پہلے دو باتیں منیر احمد فردوس کے بارے میں اختصار میں جامعیت جس طرح میں نےمنیر احمد فردوس کے ہاں دیکھی ہے یہ چیز کم کم ہی دوسرے ہم عصر لکھاریوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں اختصارافسانے کا حسن دو چند کر دیتا ہے وہاں ان کا قلم تخلیق میں ایسی جامعیت پیدا کر دیتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ ادیب سماج کا ایک ماہرمعالج ہوتا ہے جو نا صرف سماج کو لگی بیماریوں کی تشخیص کرتا ہے بلکہ ان کی دوا اورعلاج بھی تجویز کرتا ہے۔اب اگر مریض تجویز کردہ علاج کو نہ اپنائے اور بیمار ہی پڑا رہے تو معالج کا کیا قصور؟
سماج اپنے زمانوں کے مطابق تہذیب اور تمدن کے پیٹنز بناتے ہیں جو پہلے سے مروج تہذیبی اور تمدنی پیٹرنز پر پرت در پرت چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تہذیب اور تمدن کی ہر نئی پرت یا نیا پیٹرن پرانی پرت یا پیٹرن میں حقیقی بدلاؤ پیدا کرے جس سےسماج اقدار کی بلند سطح پر اٹھتا چلا جائے-لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ اورایسا کیوں نہیں ہوتا؟ یہ سوال طویل وقتی بحث کا متقاضی۔اس سارے قضیے کو سمجھنے کے لیے تہزیب اور تمدن کے کوڈز کو الگ الگ سمجھنے اور جانچے پرکھنے کی ضرورت ہے بہت سارے سماج متمدن ہیں لیکن وہ اب تک مہذب نہیں ہوئے بالکل اسی طرح جیسے بہت سارے سماج مہذب تو ہو گئے ہیں لیکن متمدن نہیں ہو سکے۔یہ دو الگ انتہائیں یا صورتیں ہیں اس سلسلے میں ایسی ہی اور بھی بہت سی انتہائیں یا صورتیں گنوائی جا سکتی ہیں۔ جیسے ان ہی میں سے ایک صورت ہے ہمارے خطے کی جو حقیقی معنوں میں نہ مہذب ہوا ہے اور نہ متمدن۔پہلے سے مروج تہذیبی اور تمدنی پیٹرنز پر ہم نے دوسرے سماجوں سے درآمد کیے ہوئے مصنوعی پیٹرنزچڑھا کر خود سے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم مہذب بھی ہو گئے ہیں اور متمدن بھی۔ لیکن ہمارے ہی غیر حقیقی رویے ہماری تہذیب اور تمدن کے پیٹرنز کی کلی کھولتے چلے جاتے ہیں۔
منیر احمد فردوس کا افسانہ ” کالی شلوار والی” ایک بے رحم بیانیہ ہے جواشرافیہ کے چہروں پر رکھ رکھاؤ تمدن اور تہذیب کے نام پر پڑی دکھاوے کی چادرکو ایک ہلے میں نوچ ڈالتا ہے جس کے پیچھے چھپا اشرافیہ کا حقیقی چہرہ پورے معاشرے کی عکاسی کرتا ہوا ظاہر ہو جاتا ہے۔
مشہور افسانوں کے کرداروں یا واقعات کو برت کر نیا خیال تخلیق کر لانے کی تکنیک کوئی نئی نہیں ہے سریندر پرکاش “بجوکا” میں پریم چند کے افسانے کے ایک کردار ہُوری کو مرکزی کردار کے طور پر اپناتے ہیں ایسا کرنے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مصنف کے پاس ۔ ایک تو کردار کا تشخص دوبارہ اُجاگر نہیں کرنا پڑتا قاری صرف کردار کا نام پڑھ کر ہی اس کے متعلق تمام تر بنیادی معلومات تک پہنچ جاتا ہے بشرط ِ کہ اس نے مزکورہ افسانہ پڑھ رکھا ہو۔
کالی شلوار والی میں منیر احمد فردوس نے بھی اسی تکنیک کا استعمال کیا ہے انہوں نے منٹو کے مشہور افسانے ” کالی شلوار” کی سلطانہ کو اپنے افسانے کے مرکزی کردار کے طوور پر چنا ہے افسانے کا راوی مصنف خود ہے جو منٹو کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منعقدہ ایک سرکاری کانفرنس یا سیمینار کی روداد سنا رہا ہے سیمینار کی ابتدا سے لیکر پہلے دن کے اختتام تک کی گہما گہمی پر نظر کریں تو لگتا ہے کہ ہم ایک مہذب اور متمدن سماج ہیں جس پر دنیا کا ہر سماج ہر معاشرہ رشک کر سکتا ہے۔جس کی اقدار اپنانے کو کوئی بھی ملک اپنا فخر سمجھ سکتا ہے۔لیکن حقیقت یکسر مختلف ہے۔جو رات ہوتے ہی ننگ دھڑنگ ہمارے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔۔ جب کالی شلوار والی سلطانہ ایک جیتے جاگتے انسان سے اشرافیہ کی تفریح کے سامان میں بدل دی جاتی ہے بلکہ اگر کہوں کہ خود اپنے وجود سمیٹ کالی شلوار بنا دی جاتی ہے جس کے ایک ایک بخیے کو یہ نام نہاد مہذب اور متمدن اشرافیہ رات بھر پرکھتے ٹٹولتے رہتے ہیں۔یہاں اگر ہم غور کریں تو مصنف نے ماہر معالج کی طرح اپنی چابقدستی سے سماج کے ایک موذی مرض کی نشاندہی کی ہے ۔ اس نے اپنی پوری ایمانداری سے دکھانے کی کوشش کی ہے کہ نہ تو ہم مہذب ہوئے ہیں نہ متمدن۔۔ بلکہ ایک مصنوعی لیپ کے زریعے ہم نے خود کو مہذب اور متمدن بنا کر دکھایا ہے حقیقت کا جس سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے آگے چل کر مصنف نے ایک اور کمال کیا ہے اس نے اس کالی شلوار کو جو منٹو کی سلطانہ سے ہوتی ہوئی منیر احمد فردوس کی سلطانہ تک آ پہنچی ہے اسے منٹو کی مرقد پر سلطانہ کے ہاتھوں چادر کی طرح چڑھوا دیا ہے۔۔۔
قاری جو اس ہی معاشرے کا حصہ ہے جب اس افسانے کے ذریعے منٹو کی قبر پر پہنچتا ہے تو خود کو افسانے میں دکھائے گئے اشرافیہ کے ساتھ کھڑا محسوس کرتا ہے افسانے کے بطن میں موجزن معانی کا سیال قاری کے لیے کھولتا ہوا لاوا ثابت ہوتا ہے جو قاری کو آن کی آن میں پورا نگل جاتا ہے۔
سماج کی تشکیل اتنی نا ہموار ہے کہ اسے کہاں سے چھیلیں اور کہاں سے بھریں کہ یہ ہموار ہو جائے سمجھ ہی نہیں آتی وقت کا دھارا سرک کر 1940 سے 2018 تک آن پہنچا ہے لیکن ہماری بد قسمتی کہ وہ سلطانہ کی کالی شلوار اپنے ساتھ اٹھا لایا ہے اور اسے 2018 کی سلطانہ کے ہاتھوں منٹو کی مرقد تک پہنچا دیا ہے ۔ کہنے کو وقت بدل گیا ہے۔ لیکن بدلا کچھ بھی نہیں سماجی سوچ پہلے سے بھی زیادہ پسماندہ ہو گئی ہے دوسری طرف سلطانہ زیادہ با شعور ہو گئی ہے جس نے کالی شلوار منٹو کی قبر پر چادر کی طرح چڑھا کر کمال کر دکھا یا ہے ایسا کمال جس نے معاشرے کے بخیئے ایک ہی جست میں ادھیڑ کر اس کے ہاتھ میں تھما دیے ہیں۔ کالی شلوار سماج کی فصیل پرعلم کی طرح لہرانے لگی ہے اور سب کو ایک بار پھر ان کے چہرے اصل حالت میں دکھانے لگی ہے۔ اور چیخ چیخ کر کہنے لگی ہے حقیقی تہذیب اور تمدن اس سماج کو چھو پر بھی نہیں گزرا۔جانے کتنی اور سلطانہ اس پاداش میں پسیں گی جانے کتنی کالی شلواریں پہنا کر اس معاشرے کے ننگے پن کو ڈھانپنا پڑے گا جانے کب یہ سماج حقیقی معنوں میں مہذب اور متمدن ہو جائے گا جانے کب؟
“کالی شلوار والی” جیسا شاہکار افسانہ لکھنے پر جناب منیر احمد فرردوس کو بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اسے “کہانی میرے دور کی” کے لیے منتخب کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالی شلوار والی
آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ سرکار نے اُس چوٹی کے ادیب کو کبھی بھولے سے بھی یاد کیا ہو۔ پتہ نہیں ایک دم سے سرکاری ایوانوں میں کیسی ہوا چل پڑی تھی کہ سیاسی ماحول یکسر ادبی موسم میں بدل گیا اور صفِ اول کے اُس کہانی کار کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے لاہور جیسے ادبی مرکز میں سرکاری سطح پر ایک سیمینار رکھ دیا گیا تھا, ایک ایسا شہر جہاں کے پوش علاقے لکشمی مینشن میں رہتے ہوئے وہ تقسیم کے دنگے فساد کے خونی لمحات کا چشم دید گواہ بن کر انہیں اپنے افسانوں میں اتارتا رہا اور امر ہوتا رہا۔
سیمینار کے بارے میں جس نے بھی سنا سرکار کی جھولی میں چند تعریفی سکے پھینکے بغیر نہ رہ سکا کہ چلو اُس کی زندگی میں نہ سہی, مرنے کے بعد ہی افسانے کے اُس بے تاج بادشاہ کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔
لاہور کے ایک اعلیٰ ترین ہوٹل کا سب سے بڑا ہال زرد اور سفید روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ ہوٹل انتظامیہ نے بھی کمال کر دکھایا تھا کہ اُس شہرہ آفاق افسانہ نگار سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ہال کا نام ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ ہال رکھ دیا تھا جو اس کے افسانوں کا سب سے بڑا حوالہ تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ھال میں ہر طرف اُس بڑے ادیب کی تصویریں, اس کے کاٹ دار تیکھے جملے اور مختلف بینر لگے ہوئے تھے۔ ہال کے باہر تو اُس کی شان ہی الگ تھی کہ جہاں اُس کا ایک بڑا سا سنہری رنگ کا چمکتا ہوا عینک والا مجسمہ نصب کر دیا گیا تھا جس کے ساتھ کھڑے ہو کر ہر آنے جانے والا فوٹو بنوا کر اس سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتا نظر آتا تھا جن میں زیادہ تر نوجوان لڑکے لڑکیاں شامل تھیں جو شاید سب لکھاری ہی تھے۔
شہر کا شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ ہال میں پلٹ آیا تھا جہاں ملکی سطح کے جانے مانے ادیبوں نے اُس کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے اًس کی کہانیوں کو موجودہ سماجی ناہمواریوں کے ساتھ جوڑ کر انہیں نئے زاویئے عطا کئے۔ اس کی الجھی ہوئی شخصیت کی کئی گمنام پرتیں کھول کر لوگوں کی آنکھوں پر حیرتیں باندھی گئیں اور پردہِ سکرین پر اس کی ڈاکو مینٹری پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مشہورِ زمانہ افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پر مبنی ٹیلی فلم دکھا کر تقریب میں نئے رنگ بکھیرے گئے تھے اور اس کا لازوال تخلیقی جملہ “اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانہ دی منگ دی دال آف لالٹین” پورے ہال میں بار بار گونجتا رہا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہال کبھی تالیوں سے جی اٹھتا, کبھی افسردگی کے گاڑھے دھوئیں سے بھر جاتا اور کبھی پورے ہال پر ایک دم سے سنجیدگی کی چادر تن جاتی تھی۔ میڈیا کے لوگ ان یادگار لمحات کو مستعدی سے اپنے کیمروں میں محفوظ کرتے یہاں وہاں بھاگتے پھر رہے تھے۔ سٹیج پر نامی گرامی ادیبوں کے علاوہ چند بڑے حکومتی عہدیدار بھی کلف لگے اکڑے ہوئے سوٹوں میں بڑے طمطراق کے ساتھ کالے چشمے لگائے براجمان تھے۔
سیمینار کا دلچسپ ترین اور حیران کن پہلو یہ تھا کہ اُس بڑے ادیب کی عظمتوں کو ایک نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کی ایک بہت عمدہ کوشش کی گئی تھی۔ علامتی طور پر اُس کے چند مشہور کرداروں کو بھی سٹیج پر بٹھایا گیا تھا اور حاضرین کی آنکھیں تو جیسے ان پر چپک کر رہ گئی تھیں۔ جن میں “نیا قانون” کا منگو کوچوان, “کھول دو” کی سکینہ, “بابو گوپی ناتھ” کا بابو, “گورمُکھ سنگھ کی وصیت” کا گورمُکھ سنگھ اور “کالی شلوار” کی سلطانہ بھی شامل تھی اور یہ سب یادگار کردار تمام لوگوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔
رات گئے تک سیمینار جاری رہا اور لوگ آخری دم تک پرجوش ہو کر یوں بیٹھے رہے جیسے سٹیج پر وہ چوٹی کا ادیب بھی بیٹھا ہو۔ تقریب ختم ہوئی تو لوگوں نے تمام علامتی کرداروں کو گھیر لیا اور ان کے ساتھ تصویریں بنوانے لگے۔ کافی دیر تک فوٹو سیشن چلتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ لوگ وہاں سے رخصت ہونے لگے۔ تمام بڑے لوگ جو مہمان تھے, دن بھر کے تھکے ماندے اپنے اپنے ٹھنڈے کمروں میں جا گھسے۔ اُس بڑے ادیب کے سبھی کرداروں کو بھی رخصت کر دیا گیا تھا سوائے کالی شلوار والی سلطانہ کے جو سٹیج پر بھی کالی شلوار پہنے اپنے بے پناہ حسن سے سبھی کے دلوں میں ہلچل مچاتی رہی اور لوگوں کی تیکھی نظریں اسے جگہ جگہ سے ٹٹولتی رہی تھیں۔ بڑے لوگوں کی فرمائش پر سلطانہ کو ہوٹل میں ہی روک لیا گیا اور رات بھر اس کی کالی شلوار مختلف کمروں میں سفر کرتی رہی۔ پوری رات اسے ایک پل کو بھی آرام کرنے کا موقع نہ مل سکا تھا۔
صبح ہوئی تو دیر تک بڑے لوگ اپنے کمروں میں دھت پڑے رھے۔ ہوٹل کی انتظامیہ انہیں نہ جگاتی تو شاید وہ سارا دن یونہی سوئے رہتے۔ ناشتے کے لئے سب ایک ہی جگہ پر جمع ہو گئے۔ سبھی کے خمار آلود چہروں پر ایک خاص قسم کی مسکراہٹ ناچ رہی تھی اور ان کی چمکتی آنکھیں کالی شلوار کو ڈھونڈتی ادھر ادھر گردش کرتی ہوئیں آپس میں ٹکرا جاتیں مگر وہ کسی کو بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ کوئی بھی نہ جانتا تھا کہ کالی شلوار والی سلطانہ صبح ہوتے ہی کہاں چلی گئی تھی۔
رات کے نشیلے لمحوں میں کھوئے سب نے مل کر پر تکلف ناشتہ کیا اور پروگرام کے مطابق اُس بڑے ادیب کی قبر پر حاضری دینے کے لئے سب تیار ہو گئے جہاں انہیں پھول اور چادر چڑھانا تھی۔
دس بارہ لوگوں کا وفد ایک بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر سیدھا میانی صاحب قبرستان کی طرف روانہ ہو گیا۔ آگے پیچھے پولیس کی دو گاڑیاں دوڑ رہی تھیں جن پر گنیں تھامے کالی وردیوں میں ملبوس پولیس کے جوان چوکس بیٹھے تھے۔ پون گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ سب قبرستان کے داخلی دروازے پر کھڑے تھے۔ غیر معمولی گہما گہمی, بڑے لوگوں کا ہجوم, پولیس گاڑیوں کے بجتے سائرن, پروٹوکول اور اخباری نمائندوں کو دیکھ کر ہوائی چپل پہنے بوکھلایا ہوا گورکن دور سے بھاگتا ہوا آیا اور عاجزانہ انداز میں جھک کر ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
“منٹو کی قبر کس طرف ہے۔۔۔؟” کسی پولیس والے نے ادھیڑ عمر گورکن سے پوچھا
“حضور اُس طرف ہے۔۔۔۔۔چلیں میں لے چلتا ہوں۔” گورکن نے قبرستان کے مشرقی کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نہایت عاجزی سے کہا۔ اس کی پھٹی ہوئی آستین لٹک رہی تھی اور اس کا سانولایا بازو باہر کو جھانک رہا تھا۔ وہ وفد کے آگے آگے چلتا سفید کتبوں والی چھوٹی بڑی قبریں عبور کرتا ہوا اسی سمت چل پڑا جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا۔ اس دوران کیمروں کے دو تین فلیش جھمکے اور گورکن سمیت وفد کی تصویریں اخباری نمائندوں کے کیمروں میں محفوظ ہو چکی تھیں۔ پولیس والوں کے بھاری بھرکم بوٹوں کی دھم دھم نے قبرستان کے سکوت کو تہس نہس کر دیا تھا جو وفد کے اعلیٰ نمائندوں کے آگے پیچھے چل رہے تھے۔ گورکن کی معیت میں کچی پکی قبروں کو پھلانگتے ہوئے وہ اس قبر کی طرف بڑھ رہے تھے جو قبر کی بجائے کتابوں میں پڑا ہوا تھا۔ ایک منحنی سا شخص ٹیڑھی چال چلتا ہوا بار بار وفد کے آگے پیچھے ہو رہا تھا جس نے ایک ہاتھ میں گلاب کے پتیوں سے بھری ٹوکری اور دوسرے ہاتھ میں قبر پر چڑھانے کے لئے چادر تھام رکھی تھی۔
کالی عینکیں چڑھائے دمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ جب وہ سب اُس مایہ ناز ادیب کی سنگِ مرمر سے بنی سفید قبر پر پہنچے تو ایک دم سے ان کے قدموں کی گونجتی دھم دھم یوں دم توڑ گئی جیسے ان کے پیروں سے سانپ لپٹ گئے ہوں۔ اکڑے ہوئے جسموں والے وفد کے قدم کچی قبر کی طرح سے بُھرنا شروع ہو گئے اور وہ سب اپنی اپنی جگہ پر ہکا بکا کھڑے تھے۔ جس کالی شلوار کو وہ ناشتے کی میز پر ڈھونڈتے رہے تھے وہ ان کی آنکھوں کے سامنے سب سے بڑے کہانی کار کی قبر پر چڑھی ہوئی تھی جہاں چند کملائے ہوئے پھول بھی پڑے تھے جن کی بکھری پتیاں بتا رہی تھیں کہ انہیں شدت کے ساتھ نوچا گیا تھا۔