معاشی پابندیوں میں گھرا ایران بالآخر امریکہ، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیوں کے بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ایران اورمغربی ممالک کے درمیان طویل اور مشکل مذاکرت کے بعد جوہری پروگرام پر معاہدہ طے پاگیاہے جس کے تحت ایران کو پرامن مقاصد کے لیے جوہری پروگرام جاری رکھنے کا حق مل گیا ہے ۔ کامیاب مذاکرات پر ایرانیوں نے تہران کی سڑکوں پر جشن منایا ہے کیونکہ ایرانیوں کو اب اس بات کا یقین ہے کہ معاہدےکے بعد ایران پر کئی سالوں سے عائد معاشی پابندیاں اب بتدریج ختم ہوجائیں گی جس سے ایرانی معیشت مستحکم ہوگی۔ ایرانیوں کو یقین ہے کہ اچھا وقت آنےوالا ہے۔ اس معاہدے پر بہت سے ممالک خوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس معاہدے کے بعد مشرق وسطی میں لگی آگ پر قابو پایا جاسکے گا اور ایران کی مدد سے خطے میں امن کا راستہ ہموار ہوگا، جبکہ اسرائیل اور اس کے حواری اس معاہدے سے کافی ناخوش دکھائی دیتے ہیں اور وہ اوباما حکومت کے اس معاہدے کو ایک تاریخی غلطی سمجھ رہے ہیں۔
ایران اور مغربی ممالک کے درمیان طویل اور مشکل مذاکرت کے بعد جوہری پروگرام پر معاہدہ طے پاگیاہے جس کے تحت ایران کو پرامن مقاصد کے لیے جوہری پروگرام جاری رکھنے کا حق مل گیا ہے
مستقبل میں اس معاہدے کے کیا مثبت اور کیا منفی اثرات ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر موقع کی مناسبت سے پاکستان نے ضرور فائدہ اٹھایا ہے۔ معاہدے کے اعلان کے دوسرے روز ہی پاکستان کے وفاقی وزیربرائے پٹرولیم و قدرتی وسائل خاقان عباسی نے تعطل کی شکار پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کی خواہش کا ایک بار پھر اظہار کیاہے۔
وفاقی وزیر نے بی بی سی سے ایک انٹرویو کے دوران اپنے ان خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان اس گیس پائپ لائن منصوبے پر یکم اکتوبر سے کام شروع کر دے گا اور معاہدے کے تحت 30 ماہ میں اس پائپ لائن کو مکمل ہونا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ یہ پائپ لائن دو سال میں مکمل ہو جائے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایران بھی اپنے ملک میں اڑھائی سو کلومیٹر پائپ لائن اسی عرصے میں مکمل کر لے گا۔ پٹرولیم کے وفاقی وزیر کے مطابق ایران سے آنے والی یہ گیس ملک میں گیس کی کمی کا نصف فراہم کر سکے گی۔’اس وقت ملک میں 2 ارب مکعب فٹ گیس کی کمی ہے اور اس پائپ لائن کے ذریعے ایک ارب مکعب فٹ گیس لائی جا سکے گی۔ اس دوران گیس کی طلب بھی بڑھ جانے کے باوجود اس پائپ لائن کے ذریعے ملکی ضرورت کا ایک بڑا حصہ ایران سے درآمد کیا جا سکے گا۔
پاکستان کی پاک ایران گیس پائپ لائن کی دیرینہ خواہش اپنی جگہ مگر اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ منصوبہ کامیاب ہوپائے گا یا نہیں ۔ یہ پائپ لائن ایرانی سیستان و بلوچستان سے شروع ہوکر پاکستانی شورش زدہ صوبے بلوچستان سے گزرکر ملک کے دوسرے حصوں تک جائے گی ۔ اس منصوبے کو بلوچ مسلح جدوجہد کا سامنا رہے گا جو پاکستان اور ایران دونوں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے جب ایران گیس پائپ لائن کا آغاز کیا تو اس وقت کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ کے رہنما ڈاکٹر اللہ نظر نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہاتھا کہ بلوچوں کی منشا و مرضی کے بغیر ہم بلوچستان میں ایسے منصوبوں کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
وفاقی وزیر نے بی بی سی سے ایک انٹرویو کے دوران اپنے ان خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان اس گیس پائپ لائن منصوبے پر یکم اکتوبر سے کام شروع کر دے گا اور معاہدے کے تحت 30 ماہ میں اس پائپ لائن کو مکمل ہونا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ یہ پائپ لائن دو سال میں مکمل ہو جائے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایران بھی اپنے ملک میں اڑھائی سو کلومیٹر پائپ لائن اسی عرصے میں مکمل کر لے گا۔ پٹرولیم کے وفاقی وزیر کے مطابق ایران سے آنے والی یہ گیس ملک میں گیس کی کمی کا نصف فراہم کر سکے گی۔’اس وقت ملک میں 2 ارب مکعب فٹ گیس کی کمی ہے اور اس پائپ لائن کے ذریعے ایک ارب مکعب فٹ گیس لائی جا سکے گی۔ اس دوران گیس کی طلب بھی بڑھ جانے کے باوجود اس پائپ لائن کے ذریعے ملکی ضرورت کا ایک بڑا حصہ ایران سے درآمد کیا جا سکے گا۔
پاکستان کی پاک ایران گیس پائپ لائن کی دیرینہ خواہش اپنی جگہ مگر اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ منصوبہ کامیاب ہوپائے گا یا نہیں ۔ یہ پائپ لائن ایرانی سیستان و بلوچستان سے شروع ہوکر پاکستانی شورش زدہ صوبے بلوچستان سے گزرکر ملک کے دوسرے حصوں تک جائے گی ۔ اس منصوبے کو بلوچ مسلح جدوجہد کا سامنا رہے گا جو پاکستان اور ایران دونوں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے جب ایران گیس پائپ لائن کا آغاز کیا تو اس وقت کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ کے رہنما ڈاکٹر اللہ نظر نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہاتھا کہ بلوچوں کی منشا و مرضی کے بغیر ہم بلوچستان میں ایسے منصوبوں کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
سوال یہ ہے کہ بلوچوں کی مرضی و منشاء کے بغیر بلوچ سرزمین سے گزرنے والی گیس پائپ لائن اور اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں سے بلوچستان کو بھی کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں
بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے یہ موقف بے حد اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ بلوچ پاکستانی ریاست کو ایک قابض قوت سمجھنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ پاکستان بننے سے لےکر آج تک بلوچ اپنی ہی سرزمین اور اس کے وسائل کی ملکیت سے محروم ہیں۔ 1952 میں سوئی سے دریافت ہونے والی گیس آج تک بلوچ آبادیوں تک نہیں پہنچ پائی۔ سوئی میں گیس کے 100 کنوئیں ہونے کو باوجود بلوچستان کے لوگ گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ بلوچستان کے معدنی و ارضیاتی وسائل سے پورا پاکستان مستفید ہورہا ہے لیکن بلوچ عوام ابھی تک بنیادی سہولیات حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔
سوال یہ ہے کہ بلوچوں کی مرضی و منشاء کے بغیر بلوچ سرزمین سے گزرنے والی گیس پائپ لائن اور اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں سے بلوچستان کو بھی کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں۔ بلوچ ان منصوبوں کے حوالے سے جن خدشات کا شکار ہیں کیا انہیں دور کیا جائے گا یا نہیں۔ کیا مقامی لوگوں کو سہولیات اور معاشی مواقع ملیں گے یا ہمیشہ کی طرح پنجاب اور دیگر صوبوں کے لوگ ان وسائل پر قابض ہو جائیں گے۔ گواد رکی بندرگاہ، اقتصادی راہداری اور گیس پائپ لائن منصوبوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی مواقع اور ملازمتیں اگر غیر بلوچوں کے قبضے میں چلے گئے تو علیحدگی کی تحریک مزید طاقتور ہوگی۔ ایران سے مقامی سطح پر جاری غیر قانونی تجارت کو باقاعدہ قانونی حیثیت دیتے ہوئے بلوچوں کاموقف سننا بھی ضروری ہے۔ایران پر پابندی ختم ہونے کے بعد ایرانی تیل کی غیرقانونی اسمگلنگ جس سے لاکھوں بلوچوں کے گھروں کا چولہا جلتا ہے کوقانونی حیثیت دیتے وقت بلوچوں کے مفادات کا بھی خیال رکھا جائے تاکہ بلوچ اپنے علاقے کی ترقی اور خوش حالی کے عمل میں مزید پسماندہ نہ ہو جائیں۔
سوال یہ ہے کہ بلوچوں کی مرضی و منشاء کے بغیر بلوچ سرزمین سے گزرنے والی گیس پائپ لائن اور اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں سے بلوچستان کو بھی کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں۔ بلوچ ان منصوبوں کے حوالے سے جن خدشات کا شکار ہیں کیا انہیں دور کیا جائے گا یا نہیں۔ کیا مقامی لوگوں کو سہولیات اور معاشی مواقع ملیں گے یا ہمیشہ کی طرح پنجاب اور دیگر صوبوں کے لوگ ان وسائل پر قابض ہو جائیں گے۔ گواد رکی بندرگاہ، اقتصادی راہداری اور گیس پائپ لائن منصوبوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی مواقع اور ملازمتیں اگر غیر بلوچوں کے قبضے میں چلے گئے تو علیحدگی کی تحریک مزید طاقتور ہوگی۔ ایران سے مقامی سطح پر جاری غیر قانونی تجارت کو باقاعدہ قانونی حیثیت دیتے ہوئے بلوچوں کاموقف سننا بھی ضروری ہے۔ایران پر پابندی ختم ہونے کے بعد ایرانی تیل کی غیرقانونی اسمگلنگ جس سے لاکھوں بلوچوں کے گھروں کا چولہا جلتا ہے کوقانونی حیثیت دیتے وقت بلوچوں کے مفادات کا بھی خیال رکھا جائے تاکہ بلوچ اپنے علاقے کی ترقی اور خوش حالی کے عمل میں مزید پسماندہ نہ ہو جائیں۔