” یہ جو خودکش حملہ آور ہیں ، یہ جو بچوں کی گردنیں کاٹنے والے ہیں ، یہ جو بچیوں کے سکول کو بموں سے اڑانے والے ہیں ، یہ جو پولیو ٹیموں پر حملے کرنے والے ہیں ، یہ جو ایک نہتی عورت کو سرِبازار کوڑے مارنے والے ہیں ، یہ جو محرم کے جلوسوں پر حملے کرنے والے ہیں ، یہ جو صوفیاء کے مزاروں کو دھماکوں سے اڑانے والے ہیں ، یہ جو تعلیم کے دشمن ہیں ، یہ جو ترقی کے دشمن ہیں ، یہ جو پولیس پر حملے کرنے والے ہیں ، یہ جو فوجیوں کے گلے کاٹ کر ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے والے ہیں ، یہ جو شریعت کے نام پر پر ستر ہزار پاکستانیوں کو موت کی نیند سلانے والے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ انسان نہیں ہو سکتے اور اگر انسان ہیں تو کم از کم مسلمان کبھی نہیں ہو سکتے۔۔۔ یہ پاکستانی بھی نہیں ہیں۔۔۔ یہ ضرور کسی اور کی سازش ہیں۔۔۔۔“یہ ہے ہمارا وہ مشترکہ اور عمومی رویہ جس کا اظہارہم ہر بم دھماکے، خودکش حملے یا دہشتگردی کے ہر واقعے کے بعد کھلے عام کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری جانب یہ سب کچھ کرنے والے سرِعام نہ صرف ان واقعات کی ذمہ داری تسلیم کرتے نظر آتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان فرما رہے ہوتے ہیں کہ شریعت کے نفاذ تک یہ جنگ جاری رہے گی اوروہ ایسے حملے ہوتے رہیں گے۔ اس بات کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ ہمارے اس مغالطے میں کچھ حقیقت بھی ہے کہ نہیں۔ کیں ہم ایسی پرفریب کہانیوں میں الجھ کر اپنے لیے مزید مسائل تو پیدا نہیں کر رہے؟
فرقہ وارانہ سوچ اور مذہبی منافرت کا چلن بھی گھر، گلی اور محلے کی سطح تک عام ہے، ایک مسلک کے ماننے والے کسی دوسرے مسلک کے ماننے والوں کی عبادت گاہ میں داخلے کے روادار نہیں۔
شدت پسند عورتوں کی تعلیم ، حقوق اور مساوی حیثیت کے خلاف ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے جو فرسودہ سوچ پائی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔اکثر علاقوں میں عورتوں کی تعلیم کو یا تو سرے سے ہی برا سمجھا جاتا ہے یا ایک مخصوص حد تک تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ معاشرے میں ایسی انتہا پسندانہ سوچ کا پایا جانا انتہاپسند قوتوں کے لیے اپنے عزائم آگے بڑھانے کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔اس کے علاوہ عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنا، خریداری کے لیے بازار جانا، کسی محفل میں شرکت کرنا، موبائل کا استعمال کرنا، ملازمت کے لیے نکلنا بھی بہت سارے علاقوں میں سختی سے ممنوع ہے اور جہاں جہاں عورتوں کو کسی قدر آزادی نصیب ہے وہاں بھی ان کے حوالے سے کچھ اچھے جذبات نہیں پائے جاتے۔ معاشرے میں عورت سے متعلق پائے جانے والے عمومی تاثرات کو ترقی پسند یا انتہاپسندی یا شدت پسندی کے خلاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔یہ تاثر عام دیکھنے کو ملتا ہے کہ جو عورت گھر سے باہر نکلتی ہے وہ شاید اچھے کردار کی مالک نہیں ہے ۔ ملازمت کے لیے باہر نکلنے والی خواتین کے بارے میں بھی عام خیال یہ ہے کہ وہ اچھے کردار یا چال چلن کی مالک نہیں ہو سکتیں۔
مقتدر حلقوں کے لیے جو طالبان کسی دوسرے ملک میں جا کر انسانوں کو قتل کرتے ہیں وہ اچھے طالبان ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں وہ ہمارے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔ اسی طرح ہر گروہ، طبقے اور مسلک کے لیے اچھے اور برے طالبان کا معیار مختلف ہوتا ہے۔
فرقہ وارانہ سوچ اورمذہبی منافرت کا چلن بھی گھر، گلی اور محلے کی سطح تک عام ہے، ایک مسلک کے ماننے والے کسی دوسرے مسلک کے ماننے والوں کی عبادت گاہ میں داخلے کے روادار نہیں۔اپنے مسلک کے ماننے والے اگر کسی حملے میں مارے جائیں تو شہید اور اگر مرنے والے کسی دوسرے مسلک کے ماننے والے ہوں تو وہ ہلاک۔ مذہبی اجتماعات میں کھلے عام نفرت انگیز تقریروں پر جھوم جھوم کر نعرے لگانے والوں میں ہم بھی شامل ہیں۔ وال چاکنگ، پوسٹرز، کتابوں، رسالوں یا سوشل میڈیا پر کھلے عام کفر کے فتوے بانٹنے والے، انہیں پسند فرمانے والے اور تکفیریت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے والے بھی ہم ہی ہیں۔ ہماری بات چیت، گفتگو اوربحث و مباحثے کے دوران بھی یہی خرد دشمن رویہ عام ہے۔اگر کوئی عقل، علم یا شعور کی بنیاد پر بات کرتا ہے تو اس کی زبان بندی کے لیے ہمارے پاس یوں تو کئی راستے ہیں لیکن سب سے آسان اور آزمودہ راستہ فتویٰ لگانا ہے۔ جب کسی پر فتویٰ لگ جاتا ہے تو باقی کام ہمیں کرنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ خود بخود ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔عقل، علم یا شعور کی راہ روکنے کے علاوہ ہم اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے بھی یہ طریقہ کار بہت کامیاب نتائج کے ساتھ بہت عرصے سے آزماتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال کوٹ رادھا کشن میں ہونے والا اندوہناک واقعہ بھی ہے جو سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لیے نشان عبرت ہے۔
آئیے اپنا احتساب کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہمارے بچوں، نوجوانوں، عورتوں، مردوں، بوڑھوں، فوجیوں، پولیس والوں کا قاتل کون ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان ستر ہزار پاکستانیوں کا خون ہمارے ہاتھ پر ہے؟؟
ہمارے ہاں ایک نقطہ نظر اچھے طالبان اور برے طالبان کی تفریق کا بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس سوچ کا گہرائی میں جا کر تجزیہ کیا جائے تو ہر مسلک یا فرقے کے حساب کتاب میں اچھے اور برے طالبان کی تعریف مختلف ہو سکتی ہے۔مقتدر حلقوں کے لیے جو طالبان کسی دوسرے ملک میں جا کر انسانوں کو قتل کرتے ہیں وہ اچھے طالبان ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں وہ ہمارے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔ اسی طرح ہرگروہ، طبقے اور مسلک کے لیے اچھے اور برے طالبان کا معیار مختلف ہوتا ہے۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو لڑکیوں کے سکولوں پر حملہ کرنے والوں کو برے طالبان مانتا ہے لیکن دوسری طرف بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جو ملالہ یوسف زئی پر حملے کو با لکل درست اقدام تصور کرتے ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت کے ذمہ دار انتہائی برے طالبان ہیں لیکن ان طالبان کا رہنما ملا عمر ہمارے دانشوروں اور مذہبی جماعتوں کی آنکھوں کا تاراہے۔ سلمان تاثیر کے قاتل کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور اسے ہیرو بنا دیا جاتا ہے۔ ایک جانب انسانی حقوق، امن، محبت اور رواداری کی بات کرنے والوں کو یا تومار دیا جاتا ہے یا ان کے راستے میں ہر طرح سے روڑے اٹکائے جاتے ہیں اور دوسری جانب کالعدم تنظیمیں نام بدل بدل کر کام کرتی ہیں اور ان کے کارندے کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے، ان کی مذمت کرنے یا ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہیں ۔
بظاہرہم شدت پسندی اور انتہا پسندی کے جس قدر خلاف ہیں ہمارا عمومی رویہ دہشت گردوں کے لیے اسی قدر راستے ہموار کررہا ہے۔ آئیے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں، آئیے ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیں، آئیے اپنا احتساب کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہمارے بچوں، نوجوانوں، عورتوں، مردوں، بوڑھوں، فوجیوں، پولیس والوں کا قاتل کون ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سترہزار پاکستانیوں کا خون ہمارے ہاتھ پر ہے؟؟ کہیں ہمارے عمومی رویے اس سب کے پیچھے کارفرما تو نہیں؟؟؟ ذرا سوچیئے!
بظاہرہم شدت پسندی اور انتہا پسندی کے جس قدر خلاف ہیں ہمارا عمومی رویہ دہشت گردوں کے لیے اسی قدر راستے ہموار کررہا ہے۔ آئیے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں، آئیے ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیں، آئیے اپنا احتساب کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہمارے بچوں، نوجوانوں، عورتوں، مردوں، بوڑھوں، فوجیوں، پولیس والوں کا قاتل کون ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سترہزار پاکستانیوں کا خون ہمارے ہاتھ پر ہے؟؟ کہیں ہمارے عمومی رویے اس سب کے پیچھے کارفرما تو نہیں؟؟؟ ذرا سوچیئے!