تم پوچھتے ہو کہ میرا باپ کون ہے؟
سر سید میرا باپ ہے
سراج منیر تو غلام نسلوں کی
بغاوتوں کے
آخری لشکروں کا سپاہی تھا
اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے
میں اس کی اولاد ضرور ہوں
میں اس کا بیٹا نہیں ہوں
سر سید میرا باپ ہے
سراج منیر تو غلام نسلوں کی
بغاوتوں کے
آخری لشکروں کا سپاہی تھا
اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے
میں اس کی اولاد ضرور ہوں
میں اس کا بیٹا نہیں ہوں
گو میری چمڑی
سڑی ہوئی گندم جیسی ہے
مگر سفید فام، موٹے خداؤں کی قسم لے لو
میری روح سفید ہے
میری سوچ سفید ہے
میرا لفظ بھی سفید ہے
مجھے ادھیڑ کر دیکھو
میرا خون بھی سفید ہے
سڑی ہوئی گندم جیسی ہے
مگر سفید فام، موٹے خداؤں کی قسم لے لو
میری روح سفید ہے
میری سوچ سفید ہے
میرا لفظ بھی سفید ہے
مجھے ادھیڑ کر دیکھو
میرا خون بھی سفید ہے
سر سید کی نسل میں سے ہوں
میں چہرے پر چونا مل کر
اپنی تاریخ کو چونا لگا رہا ہوں
میں اپنے والد کی قبر پر کھڑا ہو کر
اپنی اولاد کو زنجیر ڈال رہا ہوں
کل اسی زنجیر کو دیکھ کر لوگ اس کو
سلام کریں گے
اس کی انگریزی سوچوں کے رعب میں آکر
اپنی نیندیں
اور اپنی اولادیں
حرام کریں گے
یہ شہنشاہِ وقت، صاحب بہادر، قبلہ امریکہ
جو یورپ دیوی کا
اور اس کی پانچ چھ صدیوں کی طویل رات کے کرب و اضطراب کا
ناجائز بیٹا ہے
یہ زنجیر مجھے اس نے دی ہے
کہ میں اپنی اولاد کو پہنا کر
اسے آزاد کر سکوں
مجھ سے میری اولاد کی خوشی نہیں دیکھی جاتی
میں چہرے پر چونا مل کر
اپنی تاریخ کو چونا لگا رہا ہوں
میں اپنے والد کی قبر پر کھڑا ہو کر
اپنی اولاد کو زنجیر ڈال رہا ہوں
کل اسی زنجیر کو دیکھ کر لوگ اس کو
سلام کریں گے
اس کی انگریزی سوچوں کے رعب میں آکر
اپنی نیندیں
اور اپنی اولادیں
حرام کریں گے
یہ شہنشاہِ وقت، صاحب بہادر، قبلہ امریکہ
جو یورپ دیوی کا
اور اس کی پانچ چھ صدیوں کی طویل رات کے کرب و اضطراب کا
ناجائز بیٹا ہے
یہ زنجیر مجھے اس نے دی ہے
کہ میں اپنی اولاد کو پہنا کر
اسے آزاد کر سکوں
مجھ سے میری اولاد کی خوشی نہیں دیکھی جاتی
کاش مجھ میں ابراہیمی روح ہوتی
اور خدا کے پاس
مینڈھے ختم ہو جاتے
مگر میں بزدل ہوں
بزدل تو میری اولاد بھی ہے
چھری تو اس کے ہاتھ میں بھی ہے
گردن میری بھی انتظار میں ہے
وہ میری سڑی ہوئی گندمی چمڑی کے پیچھے
میری شرمندہ سفیدی دیکھ رہا ہے
اسکو بھی پتا ہے میں نے
اپنی تاریخ کو خاموشی کے مقدمے میں
لپیٹ کر
اپنے والد کی قبر میں
اسکی سڑی ہوئی روح کے ساتھ
پھینک دیا تھا
میرا والد بہادر آدمی تھا
اس کو اپنی اولاد اور اسکی اولاد کی طرح
کانپنا نہیں آتا تھا
اسی لیے میں نے
ایسا باپ بنایا ہے
جو کانپتا رہا ہمیشہ
اور خدا کے پاس
مینڈھے ختم ہو جاتے
مگر میں بزدل ہوں
بزدل تو میری اولاد بھی ہے
چھری تو اس کے ہاتھ میں بھی ہے
گردن میری بھی انتظار میں ہے
وہ میری سڑی ہوئی گندمی چمڑی کے پیچھے
میری شرمندہ سفیدی دیکھ رہا ہے
اسکو بھی پتا ہے میں نے
اپنی تاریخ کو خاموشی کے مقدمے میں
لپیٹ کر
اپنے والد کی قبر میں
اسکی سڑی ہوئی روح کے ساتھ
پھینک دیا تھا
میرا والد بہادر آدمی تھا
اس کو اپنی اولاد اور اسکی اولاد کی طرح
کانپنا نہیں آتا تھا
اسی لیے میں نے
ایسا باپ بنایا ہے
جو کانپتا رہا ہمیشہ
اب میں
سر سید کے مقبرے پر جا کر
بلکہ ان کے ٹومب پر جا کر
باپ باپ کرتا ہوں
…
سر سید کے مقبرے پر جا کر
بلکہ ان کے ٹومب پر جا کر
باپ باپ کرتا ہوں
…
3 Responses
Who is Siraj Munir referred to in the 3rd line of the poem?
معاف کیجیے گا، انگریز کے سامنے کانپنے اور ضیا الحق کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے. بس یہ ہے کہ آج ہمارے بچے اتنے توانا ہیں کہ ہم ان کے سامنے لاف زنی کر سکتے ہیں اور ہم آپ انٹرنیٹ پر بیٹھے سرسید کی تذلیل کر پارہے ہیں، تو یہ سرسید ہی کی روایت کی پیروی کی بنا پر ممکن ہوا. کہیں سراج منیر مرحوم کے فکری مرشدین کے راستے پر چلنا لازم ٹھہرتا تو اس وقت زمین پر آلتی پالتی مارے تختی لکھ رہے ہوتے اور اپنے آس پاس بچوں کو پولیو اور چیچک سے مرتا دیکھ رہے ہوتے.
Aap ki ghulaam soch ko salaam. Zia ul Haq ko har muamlay main kisi tarhan khench lanay ka fan bhi har kisi kai bas ki baat nhi hai. Liberal halqay ka yaqeenan pasandeedah kaam hai. Aap ki galat fehmi hai kai sir syed ki perwi na karnay sai hum dunya sai peechai reh jatay. Capitalist nai aap kai haath main Laptops wagaira phir bhi thama denai thay.