Laaltain

دریا مرتا جاتا ہے

5 مئی، 2017
دریا مرتا جاتا ہے
ہانپتے گِرتے جہلم کی البیلی لہروں کے اُس جانب
بستی جو چرخہ کاتتی شور مچاتی رہتی ہے
دن کے سارے پہروں میں
اُس بستی کے آنگن اندر
رات کو پہرہ دار کی سیٹی
سُن کر بستر گرماتے ہیں بچے
وہ بستی اب قصبہ بن کر پھیلتی جاتی ہے
شیطان کی الجھی آنت کے جیسی
جس کے سارے اُلجھاوے سے
سانس رکے ہے
اُس بستی میں
دور دور تک پھیلے باغوں کی مٹی سے
تازہ کنوں مہک سے اپنی
ٹھنڈے جسموں کے ریشوں میں تازہ لہو کا رقص جمائیں
ریشم خوابوں کے جگنو بھی
بہکی سانسوں کو گرمائیں
اُس بستی میں
جیون اپنی چوکھٹ پر سب
رنگ رنگ کے کھیل سجائے
چلتا جائے
اور تمھاری راہ کو تکتی
روگ میں لپٹی
شپھی کے چہرے پر رقصاں
اڑی ترچھی قندیلوں سے پھوٹتی حدت
دیپ سی روشن

بہتے جہلم کے ماضی کی کتھا کہانی
بولتا پانی، کہتا جائے
بوڑھا دریا چلتا جائے
گرتے پڑتے یگ میں تم بھی
شام ڈھلے تک آ جانا کہ اس سے پہلے
چرخہ کاتتے، ریشم بنتے، خواب سجاتے
ہاتھوں میں جب چھید پڑیں تو
بوڑھا دریا کچی مٹی کے پہلو میں
لحظہ لحظہ مرتا جائے

4 Responses

  1. کلاسک نظم ہے جس میں استعاروں کا اندرونی نظام مربوط اور دلسوز کیفیات کا مظہر ہے جونفسیاتی لاشعور کی پیچیدگیوں کے تارو پود سے مل کر بنا ہے سماجی اشارے بہت جاندار اور زبان ثقافتی زرخیزی سے بھرپور ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

4 Responses

  1. کلاسک نظم ہے جس میں استعاروں کا اندرونی نظام مربوط اور دلسوز کیفیات کا مظہر ہے جونفسیاتی لاشعور کی پیچیدگیوں کے تارو پود سے مل کر بنا ہے سماجی اشارے بہت جاندار اور زبان ثقافتی زرخیزی سے بھرپور ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *