Laaltain

عسکریت انداز عُشّاق

7 مارچ، 2016
بقول ان کے عاشق کا جنازہ تھا۔ دُھوم سے نکلنا واجب تھا۔ لا شک، لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جنازے میں شرکت کرنے پہنچ آئی۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے دُھوم کے تلازمے بدل چُکے۔ اب دُھوم تب برپا ہوتی ہے اور ہر طرح کے اجتماع تاریخ ساز تب ہی بنتے ہیں جب وہ نیوز چینلوں کی سکرینوں پہ ایک منظرِ مسلسل رہیں۔ وہ بڑے رنجیدہ خاطر ہیں کہ نیوز چینلوں نے جنازہِ عالی وقار نہیں دکھایا۔ اس موقعہ پر کوریج کرنے والے میڈیا کے نمائندوں پہ تشدد روا کر کے اس کا کسی حد تک بدلہ بھی لیا گیا۔ مقدر والے تھے کہ جان سے بچ گئے۔

 

آج کل میں، اس بِپھرے ہوئے وقت کے “اب” میں صاحبانِ فکر و ہوش کیا کریں۔ بقول اس پائمال مصرع کے نثری مفہوم کہ جب شہر کا شہر تازہ بہ تازہ مسلمان جو ہو گیا ہے۔ ابھی تو محض سرگوشیوں میں خیال آرائیاں ہی کر رہے ہیں۔ اونچا نہیں بول رہے کہ رنگ ابھی گاڑھا چڑھا ہوا ہے۔ آج کل بلند آہنگ میں اگر کوئی بول رہا ہے تو اظہارِ عشق کی لفظیات کے دستگیر۔

 

بڑا اجتماع تو بہت نحیف کو بھی شیر بنا دیتا ہے اور یہ تو پھر “قائد” لوگ ہیں؛ بڑے مجمعے سے فوراً انقلاب بھانپ لیتے ہیں۔ پہلے لفظوں، لہجے اور جسمانی حرکات سے ایک خونی نصاب مرتب کیا تھا ابھی ممتاز قادری کی مرقد پہ آنسوؤں کے نذرانے مہیا کر رہے ہیں۔
لاہور میں سن ستتر کی یاد تازہ کرنے کے تازیانے دکھائے جا رہے ہیں۔ لال مسجد سے برقعہ پوشی کی سنت کی اجتہادی شکلِ نو میں عدالت کو حلف نامہ دے کر جُل دینے والے، جناب مولانا حنیف قریشی اب کُھلے بندوں اپنی جانب سے ضرورت کے وقت کی روا رکھی عقل کا کفارہ ادا کررہے ہیں۔ بڑا اجتماع تو بہت نحیف کو بھی شیر بنا دیتا ہے اور یہ تو پھر “قائد” لوگ ہیں؛ بڑے مجمعے سے فوراً انقلاب بھانپ لیتے ہیں۔ پہلے لفظوں، لہجے اور جسمانی حرکات سے ایک خونی نصاب مرتب کیا تھا ابھی ممتاز قادری کی مرقد پہ آنسوؤں کے نذرانے مہیا کر رہے ہیں۔

 

امن پسند مکتبِ فکر کہلانے والے اب نبیِ رحمت (صلی اللہ علیہِ وسلم) کے عشق کے دعوٰی کی ڈھال میں “دیگروں” کی عشق کی کیفیت کی بابت سزا جاری کرنے کے آلات کو رگڑ رگڑ کر تازہ کر رہے ہیں، زنگ اتار رہے ہیں۔ مولانا کوکب نورانی کے پُرجوش لہجوں میں باور کرایا جا رہا ہے کہ “سُنی جاگ اٹھا ہے” اور اب کوئی نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں گستاخی نہیں کر سکے گا۔ وہ تو تجربہ کہتا ہے کہ ہمارے ہاں پہلے بھی کوئی گستاخی نہیں کر سکا اور نا ہی کرنے کی سوچتا ہے، البتہ گستاخی کا آلہ اپنے نفس کی خواہش کا اظہاریہ بنانے پہ ضرور مُکدر ہونے کی صدائیں بلند ہوتی رہی ہیں۔

 

لیکن یہاں تو مراد ہی کچھ اور محسوس ہو رہی ہے۔ یعنی وہی برحق ہوگا جس انداز و زاویہِ نظر یہ خود سوچیں گے، خود فردِ جُرم عائد کریں گے، گواہی تقریر کی لذت سے مہیا کر لیں گے؛ تعزیر کے لئے خود ہی کو منصف مقرر کر لیں گے۔ خود ہی فیصلہ دے دیں گے۔ خود ہی تعزیر اور خود ہی تعزیر کی عملدرآمد کا تارا بن جائیں گے۔ خود ہی اپنے آپ کو غازی اور رحمت اللہ علیہ قرار دے لیں گے۔ یہ چیز ہے جو پہلے سے جاری تشویش کو کئی چند کرتی ہے۔ تشویش کی جنم بھومی ہماری حالیہ تاریخ ہے۔ ہمارے ہاں عملوں پہ ردِعمل بڑے زہر ناک عمل در عمل میں ڈھل جاتے رہے ہیں۔ ہماری کہیں کی باج گذاریاں ہم پہ نئے عذاب بن جاتے رہے ہیں۔ مقامِ فکر ہے کہ ہمارے ملک کے باسی اپنے آپ کو ملک کا باسی کم اور کہیں آس پاس کا وفا شعار زیادہ جانتے ہیں۔

 

امن پسند مکتبِ فکر کہلانے والے اب نبیِ رحمت (صلی اللہ علیہِ وسلم) کے عشق کے دعوٰی کی ڈھال میں “دیگروں” کی عشق کی کیفیت کی بابت سزا جاری کرنے کے آلات کو رگڑ رگڑ کر تازہ کر رہے ہیں، زنگ اتار رہے ہیں۔
ایران میں انقلاب آیا تو پاکستان پاک نا رہا۔ اس کو از سرِ نو نہلانے دھلانے کی ترکیبیں سُوجھیں۔ اعانت اور رقوم مہیا کی گئیں۔ یہاں موجود خاص مکتبِ فِکر کی بابت زیادہ فِکر مغربی ہمسایہ کی نئی الہیاتی شاہیہ نے اپنے آپ کو سونپ لی۔ ردِعمل ہوئے یا عمل جاری تھے، پٹرول کے ڈالروں والوں نے بھی اپنے پیادے چُنے۔ کھیل چل نکلے، اور کھلواڑ ہونے لگے۔ اکھاڑے پاکستان میں، کھلاڑی پاکستان میں، سرپرست ہمسائے اور ہمسایوں کے ہمسائے۔ سر پرست رسّہ گیروں کی روایت میں لیکن اپنی نئی شکل میں ناخنوں پہ خاموش تالیاں بجانے اور تیر و تفنگ کی ذمے داری اپنے کندھوں پر اُٹھانے کو تیار تھے۔

 

رہی سہی کسر افغانستان کی جنگ نے پوری کر دی۔ اب سرمایہ داروں کے مقدس مقامات واشنگٹن، نیو یارک، لندن، پیرس کے اخباروں کے اصلی “مجاہدین” کے با حوصلہ و جگر مجاوروں نے ڈالر درختوں پہ اُگانے شروع کردئیے۔ جہاد دین و دنیا کی دولت کا ذریعہ بن گیا۔ رومانویت بغل گیر ہوگئی تعقل و عملیت پسندی سے۔

 

دس سالوں میں مجاہدین کے مقامی با اختیار ڈیلروں کی قسمت بدل گئی۔ ان پیدل سفر کرنے کی کوفت ختم ہوئی، لینڈ کروزریں عام ہوئیں۔ الحاد کی طاقت کا مظہر کمیونسٹوں کو “اِن گاڈ وِی ٹرَسٹ” اور “الحکم لِلّہ،الملک لِلہ” والوں نے چاروں شانے چِت کر دیا۔

 

اب “افغان باقی، کہسار باقی” کی مزید استعانت جاری رہی۔ شاید کسی “تزویراتی آڑ” (سٹرِیٹِجِک ڈیپتھ) کی حکایت کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے۔ لائے گئے طالبان آئے۔ آتے ہی انہوں نے کیا کیا؟ وہ خواب جس کی تکمیل کو صدیاں ترس رہیں تھیں، پورا ہونے لگا اور وہ خواب کی تعبیر اپنے انداز میں کرنے لگے۔ شریعت کے وہ ظاہری مظاہر جو احیاء پسندوں کے مرغوب ہیں وہ گردنیں کاٹ کے، حجاموں اور حماموں سے استروں کو غائب کرکے، چہرے کے بالوں کو دراز کر کے، لڑکیوں کے اسکولوں کو بند کرا کے، دیگر تاریخی مذہبوں اور ثقافتی اظہاروں اور مظاہر کے بامیانوں کو پا بہ بارود کر کے۔

 

یہ اِنہی بدلے نصابوں کا عصرِ جدید ہے کہ اولیاء اور صوفیاء کے پیغام ہائے محبت کا انجذاب لئے، بریلوی طرزِ فکر والے، اب ممتاز قادری جیسے عسکریت انداز عشاق اٹھائیس اٹھائیس گولیوں میں اس پاگل پن کا خراج ادا کرتے ہیں۔
“کہسار باقی” میں جو “امارت” قائم ہوئی تو ایک خاص تشریحِ اسلام والوں کو پاکستان میں کُھل کھیلنے کا موقعہ مل گیا۔ یہاں کام کرو، وہاں پناہ حاصل کرو۔ ہماری ایک نسل ان سالوں میں صبح کو اخباروں پہ مسجدوں اور امام بار گاہوں پہ موٹر سائیکل پر آنے والوں کی کلاشنکوفیوں کی شہ سرخیاں پڑھتے اپنے جوانی کے تخیلات پہ ضرب کاری لیتے پروان چڑھی۔ ابھی ابھی ہیبت اور وحشت کا رنگ بدلا اور اندازوں میں نُدرت آئی ہے۔ اب ہم خود کشیوں کی بریکنگ نیوز سنتے جاگتی آنکھوں میں سوئے پڑے ہیں۔

 

یہ اِنہی بدلے نصابوں کا عصرِ جدید ہے کہ اولیاء اور صوفیاء کے پیغام ہائے محبت کا انجذاب لئے، بریلوی طرزِ فکر والے، اب ممتاز قادری جیسے عسکریت انداز عشاق اٹھائیس اٹھائیس گولیوں میں اس پاگل پن کا خراج ادا کرتے ہیں۔ اور نئی عُشّاقی کی ثقافت اب ارد گرد کی لفظیات کو بھی اپنے ہاتھوں میں لینے کو تیار ہے۔ نئی ترتیب خود سے کرنے کی باتیں سُنا رہی ہے۔ اب سُنّی کے جاگنے کی صدائیں ہیں۔ اب تمام “دوسروں” کو بھی انتباہ کی لفظیات کی آوازیں ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہم ایسوں کو تو مار لیں گے اور گھروں کے سامنے ڈھول بجا کے جشن بھی کر لیں گے۔ کچھ نہیں ہوگا، ریاست صبر کر ہی لے گی جیسا کہ زیادہ تر کرتی ہی آئی ہے۔ لیکن جب یہ ایک دوسرے کو انتباہ کرنے شروع کردیں گے تو پھر ہم نے دیکھا ہے کہ یہ محض انتباہ نہیں کرتے۔ یہ پورے معاشرے کا، رہی سہی پاکستانی رَہتل کا باغ تباہ کرتے ہیں۔

 

اے رب، آپ سے التجاء ہے کہ صرف اسلام کو ہی سلامتی کا مذہب کیوں بنایا، تھوڑا مسلمانوں کو بھی امن و سلامتی اور شانتی کا سفیر بنا دیجئے۔ اور ہمارے کانوں میں سورۂِ البقرہ کی آیتوں کے وہ مضمون گرجنے سے روکئے جن میں آدم و حوا کی تخلیق پر مسئول فرشتے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ زمین پہ بڑا خون خرابہ کریں گے۔ لا ریب، کہ آپ سب سے بڑے منصوبہ ساز ہیں۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *