صبحدم ہماری اور ایف۔ایف کی مشترکہ جمگاہ پر شدید قسم کا اٹیک آیا۔میڈیم توپخانے کی گولہ باری سے ایک دم کیمپ میں ہلچل مچ گئی۔ہماری کمپنی کا ایک جوان شہید اور کئی لوگ چند منٹ کی گولہ باری میں زخمی ہوگئے۔تمام نفری بُری طرح تتر بتر ہوگئی۔توپخانے کا فائر لفٹ ہوا توہمیں کچھ سمجھنے کا موقع ملا لیکن پوری طرح سنبھل نہ پائے تھے کہ ایک ٹینک کی آڑ میں دُشمن کی پیادہ کو اپنی پوزیشن کی جانب بڑھتے دیکھا۔پھر گھنٹہ بھر گھمسان کا رن پڑا ، دونوں طرف سے شدید فائرنگ ہوئی۔ہمیں حیرت تھی کہ اس دلدلی اور ندیوں سے گھری جگہ پہ یہ ٹینک کہاں سے آن ٹپکا۔ایف ۔ایف والوں کے او سی صاحب ایک بھارتی کے ساتھ دست بدست لڑائی میں شہید ہوگئے تو سیکنڈ ان کمان نےحکم دیا کہ جنوب کی طرف والے گاؤں کی جانب پسپا ہو جائیں۔افسران کو حکم تھا کہ دُشمن کو مصروف رکھیں جبکہ ہم سپاہیوں نے زخمیوں کو کاندھوں پر اُٹھایا اور بانسوں کے قریبی جنگل کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔اگرچہ ہم لوگ شدید قسم کی بھگدر میں وہاں سے نکلے لیکن ایف ۔ایف کے افسران نے کمال ڈسپلن کا مظاہرہ کیا۔دُشمن نے ہمارا تعاقب نہیں کیا۔
شام سے پہلے ہم لوگ اس چھوٹی سی بستی میں آ پہنچے۔ پتہ نہیں نام کیا ہے اس کا۔معلوم ہوا کہ بنگالی دیہاتیوں نے ہماری پسپائی کے ممکنہ راستوں پر کل رات ہی بوبی ٹریپ اور بارودی سُرنگیں لگا دی تھیں جس کی وجہ سے ایف ۔ایف والوں کے ایک لفٹین صاحب اور ہمارے صوبیدار بختیار صاحب راستے میں ہی ان کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے ہیں۔میری آنکھوں کے سامنے جب اُستاد صاحب کا ہمیشہ ہنسنے ہنسانے والا چہرہ آیا تو میں اُس چہرے پر موت کی بھیانک خاموشی کا تصور نہ کر سکا۔
یہ بستی چھوٹی سی ہے اور لگ بھگ بالکل خالی ہے۔رضاکار بتا رہے تھے کہ یہ بِہاریوں کی بستی تھی جسے مُکتی والوں نے لُوٹا تھا اور یہاں کافی خون خرابا کیا تھا۔سرچ کے بعد کیپٹن لہراسپ خاں صاحب کے حُکم سے بستی کے کچھ حصے کو جلا دیا گیا۔رات گئے ہمیں یہاں پر پوزیشنیں لے کر آرام کرنے کا موقع ملا لیکن کہاں آرام کرتے۔ ایک تو زخمی ساتھیوں کے کراہنے کی آوازیں دوسرے صبح کی گولہ باری سے دہل جانے کی وجہ سے مُجھے بخار چڑھ گیا تھا۔رات کو سنتریوں نے بتایا کہ ایک جلے ہوئے گھر میں ایک بنگالی شدید زخمی پڑا ہے۔ کپتان لہراسپ خاں صاحب نے اپنی پوٹھوہاری زبان کی ایک گالی دیتے ہوئے کہا “مرنے دو ماں کے۔۔۔کو” اور سنتری واپس چلا گیا۔
رات میرے سونے سے پہلے البدر کا ایک زخمی رضاکار بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا۔لڑکے بتا رہے تھے کہ وہ شہید بی ۔اے پاس تھا۔
ابھی یہاں خاموشی ہے۔اگرچہ سنتری پہلے سے ذیادہ چوکنّے ہیں لیکن پھر بھی ہم آرام کر رہے ہیں۔ بلا کی سردی پڑ رہی ہے۔
(ایف۔ایف: فرنٹِئیر فورس ، پاک فوج کی ایک پُرانی رجمنٹ۔ )