[blockquote style=”3″]
ادارتی نوٹ: عرفان شہزاد کا تحریری سلسلہ ‘مفتی نامہ’ ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں مذہبی طبقات اور عام عوام کے مذہب سے متعلق معاشرتی رویوں پر ایک تنقید ہے۔ اس تنقید کا مقصد ایسے شگفتہ پیرائے میں آئینہ دکھانا ہے جو ناگوار بھی نہ گزرے اور سوچنے پر مجبور بھی کرے۔
[/blockquote]
مفتی نامہ کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
مفتی نامہ- قسط نمبر 7
مفتی صاحب کا مقیاس الایمان ایک ہی ہے، بندے کی مسلمانیاں ہوئی ہوں، شلوار پائنچے سے بلند ہو اور داڑھی مشت بھر سے لمبی ہو۔
مفتی صاحب کا مقیاس الایمان ایک ہی ہے، بندے کی مسلمانیاں ہوئی ہوں، شلوار پائنچے سے بلند ہو اور داڑھی مشت بھر سے لمبی ہو۔ مسلمانیاں جانچنے کی کوئی سبیل ہے نہیں سو داڑھی اور پائنچے تک ہی ایمانی شماریات کا کھاتہ محدود رکھتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہر مرد کو اس کی داڑھی کی طوالت، گھنے پن اور رنگ سے شناخت کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے ان کے شناختی کارڈ پر شناختی علامت بھی یہی درج ہو کہ دو تہائی چہرے پر داڑھی ہے۔ مفتی صاحب سے کچھ بعید نہیں کہ وہ عنقریب پاسپورٹ میں داڑھی اور بغیر داڑھی کا خانہ بھی شامل کرائیں۔ ان کا بس نہیں چلتا ورنہ اس دنیا میں ہر بچہ داڑھی کے ساتھ پیدا ہوتا۔ داڑھی کی وجہ سے ہی وہ ارسطو اور افلاطون کو بھی مسلمان قرار دیتے ہیں۔ آپ کے اختیار میں ہو تو ہر ناکے پر سنتریوں کو جامہ تلاشی کی بجائے داڑھیاں ناپنے پر لگا دیں۔ بعض بکرے اسی واسطے ان کے نزدیک فرشتہ صورت قرار پاتے ہیں کہ ان کی تھوڑی پر چند بال شرمندہ شرمندہ سے اگ آتے ہیں۔
ہمارے ممدوح مفتی صاحب حقیقتاً ساری دین داری داڑھی میں مانتے تھے، (اگرچہ ان کے خیال میں داڑھی اور مردانہ قوت میں بھی کچھ جائز و ناجائز رشتہ ہے ضرور) مگر اصل معاملہ تو دین اور داڑھی کی باہمی مطابقت کا ہے۔ داڑھی مشت بھر سے جتنی کم ہوتی اتنا آدمی ساقط الاعتبار ہوتا جاتا۔ یہی معاملہ جنت و جہنم سے قرب و بعد کا ہے، داڑھی بڑھائیے اور جنت کے قریب ہو جائیے، داڑھی مونڈیے اور جہنم کی ہمسائیگی اختیار کیجیے۔ ایک دفعہ میں نے علامہ اقبال کا نہایت ایمان افروز شعر سنایا۔ مفتی صاحب جھوم گئے۔ پھر فورا سنبھل کر گویا ہوئے کہ ہاں راتوں کو قرآن پڑھتے ہوئے روتا تھا اور صبح اٹھ کر داڑھی مونڈ دیتا تھا یہ کیسی دین کی محبت؟
ہمارے ممدوح مفتی صاحب حقیقتاً ساری دین داری داڑھی میں مانتے تھے، (اگرچہ ان کے خیال میں داڑھی اور مردانہ قوت میں بھی کچھ جائز و ناجائز رشتہ ہے ضرور) مگر اصل معاملہ تو دین اور داڑھی کی باہمی مطابقت کا ہے۔
ایک بار فجر کی نماز کے بعد ایک کلین شیو شخص نے مفتی صاحب کو بٹھا لیا اور شدت عقیدت سے روتے ہوئے بتایا کہ اسے خواب میں روضہ رسول کی زیارت ہوئی ہے۔ مفتی صاحب نے مبارکباد دی۔ ہم سب اس کی خوش قسمتی پر رشک کرنے لگے۔ جب وہ چلا گیا تو ارشاد فرمایا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا، بھلا ایک داڑھی منے کو یہ سعادت کیسے حاصل ہوسکتی ہے جب کہ ہمیں نہیں ہوتی حالانکہ ہم نے داڑھی بھی رکھی ہوئی ہے۔
مفتی صاحب کے ہاں اگرچہ مستثنیات بھی ہیں صرف ایک کلین شیو تھا جسے وہ نہ صرف پسند کرتے بلکہ اللہ کا ولی مانتے تھے۔ اور وہ خوش نصیب تھا جنرل ضیاء الحق!
وجہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔۔