کابوس

آؤ
ڈھونڈتے ہیں
ہمارا آدھا سایہ
جو چوری ہوگیا
اور
اس ماہر چور کو
جو سائے کترنے کا ہنر جانتا ہے
کیا اسے دھوپ نے چرایا ہے؟
یا پھر
کسی بڑے سائے نے اپنے سائے میں لے لیا ہے
یا اس نے جو ہمیں
زبردستی
دیوار سے لگنے کا مشورہ دیتا ہے
بدن کو سائے سے چپکائے رکھنے
کے لیے
دھرتی پر لیٹ جانے کا مشورہ۔۔۔۔۔
دھرتی ماں کی طرح آغوش میں
لے لیتی ہے
اورمیں گہری نیند سو جاتا ہوں
جب اک نئی روشنی مجھے اذن سفر دیتی ہے
تو میں اٹھ کر اپنے سائے کی طرف دیکھتا ہوں
جو اب بھی آدھا ہے
شاید
میرے سائے کے طرح
وہ مجھے بھی آدھا کاٹ چکا ہے

جمود کی دلدل

اگر
ساری زندگی
انسان کے جسم پر وہ کپکپی طاری رہے
جو ہر محبت کرنے والا
محبوبہ سے اولین اظہار کے وقت
محسوس کرتا ہے
تو خدشہ لاحق رہتا ہے
کہیں یکسوئی جکڑ نہ لے
محبت کے ارتقا کے تسلسل کو
جمود کے مضبوط جبڑوں میں
اور چبا کر پھینک دے
بے دلی کی کچرا کنڈی پر۔۔۔

فرار کے لیے
انسان کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے
پسندیدہ عورت کا پہلو
قبر میری محبوبہ ہے
جو اب تک مجھے الاٹ نہیں ہوئی۔۔۔
میں کانپ اٹھتا ہوں
ہمیشگی کے خوف سے
جب میں تمہارے اندر
ہمیشہ کے لیے دفن ہونے کے بعد
تم سے بھی اکتا چکا ہوں گا۔۔۔۔۔۔

ناکامی کا تاوان

پریشانی
ابھرتی ہے
وقت کے ماتھے پر
لکیر بن کر
کاٹ کر چھوٹا کردیتی ہے
وقت کو
ہماری نظروں میں

بے بسی
پنجے گاڑتی ہے
جسموں پر
جب وہ حسرت کے جالوں میں
باندھ دیے جاتے ہیں
ہوا کی دیوار کے ساتھ

اکتاہٹ
جگہ گھیر لیتی ہے
دل سے اتری چیزوں کی

کرب
گندھ جاتا ہے
اس کے خمیر میں
جسے وراثت میں ملا ہو
اظہار نہ کر سکنا
اس کے سب ناموں کے ساتھ ‘ناکام’ کا سابقہ لازم ٹھہرتا ہے

ممکن ہے
کسی روز اسے پکارا جائے
ناکام محبت کرنے والے کے نام سے۔۔۔
وہ زبان کاٹ کر رکھ دے
مخاطب کی ہتھیلی پر
خون کی قے میں بہا دے سارا غصہ
جو وہ اپنے آپ پر کر سکتا تھا۔۔۔۔

The Serpent

میں محسوس کر سکتا ہوں
ہر سال کی طرح
تم انتخاب کروگی
آخری مہینے کی اک سرد شام کا
میری گردن سے لپٹ کر کینچلی اتارنے کے لیے
اور ہم منائیں گے تمہاری سالگرہ
میں بطور تحفہ کہوں گا
"تم ہر سال پہلے سے زیادہ خاموش اور زہریلی ہوتی جارہی ہو”
جواب میں تمہاری مسکراہٹ
بھینچے گی میری جکڑی ہوئی گردن
پسلیوں کے قریب
تم کھود لو گی
میرے اندر جانے کا راستہ
ڈھونڈ لو گی اپنا مستقل ٹھکانہ
آنسو بہانے کے لیے
جب تک کینچلی اتارنے کا موسم دوبارہ نہیں آجاتا

Leave a Reply