ادریس بابر کا شعری مجموعہ ‘عشرے’ چھپ کر آ گیا ہے اور یہ اس کی اختراع کردہ نئی صنفِ شعر عشرہ پر لے دے کا وقت ہے۔ دس مصرعوں کی اس مرکب صنفِ شاعری پر اب تک کافی کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے اور نئے لکھنے والوں میں اسے موزوں پذیرائی مل رہی ہے۔ کتاب کے آغازیے میں شاعر نے بہ تکرار یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نئی صنفِ سخن کا رخ واضح طور پر جدید سے مابعدِ جدید کی طرف ہے۔ اس دعوے پر پورا اترنے کے لیے یہ کن خواص کی حامل ہو، اس کا احاطہ بہت آسان نہیں، البتہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مابعد جدید دور جدید اور قدیم ہیئتوں کے پگھلنے اور ڈھلنے کا، اور متن و معانی میں کھل کھیلنے کا دور ہے۔ ادریس بابر کے عشروں کا مجموعہ ہمارے سامنے ہے اور اس کے سبھی عشرے ہیئتی ترکیب میں ایک دوسرے سے منفرد ہیں۔
“مرزا باطن دار بیگ” ایک نثری افسانچہ ہے، “ایک دلکش چڑیل کا نوحہ”، اور “مرحوم کی یاد میں” بادیالنظر میں نثری شخصی خاکے ہیں، “ماب کشی”، اور “شاعری کے عالمی دن پر” اخباروں میں چھپنے والی نامہ بنام مدیر جیسی نثری تحریریں ہیں جو ایسا لگتا ہے چونکہ اتفاق سے دس سطور پر مشتمل ہیں سو یہ تحریریں مذکورہ شعری ہیئت کی کشادگی سے رعایت پا کر عشروں کی کتاب میں آ گئی ہیں۔ معصوم، نالی ووڈ، بُھلیکھا، مسٹر وی ۲، نظم عیلان کردی پہ لکھنے چلے ہو، ایک محبت کے اطراف میں ١، ٢، ٹکٹ، نیا سال، عالم بیبی کے بچوں کی دعا، نولکھا، خان رمضان خانصاحب، لاسٹ ٹمپٹیشن آف کرائسٹ، اور موبائل ایک طرح سے پانچ بَیتوں کی مثنویاں ہیں، لیکن ان میں سے کچھ کچھ کہیں کہیں بحور کے توازن میں آزاد نظم سے جا ملتی ہیں۔ جہاں یہ انحراف ہے وہاں یہ مثنویاں تو نہیں رہیں لیکن عشرے کی لچکدار ہیئت نے انہیں سنبھال لیا ہے۔ لاہور میں، دیکھتا ہوں، اور پیرس پارس غزل یا قصیدہ کی سی ہیئت میں ہیں۔ “قوالی کے لیے کچھ ہے؟” یوں لگتا ہے، تین مصرعوں کے تین بند والی مانوس سی ہیئت کی ایک غنائیہ نظم تھی جسے عشرے کے ہیئتی جبر کے تحت ایک اضافی مصرع شامل کر کے عشروں کی کتاب میں شمولیت کے میرٹ پر لایا گیا ہے۔ اگر یہ نظم میری ہوتی تو یقیناً ٩ مصرعوں کی ہوتی۔
ادریس بابر کا عشرہ بالعموم انہی آمیختہ و ریختہ بندشوں کا ایک محلول ہے۔ کہیں کوئی عشرہ مثنوی طرز کے دو بیت باندھنے کے بعد ایک مسدس بند سے مصرعوں کی گنتی پوری کر جاتا ہے، تو کہیں ایک اور عشرہ غزلیہ قطعہ جیسے دو تین شعر دے کر اچانک آزاد نظم بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ نئی صنفِ شعر، پرانی اصنافِ سخن کے نمکدان کے خانوں سے حسبِ ذائقہ ایک دو چٹکیاں لیتی ہے اور اسے دس مصرعوں کے ایک برابر برابر ساشے میں پیک کر دیتی ہے۔
زبان کی سطح پر بھی ادریس بابر نے بیباکانہ تصرفات سے کام لیا ہے۔ روزمرہ بول چال کی تہہ سے تاثرات اور لسانی آمیزشوں کا بہت سا جھاڑ جھنکار جسے ابتک شاعری نے نہیں سمیٹا تھا، وہ آپ کو اس کی شاعری میں ملے گا۔ وہ رائج لفظوں کو بگاڑتا ہے، نئے لفظ بناتا ہے۔ کسی لفظ کو وہ کسی صوتی پڑوس کے لفظ کے نیچے قافیے میں رکھ کے روند دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بول چال کی عامیانہ ترین سطحیں اس کے لیے صحتِ لفظی کی سند ہیں۔ وہ پورے زور سے لسانی معیار و مسلّمات کے قاموسی مراکز کے کھونٹے سے رسی توڑ آیا ہے۔ جہاں عشرہ بحر میں ہے وہاں وہ لفظ کو صحیح املا کے ساتھ لکھ کے اسے بحر میں گفتاری تلفظ کے تحت رکھ دیتا ہے۔ تحت اللفظ میں پڑھنے سے آپ کو پتہ چلے گا کہ یہاں جماعتوں کو جماتوں، سائنس کو سَینس، غلَطی کو غلْطی، رہے کو رے اور چاہیے کو چائیے پڑھنا ہے۔ کہیں عشرہ نثری آہنگ میں ہے تو وہ املا کو ہی “خامخا” مبتذل کر دیتا ہے۔ اس بگاڑنے بنانے میں وہ جگہ جگہ قاری کو چِڑاتا ہے، خود چڑتا ہے۔ یوں ادریس بابر شعری ہیئتوں کی طرح لسانی ہیئات کو بھی اسی جذبے سے توڑتا پھوڑتا ہے اور اس تخریب کی اینٹ مٹی کے ذریعے تعمیرِ نو کا امکان ڈھونڈتا ہے۔
عشرہ کی صنف کے متعدد مابعد جدیدی اوصاف واضح اور ناقابلِ تردید ہیں۔ البتہ کسی نظمپارے کو عشرہ بنانے کی بنیادی شرط اس میں مصرعوں کی طے شدہ تعداد ہے۔ عہدِ حاضر میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے جہاں کاغذ کے استعمال کا ایک متبادل پیش کیا ہے، وہیں مواد کی گنجائش کا بھی ایک مختلف تصور سامنے آیا ہے۔ عشرہ میں مصرعوں کی طے شدہ تعداد کی بنیادی شرط کے لیے اب تک پیش کیا گیا سب سے نمایاں جواز اسی تصور سے متاثر ہے۔ وقت اور جگہ بچانے کا یہ استدلال البتہ جدیدیت ہی کے مقصدیت اور ہیئت پسندانہ رجحانوں کی بازگشت ہے، اور مابعد جدید ادب کی ہیئت شکن روح سے بہت کم میل کھاتا ہے۔
کسی بھی نئی صنفِ شعر کا متعارف ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماقبل تاریخی رزمیوں سے قصیدہ نکلا اور صدیاں پہلے قصیدے سے غزل کی صنف پھوٹی۔ رباعی چلی گئی، خیام رہ گیا۔ مثنوی پیچھے رہ گئی اور مولانا روم آگے نکل گئے۔ ایک نئی صنفِ شعر کے طور پر عشرے کے مستقبل کا فیصلہ بھی وقت نے ہی کرنا ہے۔ تاہم ادریس بابر کے ان عشروں کو شعری مواد کی سطح پر دیکھا جائے تو بھی وہ اپنے منصب کے ایک عصری امتحان میں اعتماد سے کھڑا نظر آتا ہے۔
ہم ترقیپذیروں کی شعوری تاریخ کیا اور اس کی منازل کیا۔ ایک نازک اور ناپختہ سا جمہوری بندوبست، طاقت کے روایتی رشتوں سے اُبھرے اربابِ حلِ عقد، علمی و تخلیقی طور پر دیوالیہ اہلِ علم و ہنر، اظہار و بیان پر خود ساختہ قدغنیں، رجعتی و جدتی نعروں کا شور، جدید ٹیکنالوجی کے آئینوں میں جھلکتے قدیم بوسیدہ عکس؛ یہ اُس پردے کی محض وہ چند ایک پرتیں ہیں جن کے پیش منظر میں ہمارے معاشرے کے مابعد جدیدی تجربہ کے خدوخال ابھرتے ہیں۔ بڑے سے بڑے انسانی المیے کو ان سنا کرنے کے لیے دردمندانہ لفاظی کی مدافعتی گولیاں بازار سے بارعایت دستیاب ہیں۔ عاشقِ زار کے پاس محبوب کا رابطہ نمبر تو ہے لیکن کہنے کو کچھ نہیں۔ سنسان کنٹین پر بیٹھے اخبار کے لہولہان فرنٹپیج سے میز پر گری چائے صاف کرنا سیاسی طور پر اِنکوریکٹ ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں ادریس بابر کے عشروں کے شعری مواد میں عصری زندگی کے تلخ و ترش کی بیشتر جزویات اپنے تمامتر معنوی انتشار کے ساتھ آپ کو سطح پر نمودار ہوتی ہوئی محسوس ہوں گی۔
ان عشروں میں آپ کو جگہ جگہ متوسط طبقہ کی زندگی اور کرداروں کی ہیئت کذائی کی جھلکیاں نظر آئیں گی۔ زندگی کے نشیب و فراز میں جیتا مرتا محنت کش بھی کہیں نظر آئے گا۔ آپ کو حالیہ سالوں کے ایسے کئی انسانی المیے یاد دلائے جائیں گے جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر وقتی رجحان بن کر دو چار دن آپ کا سکون برباد کر کے آئے گئے ہو گئے۔ یا وہ سانحے جن پر کسی مصلحت کے تحت عوامی سطح پر بات ہی نہیں کی گئی۔یا پھر حکمرانوں اور افسرشاہی کے مانوس رویوں سے مستعار کوئی تاثر۔ان عشروں میں آپ کو ہاسٹلوں، کنٹینوں، دفتروں، درخواستوں، ڈگریوں، نظریوں، آدرشوں، ارمانوں، رشتوں، الجھنوں میں گھرا ہوا نوجوان ملے گا۔ شہروں، محلوں، گلیوں میں رواں دواں سماجی، اقتصادی، فلمی، جذباتی، مکالماتی، نامیاتی زندگی کے لمحوں، دنوں اور راتوں سے بھی بقدر ضرورت کچھ ملے گا۔ جذبوں، جسموں، بستروں، پیغاموں، انباکسوں میں رکھی ہوئی محبتیں اپنی جھلک دکھائیں گی، یا پھر ان سب مناظر سے ابھرا کوئی مرکّب سا احساس کہیں جلوہ گر ہو گا۔ کسی عشرے میں وہ آپ سے وہ باتیں کہے گا جو ہم بلاوجہ، بلاضرورت کہتے سنتے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
دنیائے شعر میں جبکہ گاہے یوں لگتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے کہا اور لکھا جا چکا ہے، اور گاہے یوں کہ کچھ بھی نہیں کہا جا سکا۔ اس عالم میں ہمارے وقت کی ایک نمایاں سرگوشی یہ ہے کہ جدیدیت کے بعد آخر کیا ہو سکتا ہے۔ ادریس بابر ایسے حیران و پریشان مسافروں کی لاری میں آ کر زبانِ حال سے آوازہ لگا رہا ہے:
اخبار کی دس ڈسٹربنگ سرخیوں کا خلاصہ – دس مصرعے!
ڈھابے سے بازار کی جانب شاعر کا رینڈم کلِک – دس مصرعے!
تھر میں مور کا آخری ٹُھمکا – دس مصرعے!
مہربان! دس مصرعے! – قدردان! دس مصرعے!
پوری کتاب کی قیمت ہزار روپے ہے،
نمونہ چیک کرنے کے کوئی پیسے نہیں۔۔۔