمر النمر عدم تشدد پر مبنی پرامن سیاسی جدوجہد کے قائل ہیں اور ان کی تقریروں میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جس سے یہ کہا جاسکے کہ وہ سعودی عرب کی مشرقی صوبے کی شیعہ اکثریت کو تشدد پر اکسارہے ہیں ۔
گرفتاری کے وقت علی محمد النمر محض 17 سال کا تھا،کم سن افراد کی جیل میں تشدد کا نشانہ بنا کر سعودی حکام نے اسے اعترافی بیان پر دستخط کرنے پر مجبور کیا ۔
شیخ محمد نمر النمر کی گرفتاری اور عقوبت خانے میں ان پر تشدد کے باوجود سعودی عرب کے مشرقی صوبوں میں مظاہروں اور مزاحمت میں کمی نہیں آئی اور شیخ محمد نمر النمر نے بھی سعودی حکومت کے آگے جھکنے سے انکار کردیا تو چودہ فروری 2012ء کو قطیف کی پولیس نے شیخ محمد نمر النمر کے 17 سالہ بھتیجے علی محمد النمر کو آتشیں ہتھیار جمع کرنے اور قطیف کے لوگوں کو سعودی حکام کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کے لیے اکسانے سمیت کئی سنگین الزامات لگاکر گرفتار کرلیا۔ گرفتاری کے وقت علی محمد النمر محض 17 سال کا تھا،کم سن افراد کی جیل میں تشدد کا نشانہ بنا کر سعودی حکام نے اسے اعترافی بیان پر دستخط کرنے پر مجبور کیا ۔ ایک سال بعد جب علی محمد النمر 18 سال کا ہوا تو اسے بالغوں کی جیل میں بھیج دیا گیا اور اس کا مقدمہ سعودی مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ سعودی عرب کا عدالتی نظام نہایت غیرمنصفانہ ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث جانا جاتا ہے۔ سعودی عدالتوں میں مقدمے کی تفصیلات خفیہ رکھی جاتی ہیں اورملزمان کو صفائی کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اسی جابرانہ اور غیر منصفانہ نظام نے علی محمد النمر کو سزائے موت دینے کا فیصلہ27مئی کو صادر کیا۔
سعودی عرب میں حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے صرف سر ہی قلم نہیں کئے جاتے بلکہ انہیں کئی روزتک چوراہوں میں لٹکاکر بھی رکھا جاتا ہے تاکہ کسی اور کو آل سعود کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی ہمت نہ ہو
علی محمد النمر کے مقدمے پر ایک غیرسرکاری تنظیم “Legal Charity Reprieve” کی ڈائریکٹر فویا علی کا کہنا ہے کہ ” علی جب گرفتار ہوا اور جب اس پر مقدمہ چلا تو وہ نابالغ تھا اس لیے اگر بالفرض وہ کسی جرم کا مرتکب ہو بھی تو اسے سزائے موت دینے کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی ہے ۔ یہ فیصلہ اخلاقیات کے بھی سراسر منافی ہے”۔ علی محمد النمر جب پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوا تو اسے نہ تو وکیل کرنے کی اجازت ملی اور نہ ہی اب تک اس کے خاندان کو اس سے ملنے کا موقع دیا گیا ہے۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ جو بیان سعودی حکام نے اس کے نام پر پیش کیا ہے وہ زبردستی لیا گیا ہے اور اس نے اپنے اوپر کئے جانے والے بہیمانہ تشدد کی شکایت بھی کی لیکن سعودی جج نے ان معروضات کو نظرانداز کردیا۔ چار سال بعد جب علی محمد النمر کی آخری اپیل بھی عدالت نے مسترد کرڈالی اور اس کا سر قلم کرکے، اسے قطیف کے چوک میں مصلوب کرنے کا حکم سنایا تو ستمبر میں اس کے اہل خانہ کو بس اس سزا کی اطلاع دی گئی ۔ اس سے قبل اس کی گرفتاری سے لےکر مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے تک اس کے اہل خانہ کو نہ توکوئی اطلاع دی گئی اور نہ ہی ان کے وکیل کو علی محمد النمر تک رسائی دی گئی۔
ایک تو علی محمد النمر کے حق میں کالم لکھ کریہ اصحاب آل سعودونواز کے عتاب کا شکار نہیں ہونا چاہتے ، دوسرا پاکستانی اردو پریس سعودی عرب کے خلاف ایک لفظ شائع کرنا بھی گناہ گبیرہ خیال کرتا ہے ۔
علی محمد النمر کے خلاف جتنے الزامات ہیں سب فرضی اور سیاسی بنیادوں پر عائد کیے گئے ہیں۔ علی محمد النمر کا سب سے بڑا جرم اس کا شیخ محمد النمر کا بھتیجا ہونا ہے جسے سعودی حکومت مشرقی صوبوں میں تحریک مزاحمت سے پیدا ہونے والی تمام مشکلات کا ذمہ دار خیال کرتی ہے۔ سعودی حکومت شیخ محمد النمر کو سزا سنانے سے پہلے ایک اور عذاب سے گزارنا چاہتی ہے۔ سعودی عرب میں حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے صرف سر ہی قلم نہیں کئے جاتے بلکہ انہیں کئی روزتک چوراہوں میں لٹکاکر بھی رکھا جاتا ہے تاکہ کسی اور کو آل سعود کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی ہمت نہ ہو۔ سعودی عرب میں رواں برس87 سے زیادہ لوگوں کے سر قلم کئے جاچکے ہیں اور گرفتاریوں اور عقوبت خانوں میں اذیتیں دینے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ علی محمد النمر کو ملنے والی سزا پر خاموشی اختیار کرنے پر یورپ اور امریکہ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے یورپی یونین ، مغربی حکومتوں اور امریکی حکام پر شدید تنقید کی ہے۔
امریکی ٹی وی میزبان بل ماہر نے اپنے ٹی وی شو میں امریکی صدر اور اور دیگر حکومتی حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ علی محمد النمر کے مقدمے میں ان کی خاموشی سوائے منافقت اور دوہرے معیار کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ انٹرنیشنل بزنس ٹائم میں کلائیو سٹیفورڈ سمتھ نے اپنے ایک مضمون میں علی محمد النمر کو سعودی حکومت کی جانب سے دے جانی والی خوفناک سزا پر برطانوی خاموشی کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ برطانوی حکومت کو سعودی عرب سے اپنے تجارتی مفاد زیادہ عزیز ہیں نہ کہ انسانی حقوق کا احترام۔ اسی جریدے میں اورنلڈو کروکرافٹ نے اپنے ایک مضمون میں سعودی عرب کے ظالمانہ عدالتی نظام کے وحشیانہ پن بارے کھل کر لکھا ہے اور اس حوالے سے یورپی اور امریکی حکومتوں کی منافقت کو بے نقاب کیا ہے۔ مغرب میں انسانی حقوق کی تنظیمیں ، انٹرنیشل ہیومن رائٹس واچ ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ليگل چئیرٹی ری پرائیو وغیرہ اور عالمی ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ پوری تندہی کے ساتھ ” علی محمد النمر ” کی جان بچانے اور سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے ۔ اس کے برعکس اکثر مسلم ملکوں ميں ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اورترقی پسند جماعتوں نے بھی اس معاملے پر قریب قریب خاموشی سادھ رکھی ہے ۔
سوشل میڈیا پر اپنی طنز و مزاح سے بھرپور تنقید نگاری کے لئے معروف ریاض الحاجی نے حال ہی میں پوسٹ کیے گئے اپنے ایک مضمون میں سعودی امدادسے چلنے والی امریکی تنظیم کونسل فار اسلامک ریلیشنز کے منافقانہ کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی ٹیکساس میں سعودی نژاد ہائی اسکول طالب علم کے ساتھ “مسلم شناخت ” کی بنیاد پر کیا جانے والا امتیازی سلوک اور گرفتاری کا معاملہ سامنے آیا تو اس تنظیم نے سوشل میڈیا اورذرائع ابلاغ پر اس معاملے کو نمایاں کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے اور ہیش ٹیگ آئی سٹینڈ ود احمد کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ تنظیم ایک طرف تو سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی صوبوں قطیف و الاحصاء میں سعودی عرب کی ریاستی مشینری کی جانب سے شیعہ شناخت رکھنے والے سعودی باشندوں کے خلاف تعصب ، امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش ہے تو دوسری طرف علی محمد النمر کے مقدمے پر آواز اٹھانے کی بھی روادار نہیں۔ اس اور اس جیسی بے شمار مسلم تنظیموں نے آج تک محمد النمر کا معاملہ سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ یہی کردار براک اوبامہ کا ہے کہ انہوں نے جس طرح سے ہیش ٹیگ آئی سٹینڈ ود احمد کو ری ٹیوٹ کیا اور امریکی عوام کو اس مسئلے کی حساسیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ویسے انہوں نے علی محمد النمر کے مقدمے میں نہیں کیا۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے ایک اجلاس کی قیادت بھی سعودی عرب کے حوالے کی گئی جس پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ پاکستان میں کئی ایک صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار خود کوانصاف کا ٹھیکیدار بناکرپیش کرتے ہیں لیکن علی محمد النمر جیسے جوان رعنا کے لیے ان کا قلم اور زبان دونوں حرکت کرنے سے قاصر ہیں ۔ اس خاموشی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو “مولانا اشرفی ” کی حمایت میں کمر بستہ ہیں اور ایرانی مذہبی ملائیت کی “سفاکیت ” کو بے نقاب کرنے والے بھی مگر سعودی عرب کے مشرقی صوبوں ميں ہونے والے جبر اور ظلم پر بولنے سے پہلے ہی ان کی سٹّی گم ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اردو اور انگريزی پریس میں کسی بڑے سے بڑے جغادری کو علی محمد النمر کے بارے میں کوئی ایک کالم لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی ، کیونکہ ایک تو علی محمد النمر کے حق میں کالم لکھ کریہ اصحاب آل سعودونواز کے عتاب کا شکار نہیں ہونا چاہتے ، دوسرا پاکستانی اردو پریس سعودی عرب کے خلاف ایک لفظ شائع کرنا بھی گناہ گبیرہ خیال کرتا ہے ۔ اسی لیے میں نے بھی یہ کالم بلاگ پر پوسٹ کیا ، کسی اخبار کو بھیجنے کا سوچا تک نہیں ہے۔ اپنے پڑھنے والوں سے فقط اتنی گزارش ہے کہ ایک تو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جائیں اور علی محمد النمر سے اظہار یکجہتی کا ٹویٹ کریں ، اسی ہیش ٹیگ کے ساتھ فیس بک پر بھی النمر کے ساتھ اظہار یک جہتی کریں اور اگر آپ کے پاس وقت ہو تو سعودی سفارت خانے کو بھی احتجاجی مراسلہ ارسال کریں۔ ایک یاد دہانی امریکی سفارت خانے کو بھی بھیجیں کہ وہ سعودی عرب کے آمرو مطلق العنان حکمرانوں اور جابربادشاہت کے خلاف بھی اسی طرح سے بیان دے اور اقدامات اٹھائے جس تندہی کے ساتھ وہ ایران میں مذہبی پیشوائیت ، شام میں بشار الاسد اور عراق میں صدام حسین کی آمریت کے خلاف خود کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کے لئے بیان بازی کرتا آیا ہے ۔ ایران میں بہائی اور پارسی اقلیتوں کے خلاف اٹھائے جانے والے ظالمانہ اقدامات اور انسانی حقوق کی پامالی پر جس طرح کا ردعمل آتا ہے اس طرح کاردعمل سعودی عرب کے خلاف بھی آنا ضروری ہے۔ جماعت اسلامی نے عید قربان پر کراچی میں اپنے بینرز پر سامراج کے مظالم سے متاثر ہونے والے مسلمانوں کی امداد کے لیے قربانی کی کھالیں جماعت اسلامی کو دینے کی اپیل کی۔سعودی عرب کے معاملے میں جے یوآئی ف ، س ، ن ، جماعت الدعوۃ سمیت دائیں بازو کی اکثر جماعتوں کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں اور اگر معاملہ ایران کا ہو تو وحدت المسلمین اور تحریک نفاذ ش کونسل و ج کونسل کی مظلومیت پسندی ٹھس ہوجاتی ہے ۔ ان سب کے ہاں انصاف پسندی اور مظلومیت کے امتیازی راگ ہی الاپے جاتے ہیں ۔ ظالم و آمر بھی اپنی اپنی شناختوں اور علامتوں کے ساتھ طے کئے جاتے ہیں ۔ ان سب کے لیے اپنے اپنے مربیوں کا ہر ظلم روا اور دوسرے کا ناروا ہوتا ہے ۔ شاید ہمیں ابھی بھی انسانیت پسندی کی منزل تک پہنچنے کے لیے طویل سفر طے کرنا پڑے گا اور کئی علی محمد النمر اس راستے میں قربان ہوں گے ۔ لیکن میں علی محمد النمر کے ساتھ کھڑا ہوں اور سعودی عرب کی حکومت کے نام نہاد نظام انصاف کا منکر ہوں ۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *