ناول “سرخ شامیانہ” کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
“ لعنت بھیجو”، شاہد کرسی میں گرتے ہوئے بولا۔
وہ تینوں کینٹین کے لان میں بیٹھے چائے پیتے رہے۔ کھلے آسمان پر چیلیں سستی سے اُڑ رہی تھیں اورگرد آلود ہوا لان میں کھلے نوع بہ نوع پھولوں کی خوشبو سے بوجھل تھی۔ان کے واقف دوست گھڑی بھر ان کے پاس ٹھہرتے، گپیں لگاتے اور کینٹین میں یا کلاسوں کی طرف چلے جاتے۔ بظاہر سب کچھ معمول کے مطابق تھا لیکن فضا میں ایک دبا دبا جوش اور اضطراب تھا جسے وہ سب محسوس کر رہے تھے۔
یکایک بڑی راہداری سے بھگدڑ کی آواز آئی، کچھ لڑکے لڑکیاں بھاگتے ہوئے کینٹین کی طرف آئے کچھ دوسری سمت لیکچرہال کی طرف نکل گئے، ان میں سے چند لڑکے کونے پر مڑ کر راہداری میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگے۔ گولی چلنے کی آواز آئی،پھر پے در پے گولیاں۔ وہ تینوں اٹھ کر کینٹین کی اوٹ میں چلے گئے۔
مارو مارو انہیں، فائرنگ کے شور میں انہوں نے ایک بلند اور کرخت آواز سنی۔
پھر چیخوں اور کسی کے گرنے کی آواز آئی، فوراً ہی کچھ اسلحہ بردار راہداری سے باہر نکلے اور بھاگتے ہوئے مختلف سمتوں میں غائب ہو گئے۔چیخ و پکار بلند ہوگئی۔ مخالف جماعت کے ایک رکن کو کلاشنکوف کا برسٹ چاٹ گیا تھا۔ میڈکل کالج کے وسط میں طبی امداد پہنچنے تک اس چمکدار دن میں، گلاب کی کیاریوں کے پاس اس نے اپنے سرخ ہوتے گاؤن میں دم توڑ دیا، نبض شناسی سیکھنے والی انگلیوں میں ریوالور جکڑا رہا۔
کالج غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا گیا، مبینہ ملزم فرار ہوچکے تھے، ہاسٹلوں کی تلاشیاں لینے کے بعد انہیں گھروں کو کوچ کرنے کا حکم جاری ہوا۔ توفیق کا پستول اس کے نیفے میں اُڑسا رہا۔ اس کے کمرے کی تلاشی لیتے ہوئے کسی کو قبائیلی علاقے کے اس خوش پوش، ہنس مُکھ لڑکے کی جسمانی تلاشی کا خیال نہ آیاتھا۔
“ جناب، کیا کالج کے ساتھ ہی امتحان ہونے بھی بند؟” شاہد نے سوٹ کیس اٹھائے باہر نکلتے ہوئے ہاسٹل کے دروازے پر کھڑے پرنسپل سے پوچھا۔
“ خوش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، امتحان وقت پر ہوں گے”، پرنسپل نے خشک لہجے میں جواب دیا۔ کاش تمہارے مزاحمتی پوسٹر رنگ لاتے، یہ کالج قتل گاہ نہ بنتا اور مجھے ڈاکٹر سے گورکن نہ بننا پڑتا، اس نے دور ہوتے شاہد کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹے، ننگی اینٹوں کے مکانوں کی قطار میں یہ پلستر شدہ بڑا مکان نیا تعمیر شدہ دکھائی دیتا تھا۔ لوہے کے پھاٹک پر سبز رنگ کیا گیا تھا، پھاٹک سے اوپر دیوار پر سبز رنگ کی ایک بڑی تختی آویزاں تھی جس پر مکین کا نام درج تھا، آستانہ عالیہ خادم درویشاں، سگِ اولیأ حضرت پیر غلام دستگیر سہروردی نقشبندی مدظلہ علیہ۔ سبز رنگ کا دوسرا دروازہ یقینا بیٹھک میں کھلتا تھا۔ کچھ دیر تذبذب کے بعد راشد نے اس دروازے پر دستک دی۔ دروازہ فوراً ہی کھول دیا گیا تھا، یہ ایک بڑا کمرہ تھا جس میں دو مختلف رنگوں کے قالین ساتھ ساتھ بچھے تھے، ہوا اگربتیوں کی مہک سے بوجھل تھی اور چاروں دیواروں سے ٹیک لگائے حضرات خشوع و خضوع سے بیٹھے تھے، دائیں دیوار پر لکڑی کے چوکھٹے میں خانہ کعبہ کی فوٹو تھی جس میں حج کا منظر دکھایا گیا تھا اس فوٹو کے نیچے سفید لباس اورسفید پگڑی میں ملبوس صاحبِ خانہ تشریف فرما تھے جن کی توجہ قریب بیٹھے سائل پر مرکوز تھی جو انہیں دھیمی آواز میں اپنا مسئلہ بیان کر رہا تھا۔ راشد کے سلام کا بقیہ حاضرین نے باآوازِ بلند جواب دیا، پیر صاحب نے اس کی آمد نظرانداز کی تھی۔ جوتے اتار کرراشد ایک طرف بیٹھ گیا۔ لوگ اپنی باری پر پیر صاحب کے پاس بیٹھ کر اپنا مسئلہ بیان کرتے، یہ مسائل زیادہ تر نوکری، کاروباری مشکلات، اولاد اور بیماری سے متعلق تھے۔ پیر صاحب سے تعویز، صدقہ یا چلہ کشی کی ہدایات حاصل کرکے سائل دونوں ہاتھوں میں احترام سے چھپا کر نذرانہ ان کے نمدے کے نیچے گھسیڑ دیتا۔ باری آنے پرراشد پیر صاحب کے سامنے دوزانو ہُوا، صاحبِ خانہ نے اپنی سُرمے سے منور بڑی بڑی آنکھوں سے اسے لمحہ بھر دیکھا، اس نظر میں دوسرے کو بھانپ لینے کا تفاخر تھا۔ ایک لمحہ توقف کے بعد انہوں نے سرسری انداز میں کہا،” بچھڑ گیا ہے، مل جاے گا،ـ” عرفان کو کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر انہوں نے بات جاری رکھی،”لیکن پیچیدہ کام ہے، کل صبح دس بجے تنہائی میں ملاقات کریں،کوشش کریں گے آپ کے لیئے۔”
باہر نکل کرراشد نے گہری سانس لی، تنہائی میں ملاقات کا مطلب وہ جانتا تھا۔
“لوگ کیسے سونگھ لیتے ہیں کہ میری جیب میں پیسے ہیں؟” اس نے بے زاری سے سوچا۔
پروفیسر جمیل احمد کی گمشدگی کو جو خاندان کے اکثر افراد کی رائے میں روپوشی تھی، چار ماہ گزر چکے تھے۔ پولیس کی بے ثمر مالی خدمت کرنے کے بعد راشد زندہ اور مردہ پیروں کے لواحقین کی کفالت کر رہا تھا۔ اس کی ماں جو عمر بھر توہمات کے خلاف رہی تھی، اب ہر قسم کا ٹونہ ٹوٹکا آزمانے پر تیار تھی، اس کے اصرار پر راشد اسے دعا مانگنے کئی مشہور مشکل کشاؤں کی قبر پر لے جا چکا تھا، لیکن پروفیسر جمیل احمد بدستور لاپتہ تھا۔کالے بکرے جو راشد نے بطور صدقہ قربان کروائے تھے اس کے خوابوں میں آنے لگے تھے، وہ سینگ تانے اور داڑھیاں تنتناتے اسے للکارتے اور جاتے ہوئے اس کی نیند مینگننوں سے بھر جاتے۔
سبز دروازے سے نکل کر اس نے سگریٹ سلگایا اور آہستہ خرامی سے اپنی کار کی طرف روانہ ہوا، جسے وہ اس خدشے کے پیشِ نظر گلی کے موڑ پر چھوڑ آیا تھا کہ کار دیکھ کر پیر صاحب کا نرخ بڑھ نہ جائے۔ شاہد کار میں ہی اس کا منتظر تھا، اس نے یہ کہہ کر پیر صاحب کی زیارت میں راشد کا سا تھ دینے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ کسی پیر یا مولانا کی خوشامد پر گمشدگی کو ترجیح دیتا تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس پر یکلخت مایوسی، بیزاری اور شدید تھکن کا حملہ ہوا۔ فائنل امتحان شروع ہونے میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ امتحان کا خوف باپ کی گمشدگی کی دہشتناک پریشانی میں مل کرایک اعصاب شکن بیماری کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ سگریٹ کا کش لیتے ہوئے راشد کا ہاتھ کانپا، پھر یہ لرزا سارے بازو میں پھیل گیا۔ سگریٹ کار کی کھڑکی سے باہر پھینکتے ہوے وہ بڑبڑایا،” باپ سے بھی گئے اور امتحان سے بھی گئے”۔
“ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، ہاہاہاہاــ” اچانک اس کے قریب سے ایک بلند آواز گونجی۔ راشد نے مُڑ کر دیکھا یہ وہی مجذوب نما فقیر تھا جسے اس نے چند ماہ پہلے ایک ڈرائیور ہوٹل پردیکھا تھا، اسے پہچاننے میں راشد کو ایک لمحہ بھی نہ لگا لیکن اس کے نعرے کے اچانک پن نے اور اس کی انتہائی بلند آواز نے اس کے اعصاب جھنجھوڑ کر رکھ دیے تھے۔
“ ایک اور ڈرامہ، سالی زندگی ہے یا نوٹنکی!”۔ شاہد بولا
یکلخت راشد نے غصے کی ایک شدید لہر کو کھوپڑی میں پھیلتے محسوس کیا۔” تم کیا سن باسٹھ کی پنجابی فلموں کا سین چلاتے پھرتے ہو؟ کون ہو تم؟” وہ فقیر پر غرایا۔
“عبدالباقر گلا بلا، نونہہ کُچجی آٹا ڈھلا”۔
اس علم افروز جواب نے راشد کو لا سوال کردیا، وہ منہ کھولے الف لیلہ کے اس شاہکار کو دیکھتا رہا۔
“ شاہو خانقاہ شاہو،چلو جی،” فقیر نے نعرہ لگا کر گاڑی کی چھت کو زور سے کھڑکھڑایا جیسے مسافربس کو روانگی کا اشارہ دے رہا ہو۔ راشد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراـ گاڑی اسٹارٹ کر کے گیئر میں ڈالی اور ایک دھچکے سے آگے بڑھا لے گیا، تماشا دیکھنے کے شوقین جو گاڑی کے قریب جمع ہورہے تھے بمشکل خود کو بچا سکے، ان میں سے چند ہوا میں مُکے لہراتے اور گالیاں دیتے تھوڑی دور تک کار کے پیچھے بھاگے۔ کچھ دور جا کر دماغ پراچانک چھاجانے والی وحشت کم ہوئی توراشد کو خیال آیا کہ وہ خواہ مخواہ اپنا تماشا بنا بیٹھا تھا اور بلا تمیزِ سمت و منزل اُڑا جارہا تھا۔ شاہد کچھ بوکھلایا سا خاموشی سے ٹریفک پر نظر گاڑے بیٹھا تھا۔ اب شاہو خانقاہ پنہچ کر ہی دم لوں گا، اس نے غصے اور خجالت سے سوچا۔ لیکن خانقاہ شاہو تھی کہاں؟ کنڈکٹر کو تو وہ وہیں چھوڑ آیا تھا۔
یکلخت اسے مکمل یقین ہو گیا کہ اس کا باپ خانقاہ شاہو میں تھا، یہ بات شک و شبہ سے ماورا ایک یقین کی صورت اس کے دل میں داخل ہوئی اور وہاں جم کر بیٹھ گئی۔ شام ہونے تک وہ اس خانقاہ کا اتہ پتہ معلوم کر چکے تھے۔
دور دور تک کھیت تھے اورہوا سبزے کی خوشبو سے بوجھل تھی، گہرے نیلے آسمان پر اکا دکا سفید بادل سستی سے پھر رہے تھے۔ منڈی بہاألدین گزرنے کے چند کلومیٹر بعدراشد نے کار بائیں ہاتھ کو نکلتے ایک کچے راستے پر موڑ دی۔ کھیتوں کے درمیان لیٹا یہ ایک سیدھا، خوبصورت راستہ تھا، دایں ہاتھ ایک چوڑا کھالا چل رہا تھا جس میں مٹی کے رنگ کا پانی خاموشی سے بہہ رہا تھا، کھالے کے ساتھ ساتھ پوپلر کے پیڑ جھوم رہے تھے۔ یہ پیڑ ابھی نوخیز تھے اور ان کے تنے پتلے تھے لیکن صحت مند مٹی میں ان کی جڑیں مضبوط تھیں اور وہ ایک لہک اور سرشاری کے ساتھ دیکھتے دیکھتے آسمان میں بلند ہوتے جارہے تھے۔ راستے کے دوسری طرف وقفے وقفے سے شیشم، کیکر اوربیر کے درخت تھے۔ یہ نوخیز پوپلر کے برعکس بڑی متانت اوربُردباری سے کھڑے تھے، ان میں ان کی صدیوں پرانی خاندانی تہذیب کا وقار تھا۔
شاہد کا ایک پرانا واقفِ کار بشیربھٹی بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہ اس علاقے کو جانتا تھا، خانقاہ شاہو کے محلِ وقوع کا علم بھی اسی سے ہوا تھا۔ کچے راستے پر چند کلومیٹر گرد اڑانے کے بعد جب وہ ایک گاوٗں کے قریب پہنچے تو کتوں نے حسبِ روایت ان کا استقبال کیا، وہ پوری قوت سے بھونکتے اور ایک دوسرے پر گرتے پڑتے کار کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔ راشد نے کار کی رفتار رینگنے کی حد تک کم کردی۔ بھٹی نے اسے رکے بغیر گاؤں سے نکل جانے کا مشورہ دیا تھا لیکن اس چھوٹے سے گاؤں کی اکلوتی نیم تاریک ہٹی دیکھ کر راشد نے کار روک لی۔
اس کے منہ میں یکلخت نِگدی کا ذائقہ گُھل گیا تھا۔ دینہ کے قریب اس کا آبائی گاؤں تھا جہاں وہ بچپن میں سکول کی چھٹیاں گزارتا تھا، گاؤں کی اکلوتی ہٹی میں سب سے مزیدار چیز نِگدی تھی جس سے اس کی نکر کی جیبیں بھری رہتی تھیں۔ بہت بعد میں ایک بار اس کا ایک دوست لندن سے واپسی پر اس کے لئے چاکلیٹ کا ایک پیکٹ لایا تو اس نے اس پیکٹ پر نگٹ لکھا ہوا دیکھا، اسے لفظ نِگدی کی سمجھ تو آگئی لیکن نگٹ میں بچپن کی نِگدی کا مزہ نہ آیا۔
کار رکنے اور اس کے باہر نکلنے پر شور وغل مچاتے کتے یکدم خاموش ہو گئے۔ ان میں سے اکثر دم دبا کر اوراور تھوتھنی لٹکا کر کار سے ایک مناسب فاصلے پرٹہلنے لگے، وہ مشکوک نظروں سے کار کو گھور رہے تھے، چند ایک دبی آواز میں غراتے ہوے راشد کوہٹی تک چھوڑنے آئے۔ دکان کے پاس کھڑے لوگوں نے ان بے ضرر جانوروں کو حقارت سے بھگا دیا۔ دوکاندار نے نگدی کی فرمائش پر اسے حیرت اور تاسف کے ملے جلے جذبات سے دیکھا، اس نے بتایاکہ اس کے باپ کے زمانے میں ایسی چیزیں بکا کرتی تھیں، آجکل ایسی دقیانوسی اشیاء کا خریدار کون تھا؟ اس کے پاس بہترین بسکٹ کے ڈبے تھے اور سوڈے کی بوتلیں۔ راشد اس اطلاع پر اس کا شکریہ ادا کرکے گاڑی کی طرف لوٹ آیا۔
“نگدی نایاب تھی تو گنڈیریاں ہی لے آتے!“، شاہد اسے خالی ہاتھ لوٹتا دیکھ کر بولا۔
کار چلی تو کتے فوری طور پر اسی جوش و خروش اور ولولے سے بھونکنے اور کار کے اردگرد بھاگنے میں مصروف ہوگئے۔
دوپہر کے قریب وہ خانقاہ شاہو پہنچے۔ یہ چھ سات کچے کمروں پر مشتمل ایک ڈیرہ نما احاطہ تھا جس سے ایک چھوٹی اور سادہ سی مسجد ملحق تھی۔ یہ اس طرف کی آخری انسانی آبادی تھی، اس سے آگے چناب کا بیلہ تھا جس میں ڈِب اور سرکنڈے کے جزیرے اور صاف سرد پانی کی جھیلیں ایک دوسرے میں خلط ملط تھیں۔ بیلہ دن بھر مختلف نسل کی مرغابیوں کی آوازوں سے گونجتا رہتا، ان میں طویل پرواز کرنے والی کونجوں اور مرغابیوں کی چہکاریں بھی تھیں جو سائیبیریا سے سردیاں گزارنے کے لیے پنجاب کے پانیوں تک کا سفر کرتی تھیں۔ہوا میں ٹھہرے پانی، گھاس اور پرندوں کی ملی جُلی خوشبو تھی۔
دوپہر کے قریب وہ خانقاہ شاہو پہنچے۔ یہ چھ سات کچے کمروں پر مشتمل ایک ڈیرہ نما احاطہ تھا جس سے ایک چھوٹی اور سادہ سی مسجد ملحق تھی۔ یہ اس طرف کی آخری انسانی آبادی تھی، اس سے آگے چناب کا بیلہ تھا جس میں ڈِب اور سرکنڈے کے جزیرے اور صاف سرد پانی کی جھیلیں ایک دوسرے میں خلط ملط تھیں۔ بیلہ دن بھر مختلف نسل کی مرغابیوں کی آوازوں سے گونجتا رہتا، ان میں طویل پرواز کرنے والی کونجوں اور مرغابیوں کی چہکاریں بھی تھیں جو سائیبیریا سے سردیاں گزارنے کے لیے پنجاب کے پانیوں تک کا سفر کرتی تھیں۔ہوا میں ٹھہرے پانی، گھاس اور پرندوں کی ملی جُلی خوشبو تھی۔
احاطے میں داخل ہوتے ہی ان کی نظر جس شخص پر پڑی وہ پروفیسر جمیل احمد تھا۔ وہ ایک کونے میں لگے دستی نلکے پر لوٹے میں پانی بھر رہا تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر اس نے لوٹا نیچے رکھ دیا۔
“مجھے پتہ تھا تم مجھے ڈھونڈ لوگے،” پروفیسر جمیل احمد نے رسان سے کہا۔
“ بڑی خوشی ہوئی یہ سن کر، آپ گویا ولایت کی منزل پر پہنچ چکے ہیں،” راشد کے لہجے میں تلخی تھی۔
“ مجھے افسوس ہے میں نے تم سب کو بہت تکلیف دی۔” جمیل احمد کے لہجے میں افسوس نہیں تھا، اس کی آواز جذبات سے خالی تھی، وہ بیٹے کو گلے لگانے کے لیے آگے نہیں بڑھا۔
راشد کو جھٹکا سا لگا، اس کا ریاضی دان باپ گرم جوش آدمی نہ تھا لیکن یہ ٹھٹھرا دینے والی سرد مہری نئی تھی۔ وہ چند لمحے تذبذب کا شکار رہا، پھر اس کا دل بھر آیا، وہ آگے بڑھ کر باپ سے بغلگیر ہوگیا۔ جمیل احمد نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا لیکن اس کے وجود میں ایک لاتعلقی اور بیگانگی تھی جیسے اس کا اصل اس واقعہ سے کہیں دور کسی دوسری دنیا میں ہو۔
اس نے نلکے کے پاس کھڑے کھڑے راشد کو بتایا کہ اسے یا اس کی ماں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی، وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر آیا تھا اور اس خانقاہ میں بہت خوش تھا اور یہ کہ اُس مریض دنیا میں لوٹنے کا اس کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
“ آپ کم از کم بتا ہی دیتے، ہم لوگ تلاش میں اتنا عرصہ ذلیل تو نہ ہوتے”، راشد نے تلخی سے کہا۔
“ بتا دیتا تو مجھے جانے کون دیتا ؟“، پروفیسر جمیل احمد نے کہا،” ویسے بھی لواحقین کو سوتے چھوڑ کر تارک الدنیا ہو جانا اس خطے کی قدیم روایت ہے۔” اس کے لہجے میں مزاح کا شائبہ تک نہ تھا۔
شاہد اور بشیر بھٹی نے کچھ دیر گھگھیا کر پروفیسر کی منت کی کہ اسے گھر لوٹ جانا چاہیے تھا، یا قطعی طور پر لا تعلق ہونے کی بجائے کم از کم کبھی کبھار اپنے خاندان کی خیر خبر لیتے رہنا چاہیے تھا۔
“ میرا خیال تھا کہ کم از کم تمہارا ذہن اہم باتیں سوچنے کا اہل ہے، لیکن تم نے بھی عمومی سطح کی بات کی”، پروفیسر نے شاہد کو گھورتے ہوئے کہا،” دن ابھی ڈھلا نہیں، خیریت سے واپس پہنچو، خدا حافظ”۔
“ روپوش ہی رہنا تھا تو وہ ایجنٹ کیوں روانہ کیا تھا؟” راشد نے باپ کے قطعی لہجے کو نظرانداز کرتے ہوئے غصے سے اسفتسار کیا۔
“ کون سا ایجنٹ؟”
“ وہ فلمی فقیر جو کوڈ ورڈز میں پیغامات نشر کرتا پھرتا ہے”۔
“ میں کسی فلمی فقیر کو نہیں جانتا، ایک مجذوب یہاں آتا رہتا ہے، ہو سکتا ہے اس سے تمہارا سامنا ہوگیا ہو”۔ پروفیسر جمیل احمد نے خشکی سے جواب دیا پھر اس نے پانی سے بھرا لوٹا اٹھایا اور ان لوگوں پر الوداعی نظر ڈالے بغیر دالان کے ایک سرے پر بنے ایک ڈربہ نما کی سمت روانہ ہوگیا۔