Laaltain

سبیل سے بندوق تک

19 نومبر، 2015
1986-87میں میری عمر سات برس تھی۔ ہمارے محلے میں سنی اکثریت میں تھے اور شاید دو چار شیعہ خاندان بھی آباد تھے یہ الگ بات ہے کہ اس وقت ہمیں یہ تقسیم معلوم ہی نہیں تھی کہ کون شیعہ ہے اور کون سنی اور یہ ہوتا کیا ہے۔ ہمارے ہاں محرم کے مہینے کا آغاز ختم قرآن، دعا اور منتیں مانگنے جیسی مذہبی رسوم کی ادائیگی سے شروع ہو تا تھا۔ ایک دفعہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ ہم یہ سب اہتمام کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ اہل بیت جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا گھرانہ ہے اس مہینے میں ہم ان کو نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی خدمت بھی کرتے ہیں جو ان کی یاد کا اہتمام کرتے ہیں۔

 

شاید محلے کے سب بچوں کی تربیت بھی اس طرح ہی ہوتی تھی یہی وجہ تھی کہ محرم کے آغاز سے ہی ہم محلے کے سارے بچے ایک سفید چادر لے کر سارے محلے میں ننگے پاوں پھرتے اور دس محرم کو اہل تشیع کے جلوس کے لیے سبیل لگانے اور میٹھے چاولوں کی دیگ بنانے کے لیے چندہ جمع کرتے۔ قریب قریب ہر محلے میں اسی طرح کا اہتمام نظر آتا۔ مگر اسی زمانے میں ایک برس ہمیں یہ کہہ کر محرم میں باہر نکلنے سے منع کر دیا گیا کہ ان دنوں میں باہر نکلنا خطرناک ہے۔ ادھر ادھر سے جو معلوم پڑا وہ یہ تھا کہ امام بارگاہ جسے ہم تب امام باڑہ کہتے تھے کہ قریب ایک نئی مسجد بنی ہے۔ اور اس مسجد والوں نے کہا ہے کہ اگر اہل تشیع جلوس نکالیں گے تو ہم ان نہیں چھوڑیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے ابو سے یہ سوال کیا کہ ان کے جلوس کے لیے تو ہم سبیلیں لگاتے تھے مگر اب یہ بندوقیں کس نے لگا دیں؟ مگر ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اور پھر آہستہ آہستہ سبیلوں کا سلسہ ختم ہوتا گیا اور بندوقوں کا سلسلہ شرو ع ہو گیا۔۔۔۔۔۔ ہم بڑے ہو گئے اور ہمیں پتا چل گیا کہ تقسیم کیا ہوتی ہے۔

 

ہم محلے کے سارے بچے ایک سفید چادر لے کر سارے محلے میں ننگے پاوں پھرتے اوردس محرم کو اہل تشیع کے جلوس کے لیے سبیل لگانے اور میٹھے چاولوں کی دیگ بنانے کے لیے چندہ جمع کرتے۔ قریب قریب ہر محلے میں اسی طرح کا اہتمام نظر آتا۔ مگر اسی زمانے میں ایک برس ہمیں یہ کہہ کر محرم میں باہر نکلنے سے منع کر دیا گیا کہ ان دنوں میں باہر نکلنا خطرناک ہے۔
مگر آج میں سوچتا ہوں کہ تقسیم کی اس آگہی نے ہمیں کتنا فائدہ دیا؟ کبھی کبھی کوئی آگہی کتنا کرب دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

 

تقسیم کرنے والوں نے ملانے والوں کا بٹوارہ کر دیا۔ ہم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور اطہارِ اہل بیت کو تقسیم کر دیا۔ یہ میرا ہے اور وہ تمہارا۔ محبتیں نفرتوں میں بدل گئیں۔
بر صغیر میں تعزیے کی قریب چھ سو سال پرانی سنی اور شیعہ میراث کو کس کی نظر لگ گئی۔۔۔۔۔۔ وہ تعزیہ جس کو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندو راجاؤں نے بھی فروغ دیا اس کو تشدد کی ایسی ہوا لگی کہ تعز یے کی جگہ جنازے اٹھنے لگے۔

 

مولوی نور احمد چشتی نے اپنی تصنیف یادگار چشتی میں لاہور کے تعزیوں کے بارے میں لکھا ہے ’سُنی کیا شیعہ کیا سب ہی مجلسِ امام برپا کرتے ہیں۔ سب سے پہلے دوست، غر یب غر باء کو کھا نا کھلا تے اور پھر رات بھر مرثیہ خوانی ہوتی اور فجر کو (مجلس) بر خاست ہو تی تھی اور ۔۔تعزیہ۔۔ شیعہ سنی سب بنا تے ہیں پھر دوسرے دن تعزیو ں کی گشت کرتے ہیں۔

 

لاہور میں دھرم پورہ ہندوؤں اور سکھوں کا مذہبی مرکز تھا۔ یہاں بھی ہندو اور سکھ تعزیے بنا کر برآمد کرتے تھے۔ بعد میں ہندووں کی بجائے سنی المسلک عقیدت مند اسی جگہ نو محرم کی رات کو تعزیے سجاتے جو عاشورہ تک جاری رہتے۔ ساری رات حلیم کی دیگیں تیار کی جاتیں۔ جو دس محرم کی صبح کو بانٹی جاتیں۔ روہڑی سندھ میں بھی تعزیوں اور جلوسوں کی روایت صدیوں پرانی ہے اور وہاں آج بھی سنی اور شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی امام حسین کی یاد مناتے ہیں۔

 

اگرچہ برصغیر میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ تفریق تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی موجود تھی لیکن اس مخاصمت کی نوعیت اس قدر شدید نہیں تھی جو آج ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں چلائی گئی “جاگ سنی جاگ پاکستان تیرا ہے ” جیسی تحریکوں نے فرقہ واریت کو ہوا دی اور پھر انقلاب ایران کے بعد اسی کے عشرے میں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے سنی شیعہ اختلاف کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں جارحانہ کردار ادا کیا۔ 1979 میں جنرل ضیاء الحق کے نافذ کیے گئے زکوٰۃ و عشر آرڈیننس نے سنی شیعہ اختلافات کو مزید ہوا دی جس میں سنی اورشیعہ فقِہی اختلاف کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ یہی آرڈیننس تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی تخلیق کا سبب بنا اور 5 جولائی 1980 کو اسلام آباد میں شیعہ کنونشن منعقد کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے ان اقدامات نے ملک کے اندر نہ صرف ایران اور سعودی عرب کے اثر و رسو خ کو پنپنے کا موقع دیا بلکہ فرقے کی بنیاد پر قتل و غارت کی بنیاد بھی رکھی۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کی مالی امداد اورتربیت کے ذریعے اختلافات کو تشدد کا راستہ پکڑنے میں سہولت مہیا کی گئی۔ “سواد اعظم اہل سنت”، “انجمن سپاہ صحابہ” اور مولانہ حق نواز جھنگوی کی متشدد اور شدت پسند تکفیری فکر کو اسی دور میں تقویت ملی۔ سپاہ محمد جیسی تنظیمیں بھی اسی متشدد فکر کے ردعمل کے طور پر سامنے آئیں۔ تحریک جعفریہ کے علامہ عارف الحسینی اور مولانا حق نواز جھنگوی کے قتل نے تشدد کی لہر کو ایسی ہوا دی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

 

1980سے لے کر آج تک ہزاروں افراد اس تشدد کی نظر ہوئے لیکن 2010 کے بعد اہل تشیع کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا، پورے ملک میں امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کراچی، بلوچستان، اندرون سندھ، پنجاب، کوہستان اور گلگت میں لوگوں کو بسوں سے اتار کر بے دردی سےقتل کیا گیا، امام بارگاہوں پر حملے کیے گئے اور ممتاز شیعہ شخصیات کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ کرم ایجنسی اور گلگت کی طرف سفر کرنا دشوار ہو گیا، زائرین کے لیے مقامات مقدسہ تک کا زمینی سفر غیر محفوظ ہو گیا اور لوگ افغانستان کے راستے کرم ایجنسی میں اپنے گھروں کو جانے پر مجبور کر دیئے گئے۔

 

لاہور میں دھرم پورہ ہندوؤں اور سکھوں کا مذہبی مرکز تھا۔ یہاں بھی ہندو اور سکھ تعزیے بنا کر برآمد کرتے تھے۔ بعد میں ہندووں کی بجائے سنی المسلک عقیدت مند اسی جگہ نو محرم کی رات کو تعزیے سجاتے جو عاشورہ تک جاری رہتے۔ ساری رات حلیم کی دیگیں تیار کی جاتیں۔ جو دس محرم کی صبح کو بانٹی جاتیں۔
اس سارے منظرنامے نے عام لوگوں میں نفرتوں کی خلیج کو بڑھاوا دیا۔ مذہب اور فرقے کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلا گیا۔ ‘شیعہ کافر شیعہ کافر’ کے نعرے دیواروں پر نظر آنے لگے۔ مساجد کے ایسے نام رکھے جانے گئے جن سے فرقہ وارانہ وابستگی صاف ظاہر ہونے لگی۔ جنرل ضیاء کے دور میں فرقہ وارانہ مواد پر پابندی کی بجائے ایک فرقے کی سرکاری سرپرستی کی گئی۔ مذہبی جماعتیں اتنی مضبوط ہو گئیں کہ ملک کی سیاسی جماعتیں بھی انتخابات میں کامیابی کے لیے ان کی مدد کی محتاج ہو گئی ہیں۔ آج بھی بہت سے سیاست دان اور جماعتیں کھلے عام ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔

 

اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں جہاں ایک زمانے تک محرم کے دوران سنی اور شیعہ اپنے اپنے طریقے سے جلوس نکالتے اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو یاد کرتے تھے اب وہاں تکفیری مدارس کی بہتات ہے۔ قرآن و حدیث کی وہ آیات اور احادیث جن میں محبت، برداشت اورصبر کی تلقین کی گئی تھی انہیں پس پشت ڈال کر ایسی تشریح کو فروغ دیا گیا جس سے مذہبی اختلاف کو مزید ہوا ملے ۔

 

جو ہمیں پڑھایا گیا وہ اس طرح تھا:
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق فرمایا:
’’میرے صحابہ ہدایت کے ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کسی کی پیروی اور اقتداء کرلو گے تم سیدھی راہ پالو گے‘‘۔
(عبد بن حميد، المسند، ج1، ص250، رقم الحديث783)

 

اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم، صحابہ میں شامل ہیں لیکن ان کے متعلق یوں ارشاد ہوا کہ
اور اہل بیت کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ۔
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘۔
لیکن فرقہ وارانہ تقسیم نے نہ صرف شخصیات کو تقسیم کیا بلکہ آیات کو بھی تقسیم کیا۔ ایک مشترکہ میراث کے حاملین کے مابین روایات، اسناد اور مقدسات کی تقسیم سے زیادہ اذیت ناک کیا ہو سکتا ہے۔ بد قسمتی صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کی عزت و عظمت سے متعلق آیات و احادیث سنیوں کی میراث اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہما سے محبت سے متعلق ارشادات اہل تشیع کی وراثت قرار دے دیئے گئے ہیں جو ہرگز مستحسن امر نہیں۔

 

اللہ تعالی اور آقائے کائنات نے جو تعلیم دی تھی اس کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ۔
اللہ رب العزت نے امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا:
’’ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو‘‘۔
(البقرة، 2: 143)

 

ہم نے اختلاف کے نام پر گالم گلوچ اور فساد کا بازار گرم کر دیا۔ خون کی ندیاں بہا دیں۔ جو امن سکھانے اور پھیلانے آئے تھے انہوں نے تفرقہ کی بنیا د پر عرب دنیا سمیت برصغیر میں جنگ کا میدان گرم کر رکھا ہے۔
جبکہ دوسری طرف صحابیت کے تاجدار صدیق اکبر رضی اللہ، ولایت کے تاجدار مولا علی رضی اللہ سے یہ فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گلی میں جارہے ہیں اور سیدنا امام حسن علیہ السلام کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور کہہ رہےہیں کہ مجھے اپنے باپ کی قسم! حسن، مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ ہے، علی تمہاری شبیہ نہیں ہے۔ حضرت علی یہ سن کر ہنس دیئے‘‘۔
(صحیح بخاری، ج3، ص1370، الرقم:3540/3349)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *