Laaltain

سرخ شامیانہ-پہلی قسط

18 دسمبر، 2016
ناول “سرخ شامیانہ” کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

راشدنے کمپیوٹر بند کرکے طویل سانس لی اور کھڑکی کے پاس آ کھڑا ہوا۔ فرینکفرٹ کی بلند و بالا عمارتیں اور سڑکیں سردیوں کے تیز قدم اندھیرے میں جگمگا رہی تھیں۔ ٹریفک کے شور کو شیشے کی دبیز دیوار نے روک رکھا تھا، بہت دور نیچے کھلونوں کی طرح قطار در قطار بھاگتی خاموش گاڑیوں پہ ایک غیر حقییقی منظر کا گماں ہوتا تھا۔

 

ؔ “ایک غیرحقیقت سے دوسری اور تیسری میں”، وہ کھڑکی سے جھانکتے ہوئے بڑبڑایا۔ اس کا جی چاہا عینک اتار کر باہر پھینکے اور اسے خاموشی سے اس خاموش منظر میں گرتا دیکھے لیکن کھڑکی کے فریم میں شیشے کی دیوار تھی جسے کھولنا ناممکن تھا اور عینک کی اسے ابھی ضرورت تھی۔باہر دیکھتے دیکھتے یکایک اس کے اندر کا شور بڑھنے لگا۔

 

روزانہ کی طرح کچھ لوگ اپنے دن کو ٹھکانے لگا کر جا چکے تھے، کچھ ابھی اپنے اپنے کمپیوٹر سے الجھے ہوئے تھے۔ اکا دُکا لوگوں سے الوداعی نعرہ کے تبادلے کے بعد وہ دفتر سے نکلا۔ شیشے کی بے آواز لفٹ سے باہر کی خاموش دنیا بتدریج بلند ہوتی گئی۔باہر سڑک پر یکلخت ٹریفک اور سرد ہوا کے بے ہنگم شور نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ راشد نے مفلر ناک کے گرد لپیٹا، ٹوپی کانوں سے نیچے کھینچی اور انڈرگراؤنڈ سٹیشن کی طرف پیش قدمی جاری رکھی۔
سٹیشن کی سرنگ میں دن کے محاذ سے زخمی اور شکستہ لوٹتے جسم دیواروں سے ٹیک لگائے ہانپ رہے تھے یا انتظار کی بے چینی میں اپنے ہی گرد چکرا رہے تھے۔ بیچوں بیچ رات کے معرکوں کے لیے بنے ٹھنے جسم اپنی خوشبو لٹا رہے تھے۔ ایک نوجوان جوڑا ان سب سے بے پرواہ، بوس و کنار میں مگن تھا۔ ٹرین کے اندر بھی معمول کا منظر تھا، دو بے گھر شرابی بیئر کی بوتلیں پکڑے کسی شدید بحث میں مبتلا تھے۔ ایک بوڑھی عورت نوجوان گدھے کی جسامت کے کتے سے باتیں کر رہی تھی،ان کے علاوہ سب کندھوں اور سروں کے بیچ کی خالی جگہوں پر نظر جمائے خاموش بیٹھے تھے۔

 

فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہی اس کا چار سالہ بیٹا راحیل بھاگتا ہوا آیا اور اسکی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ راشد نے اسے اٹھا کر گلے سے لگایا اور محبت سے گال پر بوسہ دیا۔ راحیل اسے بلا وقفہ دن بھر کی کارگزاریاں سنا رہا تھا۔ باورچی خانہ سے برتنوں کا مدھم شور آ رہا تھا۔ راشد نے گہری سانس لی اور اندر کے شور کو طمانیت کی ایک ہلکی لہر کی نظر ہوتے محسوس کیا۔ وہ اوور کوٹ اور ٹوپی سٹینڈ پر لٹکا رہا تھا کہ اس کی بیوی کلاڈیا آ کر اس سے لپٹ گئی۔ وہ اس سے اس کے دن کے بارے پوچھ رہی تھی۔

 

“حسبِ معمول، کوئی نئی بات نہیں ہوئی”، اس نے جواب دیا،”اسی فیصد پروگرامنگ ہوگئی ہے، باقی بھی ہو جائے گی۔ مارٹن نے پھر میرے خلاف کوئی شوشہ چھوڑا تھا، میں نے نوٹس نہیں لیا۔”

 

“تمہیں اس سے صاف صاف بات کرنی چاہیے، وہ تمہارا کیا بگاڑ سکتا ہے،”کلاڈیا نے مشورہ دیا

 

“جب بگاڑ ہی کچھ نہیں سکتا تو اس سے کیا بات کروں؟”

 

“لیکن دوسروں کی رائے تو تمہارے بارے میں خراب کرتا رہتا ہے۔”
“چھوڑو،کیا فرق پڑتا ہے”

 

“اور اس کے ساتھ ہی آج کی باتوں کا کوٹہ ختم، ہے نا؟ کیا ہوتا جا رہا ہے تمہیں، پچھلے چند مہینوں میں تم اتنے چڑچڑے اور چُپ سے ہوگئے ہو”۔

 

“پتہ نہیں، پتہ چلا تو تمہیں بھی بتا دوں گا”

 

کھانے کے دوران وہ خاموش رہے، راحیل کی معصوم باتوں پر وہ ہوں ہاں کرتا رہا، کلاڈیا نے کوئی بات نہ کی۔ رات بستر میں وہ خاموشی سے برابر برابر لیٹے رہے۔

 

“اتنے برسوں سے تم پاکستان نہیں گئے، اپنے لوگوں سے کٹنے کی تنہائی ہے جو تمہیں چڑچڑا کر رہی ہے، اور راحیل کے لیے بھی ضروری ہے تمہارا آبائی شہر دیکھنا، تمہارے رشتہ داروں سے ملنا، کیوں نہ ہم کرسمس کی چھُٹیوں میں پاکستان ہو آئیں؟”

 

راشد جواب دیے بغیر سیدھا لیٹا، اندھیرے میں چھت کو گھورتا رہا۔ کلاڈیا اپنی کروٹ مُڑ کر سوگئی۔ راشد جاگتا رہا۔ بہت دیر تک لیٹے لیٹے تھکنے کے بعد وہ اٹھا، باورچی خانے میں آ کر اس نے فریج سے بیئر کی بوتل نکالی اور کھڑکی کی سل پر کہنیاں جمائے اندھیرے میں کھڑا رہا۔ اندھیرے میں دانیٗلا کا چہرہ چمک رہا تھا، مدھم سرخ روشنی میں اس کا مہین کپڑوں میں ملبوس بدن ایک ایسے رقص کے زاویے بنا رہا تھا جو راشد نے اپنی بے مہار زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

وہ ساحل کی گیلی ریت پہ پاؤں جمائے بحیرہٗ روم کے گہرے نیلے پانیوں میں ڈوبتے سورج کی سُرخی گھُلتے دیکھ رہا تھا۔

 

سمندر کی موجیں اس کے پیروں سے لپٹ کر ٹوٹ رہی تھیں اور اس کے دل میں پھیلی اکتاہٹ اور یکسانیت کی دلدل میں اضطراب کروٹیں لے رہا تھا۔

 

میں جو تُند ندی کی طرح تھا، ایک بدبودار جوہڑ بنتا جا رہا ہوں، جامد اور یکساں۔ اب مجھ پر صرف کائی کی تہیں جم سکتی ہیں۔ اس نے استہزائی کرب سے سوچا۔

 

پچھلے ایک ہفتے سے وہ اٹلی کے اس چھوٹے سے ساحلی قصبے میں مقیم تھے۔ کلاڈیا کے اصرار پر وہ گرمیوں کے کچھ دن گزارنے توزکانا کی سیر کرتے لیوانتو پہنچے تھے۔ ہوٹل کے پُر تکلف ناشتے سے فارغ ہوتے ہی کلاڈیا دن بھر کے لیے کھانے کا سامان، سن کریم اور کتابیں، رسالے ٹوکری میں بھرتی تھی، راشد راحیل اور اس کا کھلونوں سے بھرا تھیلا کندھے پر اٹھاتا اور وہ ساحل کا رُخ کرتے۔ دن بھر وہ انواع و اقسام کے جسموں کے بیچ ڈھیلے ڈھالے پڑے رہتے۔
کلاڈیا تیرتے ہوئے سمندر میں دور تک نکل جاتی، راشد اگرچہ بخوبی تیر لیتا تھا لیکن ایک کسالت اور اکتاہٹ جو اس کے وجود میں جمتی جارہی تھی، سمندر کی موجیں اور شفاف دھوپ کی کرنیں اسے بہا لے جانے میں کامیاب نہ ہوئی تھیں۔ یہ روزمرہ کی یکسانیت تھی، وہی الارم، برسوں سے اس کے بجنے کا وہی مخصوص وقت، وہی ناشتے کی میز، سڑک، ٹرین، دفتر، کرسی، کمپیوٹر، ایک آدھ تبدیلی کے علاوہ وہی رفقائے کار، ان کے تہذیب کے پاؤ ڈر تلے دبے چہروں پر رشک اور حسد کے وہی جال۔ افسر کے لہجے کی تلخی اور عینک کے عدسوں کی موٹائی کے علاوہ ہر شئے ایک ابدی جمود میں تھی۔ اس کے جو دو تین پاکستانی واقف کار تھے، ان کی گفتگو وطنِ عزیز کی یاد میں آہیں بھرنے، رشتے داروں اورغیر حاضر دوستوں کی غیبت کرنے اور جرمن فلاحی نظام کو حتی المقدور لوٹنے کی تراکیب سوچنے تک محدود تھی۔ ان موضوعات سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ طرحدار یورپی لڑکیاں جن کے بیچ اس کی ڈگمگاتی شامیں گزرتی تھیں اس کی شادی کے بعد ایک ایک کرکے منظر سے غائب ہو چکی تھیں۔ رات بھر جھیل پر آگ جلائے برہنہ رقص کرنے والے سوٹ اور ٹائی میں بندھے اپنی اپنی چمکتی دیواروں میں قید ہو چکے تھے۔ کوئی کسی شہر، کوئی کسی دیس۔ دن رات کا یکساں تسلسل بچا تھا جو چکی کے دو پاٹوں کی طرح اس کا جوہر اور گھُن ایک کر رہا تھا۔ کلاڈیا سے محبت کا اولیں بلا خیز دور بیاہی زندگی کی پھُسپھسہاٹ میں ڈھل رہا تھا،ایک راحیل تھا جسے دن بدن نئے لفظ سیکھتے اور نئے دانت نکالتے وہ دیکھ سکتا تھا۔

 

وہ راحیل پر نظر رکھنے کے بہانے کچھ دیر ساحل کے قریب ہی تیرتا، پھر آکر ریت کے بورے کی طرح خود کو ریت پر گرا دیتا۔ راحیل کبھی کبھی کھیلتے بھاگتے نظروں سے اوجھل ہو جاتا، پھر وہ اسے سن کریم سے چُپڑے جسموں،ادھر اُدھر لڑھکے پستانوں اور بیئر سے پھولے شکموں کو پھلانگتا ڈھونڈ لاتا۔

 

کلاڈیا نے اس دن سر میں درد کی شکائت کی اور دن ڈھلنے سے پیشتر ہی راحیل کے کھلونے سمیٹتے ہوئے ہوٹل واپسی کا قصد کیا۔ راشد نے کہا کہ وہ کچھ دیر تنہا وہیں رہنا چاہتا تھا۔ کلاڈیا نے اس سے ساتھ چلنے کی ضد نہ کی، اس نے کہا کہ وہ کچھ دیر سونا چاہتی تھی۔ ان کے جانے کے بعد وہ کچھ دیر اسی طرح بے حس وحرکت پڑا رہا، پھر وہ اٹھا اور ساحل پر ادھر اُدھر پھرتا رہا۔ سال بھر اپنی اپنی مشقت میں مبتلا رہنے کے بعد گرمیوں کے چند دنوں میں اپنی جمع پونجی لٹانے والے ساحل پر آڑے ترچھے پڑے تھے، سمندر میں نہا رہے تھے، ایک موٹا بوڑھا اور اس کا بیحد چھوٹا کتا ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگ رہے تھے، چند نوجوان لڑکیاں لڑکے ایک دوسرے کو اٹھا کر سمندر میں پھینک رہے تھے، ان کے لاپرواہ توانا قہقہے سمندر کی موجوں پر اچھل رہے تھے۔ پھرتا پھراتا وہ ساحل کی نم ریت پر پنجے گاڑ کر کھڑا ہو گیا اور سورج کو آہستہ آہستہ سمندر میں ڈوبتے دیکھتا رہا۔

 

ہوٹل واپس جانے کو اس کا جی نہ چاہا، اس نے ساحل پر غسل کرنے کے بعد قصبے کی راہ لی۔ گلیاں شام کی روشنیوں میں جگمگا اٹھی تھیں، تھڑوں پہ لگی میزوں پر گلاس اور چمچے، کانٹے سلیقے سے سجے تھے۔ دن بھر ریت اور نمک میں لتھڑے رہنے والے بدن تازہ دم ہو کر اپنے بہترین لباسوں میں شام کے کھانے کے لیے گلیوں میں نمودار ہو رہے تھے۔ سوچوں میں گم وہ کچھ دیرگلیوں میں پھرتا رہا، پھر وہ ایک شرابخانے میں داخل ہوا اور بیئر کا گلاس سامنے رکھ کر،ماحول سے لاتعلق بیٹھا رہا۔

 

“میرا خیال ہے یہ کرسی خالی ہے”، کسی نے کھنکتی آواز اور اطالوی لہجے کی انگریزی میں اسے مخاطب کیا۔ یہ ایک جوان عورت تھی جو اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر کرسی کھینچ کر بیٹھ چکی تھی۔ وہ عمر میں اس سے چند سال چھوٹی رہی ہوگی اور زندگی کی توانائی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی، سنہرے بالوں کے بیچ اس کے چہرے پر ایسی دمک تھی کہ ایک لمحے کے لیے راشد کے حلق سے کوئی آواز نہ نکلی۔

 

“میں نے تمہیں ساحل پر دیکھا تھا، ڈوبتے سورج کے مقابل اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے، میرا نام دانیئلا ہے”، اس نے کھنکتی ہنسی کے ساتھ راشد کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ راشد جو بوکھلاہٹ کے اولیں لمحے سے نکل چکا تھا، اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہنسا۔ “ایسی ملاقات کی مجھے کوئی توقع نہیں تھی،تم نے تو اچانک میری بے رنگ شام میں فانوس جلا دیے، میرا نام راشد ہے”۔

 

دانیئلا نے اسے بتایا کہ لیوانتو میں اس کے والدین کا گھر تھا، وہ اسی قصبے میں پلی بڑھی تھی۔اب وہ فلورنس میں رہتی تھی اور چھٹیوں میں چند دنوں کے لیئے والدین سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ راشد کے دل میں ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ اسے نہ بتائے کہ وہ مکمل شادی شدہ اور بال بچے دار آدمی تھا، دانیئلا کی دلچسپی شاید یہ جان کر ختم ہو جاتی اور وہ اپنی بوریت کی دلدل میں ہاتھ پیر مارتا اکیلا رہ جاتا۔ لیکن اس نے اس خیال پر لعنت بھیجی۔ اس نے دانیئلا کو اپنے اس سفر کے بارے بتایا، راحیل اور کلاڈیا کے بارے، اور یہ کہ وہ اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔دانیئیلا کو اس کے کوائف سے آگاہ ہو کر کسی قسم کی مایوسی ہوئی تو اس نے اس کا اظہار نہیں کیا، لیوانتو، فلورنس اور فرینکفرٹ کی باتیں کرتے انہوں نے سکاچ وہسکی کا آرڈر دیا۔ یہ تجویز دانیئلا کی تھی، اس نے کہا کہ وہ کبھی کبھار ہی وہسکی پیتی تھی اور آج کی شام اس کے لیئے ایسی ہی تھی۔ دوسرا پیگ ختم کرتے ہوئے راشد کی نظرنے دانیئلا کے سراپا سے ہٹنے سے انکار کردیا، اس کے تاب دار چہرے، شفاف گلے اور سرخ بلاؤز سے جھانکتے مدور ابھاروں نے اسے حسن و مستی کے اس ماحول کی یاد دلائی جسے وہ کلاڈیا کا ہاتھ تھامنے کے بعد خیرباد کہہ چکا تھا۔ اس نے سنا، دانیئلا کچھ کہہ رہی تھی،”مجھے مشرقی مرد پسند ہیں، ان میں ایک خاص طرح کا اسرار ہوتا ہے جو یورپی مردوں میں نہیں، یورپی مرد اکہرے، بے رنگ اور پھُپھسے ہیں”۔

 

اوہ، نہیں، پلیز یہ پراسرا رمشرق کا ریکٹ مت چلانا، اس کلیشے کی دھجیاں اُڑے تو زمانہ ہوگیا، راشد نے کچھ کوفت سے سوچا۔

 

“کلیشے؟”، دانیئلا نے جیسے اس کی سوچ کو پڑھ لیا تھا، “میں ایک خودمختار عورت ہوں اور اپنے لیئے مرد بھی خود منتخب کرتی ہوں اور میری زندگی میں ان کی کمی نہیں رہی۔ مشرقی مردوں کے بارے یہ بات میں نے اپنے تجربے سے کہی ہے، کسی گھٹیا رومانی ناول سے استفادہ نہیں کیا”۔

 

“یہ صرف ایشیائی معاشرے اور تربیت کا اثر ہے، کبھی کھُل کر دل کی بات نہ کہنا، دوغلے، چوغلے لوگ جو بظاہر پراسرار لگتے ہیں۔”راشد نے خشک لہجے میں کہا۔

 

“میں کئی جگہیں اور زمانے پھر چکی ہوں، ہمپی کی چٹانوں کے بیچ، اجنتا کے غاروں میں اور سارناتھ کے مندروں میں گھومتی رہی ہوں اور صدیوں کے اسرار میرے اندر سرائیت کرتے رہے ہیں۔ میں نے دریائے سندھ کے ساتھ سفر کیا ہے، موہنجو داڑو اور ہڑپہ میں تنِ تنہاراتیں گزاری ہیں، میں آئس کریم چاٹتی اطالوی لڑکی نہیں ہوں جس کے دماغ میں نئے فیشن کے علاوہ کوئی بات کم ہی بیٹھتی ہے”۔
راشد کی ریڑھ میں ایک سرد لہر سی پھیلی۔”تم کون ہو؟ اور میرے متروک ماضی سے نکل کر اچانک کیسے میرے سامنے آ بیٹھی ہو؟”

 

“میرے ساتھ چلو گے، اسرار دیکھو گے؟”دانیئلا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ راشد نے ایک ہی گھونٹ میں وہسکی کا گلاس خالی کیا اور جیب سے موبائل فون نکال کر کلاڈیا کا نمبر دبایا، جواب کلاڈیا کی آنسر مشین نے دیا۔ راشد نے اس کے لیئے پیغام چھوڑا کہ وہ ایک پب میں تھا اور اسے واپس آنے میں دیر ہوجائے گی۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ لگے پرانے قصبے کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں چلتے رہے، دانیئلاکی کھنکتی، لاپرواہ ہنسی اور اس کے وجود سے اٹھتی توانا مہک نے راشد کے دل و دماغ کو اُتھل پتھل کر رکھا تھا، برسوں کی تہ بہ تہ جمتی اکتاہٹ میں دراڑیں پڑ رہی تھیں۔ دانیئلا ایک پرانی وضع کے تین منزلہ مکان کے دروازے پر رکی۔ دیواروں پر پھولوں سے لدی بیلیں پھیلی تھیں، بالکونیوں میں تازہ رنگ کئے سرخ گملوں میں موسم کے تازہ پھول کھلے تھے۔ مکان کی ساری کھڑکیاں تاریک تھیں۔

 

داینیئلا نے دروازہ کھولتے ہوئے اسے بتایا کہ اس کے والدین شام کے کھانے پر ایک عزیز کے گھر مدعو تھے، اسے وہ رشتہ دار پسند نہیں تھے اور اس نے والدین کی ہمراہی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ دالان میں روشنی پھیلی تو راشد کو پرانے لاہور میں اپنا آبائی گھر یاد آگیا۔ یہ ویسا ہی صحن تھا، سرخ اینٹوں کا فرش، دو اطراف برآمدے، ان کے پیچھے کمرے۔ ہر طرف پھولوں سے بھرے گملے۔ کھلی سیڑھیوں پر لوہے کا جنگلا اور اس سے لپٹی بیلیں۔ پھر اسے رات کی رانی کی مہک آئی۔ وہ بحیرہ روم کے ساحلی قصبوں میں دھوم مچاتی رات کی رانی کی مہک سے واقف تھا لیکن آشنائی اور اجنبیت کے اس ملے جُلے ماحول میں اس خوشبو نے اسے بیک وقت اداس، مضطرب اور شاداب کردیا۔ دانیئلا کے پیچھے سیڑھیاں چڑھتا وہ اس کے کمرے میں داخل ہوا۔

 

یہ ایک لمبا سٹوڈیو نما کمرہ تھا، دیواروں کے ساتھ کتابوں کی بلند الماریاں، چھت کے بیچ لٹکتا قدیم وضع کا فانوس، جگہ جگہ وینس، زیوس، کالی، شیو، عشتروت اور ایسے قدیم دیوی دیوتاؤں کے مجسمے تھے جن سے وہ قطعی ناواقف تھا۔ تین چھوٹے چھوٹے فوارے جن میں گرتا پانی دھیما جلترنگ بجا رہا تھا، کھڑکی کے پاس سرخ ریشم کی چادر سے ڈھکا بستر جس کے سرہانے سرسوتی کا مجسمہ ایستادہ تھا۔ ایک کونے میں دراز قد پودوں اور لکڑی کی منقش جالیدار دیوار سے مختصر سی پارٹیشن کی گئی تھی، کھڑکی سے آتی رات کی رانی کی مہک کمرے میں پھیلی تھی۔راشد لکڑی کے چمکتے فرش پر منہ کھولے کھڑا تھا۔ اس نے اپنے شانے پر دانیئلا کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا اور اس کے اشارے پر چلتا سامنے کی دیوار کے ساتھ بچھے بید کے صوفے پر بیٹھ گیا۔

 

“میرے آشناؤں میں ایسے یورپی لوگ رہے ہیں جنہیں قدیم ہندوستانی تہذیب سے لگاؤ تھا، لیکن ایسا نفیس ذوق میں نے کبھی نہیں دیکھا۔”اس نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔

 

“اس کمرے میں میرا بچپن اور نوجوانی کا زمانہ گزرا ہے، یہ میرا مستقل ٹھکانہ ہے، اپنی سیاحت کے دوران اکٹھی کی ہوئی چیزیں میں یہاں جمع کرتی رہتی ہوں۔”دانیئلا نے ایک چھوٹے سے فریج سے اسکاچ کی بوتل نکالتے ہوئے اسے مطلع کیا۔ “اور فلورنس؟ وہاں بھی تم ایسے ہی رہتی ہو؟”“نہیں، وہ میرا عارضی پڑاؤ ہے”۔ دانیئلا نے گلاسوں میں وہسکی انڈھیلتے اسے بتایا کہ فلورنس میں وہ ایک مرد اور ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ ایک مختصر سے فلیٹ میں رہتی تھی جہاں اس کے پاس ایک کمرہ تھا جس میں مختلف قسم کا الم غلم کئی برسوں سے گتے کے ڈبوں سے نکلنے کا منتظر تھا۔ اسے کام اور سیاحت سے فرصت ملتی تو یہاں آجاتی تھی۔ یہ اس کی بالکل اپنی، ذاتی دنیا تھی۔

 

باتیں کرتے وہ اٹھی اور ایک سی ڈی منتخب کرکے پلئیر میں ڈالی، کمرے میں ایک عجیب سی موسیقی پھیل گئی، تانپورہ، ستار، چیلو، ڈیچر ی ڈُو اور افریقی ڈھول کے ملاپ نے مدھم روشنی میں ڈوبے اس کمرے کو اٹلی کے ساحل سے اٹھا کر کسی انجانے کرے پر پنہچا دیا جہاں انسان کا قدم نیا نیا پڑا تھا۔

 

دانیئلا اسے انتظار کرنے کا اشارہ کرکے لکڑی کی جالی کے پیچھے چلی گئی، یہ یقینا اس کی تبدیلیِ لباس کی جگہ تھی۔ راشد نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے اپنے دماغ کو ڈھیلاچھوڑنے کی کوشش کی، جنگلوں کی یاد دلاتی موسیقی نے اسے آہستہ آہستہ اپنے جادو میں گھیر لیا۔

 

“میرے ساتھ رقص کرو گے؟”اس نے دیکھا دانیئلا ایک ادا سے اس کی طرف ہاتھ بڑھائے کھڑی تھی۔ وہ آتشیں سرخ رنگ کے ایک مہین، لہریے دار لبادے میں ملبوس تھی۔

 

“نہیں، میں اپنے بے ڈھنگے پن سے اس لمحے کا حُسن برباد نہیں کرنا چاہتا”۔

 

دانیئلا کھلکھلا کر ہنسی اور کمرے کے وسط میں آکر ہلکے ہلکے جھولنے لگی۔ راشد نے وہسکی کا ایک لمبا گھونٹ لیا۔ چند گھنٹے پہلے تک وقت اس کے سینے پرگیلی ریت کی بوری کی طرح پڑا تھا اور اب راشد کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ لمحہ، لمحہ جگنو بن گیا ہے یا خوشبو۔

 

موسیقی میں جلال آتا گیا اور دانیئلا کے رقص میں وحشت اور جمال، سنگی دیوتاؤں کے اس ماحول میں وہ داسی نہیں، ایک محوِ رقص دیوی تھی جو جھومتی، لہریں لیتی، رنگ و روشنی کی کائنات میں سرمستی کے نئے جہان جنم دے رہی تھی۔ اس کا قوس در قوس بدن ہیجان، سرخوشی، تناسب اور بکھراؤ کے سب اسرار اپنے جلو میں لیئے راشد کی دنیا تہہ و بالا کررہا تھا۔

 

اس رقص میں تراشے ہوئے بدن کی لوَ تھی اور روح کی تازگی، مسرت تھی، اتھاہ کرب تھا، طلب کی دیوانگی تھی، خودسپردگی تھی اور پُرغرور بغاوت تھی۔ وہ بہت دیر تک سانس روکے اسے ایک ٹُک دیکھتا رہا، وہ ایک الوہی حسن کے روبرو تھا جس پر وہ نظر جما سکتا تھا نہ ہٹا سکتا تھا۔اس کے دل، دماغ، بدن اور روح میں کوئی دوری نہ رہی تھی اور اس کا سارا وجود ایک نقطے پر آچکا تھا جہاں دانیئلا کے پیروں کی تھاپ پر نئی، ہموار اور زندہ دھڑکنیں تخلیق ہو رہی تھیں۔

 

سانس اس کے سینے سے رہا ہوئی،جب وہ ایک جھٹکے سے اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا۔ اس نے ایک پرندے کی طرح بانہیں پھیلائیں اور دانیئلا کے گرد ناچنے لگا۔وقت اپنا مدار چھوڑ چکا تھا اور وہ دونوں مرکز اور مدار بانٹتے ایک دوسرے کے گرد رقص کر رہے تھے۔ جب موسیقی کا آخری سُر ایک سنہرے تیر کی طرح کسی نامعلوم کو نکلا، ان کے وجود ایک دوسرے میں جذب ہوچکے تھے۔

 

سرخ ریشم کی چادر پر ان کے برہنہ بدن ایک دوسرے میں گُندھے رہے، سرسوتی کی وینا دھیمے سروں میں بجتی رہی اورکمرہ رات کی رانی کی مہک سے بھرتا گیا۔
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *