Laaltain

شنگھاؤ غار

11 جولائی، 2017

ہم زندگی کو زندگی کہتے تھے
اور موت کو موت
پھر ہمیں نیند سے اٹھا کر
حکم دیا گیا
کہ
موت، زندگی ہے اور زندگی موت
ہم غار کی دیواروں میں مجسم، وہ تنہائی تھے
جسے صورت دیتے ہوئے
مؤرخ نے تیشے کا استعمال کیا
ہماری رگیں کاٹ ڈالیں
اور ان میں خون کی بجائے
نظریات ٹھونس دیے
لندن سے نیویارک تک تالیوں کی گونج
میں
ہمارے منہ میں
اپنی زبان دے کر
ہمیں دوبارہ پتھر کی
مورتیوں میں بدل دیا اور
کتاب کی کسی سطر میں ہمیں
اپنے آپ کو تلاش کرتے ہوئے
کسی آرکیالوجسٹ کے ذہن میں، اپنے نقش
کو بحال کرواتے
صدیاں بیت جائیں گی
تب ایک اور غار میں ہمیں پھر سے زندہ کیا جائے گا
Image: Joseph Loughborough

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *