یہ معاملہ محض پنجاب حکومت یا پنجاب پولیس کی نااہلی اور عدم تعاون کا نہیں، یہ معاملہ شہباز شریف، میاں محمود الرشید اور سراج الحق کے بیانات اور گنڈا سنگھ والا نامی گاوں پہنچنے والی اہم شخصیات کا بھی نہیں، یہ معاملہ چند روزہ خبری ابال کا بھی نہیں، یہ معاملہ صرف 234 بچوں کا بھی نہیں بلکہ یہ معاملہ پنجاب، پاکستان، جنوبی ایشیا اور اس پوری دنیا کے بچوں کا ہے جنہیں مختلف اوقات میں، مختلف طرح سے مختلف مقامات پر جنسی تشدد اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس دنیا کے ان تمام بچوں کا معاملہ ہے جو اپنے گھر، سکول یا علاقے میں غیر محفوظ ہیں۔ یہ ہمارے مستقبل کا معاملہ ہے جو جنسی تشدد اور جنسی استحصال کا شکار ہورہا ہے۔
قصور واقعہ کی تفصیلات صرف انتظامی نااہلی یا کسی ایک سیاسی جماعت یا پولیس اہلکار کی ناکامی نہیں بلکہ ایک زیادہ پیچیدہ اور سنگین مسئلے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ جنسی جرائم اور جنسی استحصال کو ایک معمول کا مسئلہ سمجھنا، جنسی جرائم کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ کا اس معاملے کو چھپانا اور ان جرائم کے تدارک اور متاثرین کو انصاف کی فراہمی میں حائل مشکلات صرف قصور واقعے کے لیے مخصوص نہیں۔ جنسی جرائم سے اغماض کا رویہ صدیوں پرانے سماج کی فرسودہ اخلاقیات کا شاخسانہ ہے اور ہر جگہ موجود ہے۔ یہ معاملہ پاکستان میں جنسی جرائم کے معاملے میں روا رکھے جانے والے غیر انسانی رویے کا بھی اظہار ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کا معاملہ اب محض جنسی تسکین کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار چند جنسیت زدہ افراد یا نفسیاتی مریضوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کی جڑیں پاکستان کے ہر خطے میں موجود ہیں۔ اگرچہ یہ اپنی نوعیت کا سامنے آنے والا پہلا بڑا واقعہ ہے جس میں جنسی زیادتی کے ارتکاب کے بعد مالی فوائد حاصل کرنے کی اس بڑے پیمانے پر کوشش کی گئی ہے لیکن بچوں سے جنسی زیادتی اور اس عمل کو حاصل تحفظ نیا نہیں ہے۔ عورتوں اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کو نظر انداز کردینے کی روایت نے بچوں اور عورتوں کے لیے اس معاشرے کو غیر محٖفوظ بنادیا ہے۔
قصور واقعہ کی تفصیلات صرف انتظامی نااہلی یا کسی ایک سیاسی جماعت یا پولیس اہلکار کی ناکامی نہیں بلکہ ایک زیادہ پیچیدہ اور سنگین مسئلے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ جنسی جرائم اور جنسی استحصال کو ایک معمول کا مسئلہ سمجھنا، جنسی جرائم کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ کا اس معاملے کو چھپانا اور ان جرائم کے تدارک اور متاثرین کو انصاف کی فراہمی میں حائل مشکلات صرف قصور واقعے کے لیے مخصوص نہیں۔ جنسی جرائم سے اغماض کا رویہ صدیوں پرانے سماج کی فرسودہ اخلاقیات کا شاخسانہ ہے اور ہر جگہ موجود ہے۔ یہ معاملہ پاکستان میں جنسی جرائم کے معاملے میں روا رکھے جانے والے غیر انسانی رویے کا بھی اظہار ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کا معاملہ اب محض جنسی تسکین کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار چند جنسیت زدہ افراد یا نفسیاتی مریضوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کی جڑیں پاکستان کے ہر خطے میں موجود ہیں۔ اگرچہ یہ اپنی نوعیت کا سامنے آنے والا پہلا بڑا واقعہ ہے جس میں جنسی زیادتی کے ارتکاب کے بعد مالی فوائد حاصل کرنے کی اس بڑے پیمانے پر کوشش کی گئی ہے لیکن بچوں سے جنسی زیادتی اور اس عمل کو حاصل تحفظ نیا نہیں ہے۔ عورتوں اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کو نظر انداز کردینے کی روایت نے بچوں اور عورتوں کے لیے اس معاشرے کو غیر محٖفوظ بنادیا ہے۔
جنسی جرائم کا شکار ہونے والے افراد کو بدنامی، ذلت اور تضحیک کے جس تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے وہ انہیں جرائم کو سامنے لانے اور مجرموں کو سزا دلانے کی بجائے واقعہ چھپانے اور درپردہ صلح کرنے پر مجبور کرتا ہے
قصور واقعے کے دو پہلو بے حد اہم ہیں؛ ایک قانون نافذ کرنے والے اداروں اورحکومت کی جانب سے جانبداری، غفلت اور بے حسی کا مظاہر ہ اور دوسرا متاثرہ بچوں اور ان کے اہل خانہ کا ان جرائم کو مختلف وجوہ کی بناء پر چھپانا ہے۔ پاکستانی معاشرہ ، حکومت، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جنسی جرائم کوروایتی نقطہ نگاہ سے دیکھتے اور حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنسی جرائم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اس معاملے کو دبانے اور متاثرہ فرد اور مجرم کے اہل خانہ کے درمیان صلح کی کوشش نظام انصاف میں ہر سطح پر کی جاتی ہے جو بذات خود ایک سنگین مسئلہ ہے۔ تھانے سے لے کر عدالت تک ہر جگہ جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والون کے پاس خود کو بچانے کے بے شمار راستے ہیں۔ جنسی جرائم کا شکار ہونے والے افراد کو بدنامی، ذلت اور تضحیک کے جس تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے وہ انہیں جرائم کو سامنے لانے اور مجرموں کو سزا دلانے کی بجائے واقعہ چھپانے اور درپردہ صلح کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
جس سنگدلانہ انداز میں ٹی وی چینلز پر ان بچوں اور ان کے اہل خانہ کو اس واقعے کے حوالے سے اپنے تاثرات اور احساسات کے اظہار پر مجبور کیا گیا ہے وہ تکلیف دہ حد تک غیرذمہ دارانہ رویہ ہے
ایسے واقعات کی رپورٹنگ کے دوران اردو صحافت کا رویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے۔ قصور واقعے کی رپورٹنگ کے دوران انگریزی اخبارات کے سوا کسی چینل یااخبار کے رپورٹر خواتین و حضرات میں اس حوالے سے حساسیت یا انسانیت کی رمق دکھائی نہیں دی۔ ذرائع ابلاغ پر اس واقعے کی رپورٹنگ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے ہاں جنسی جرائم پر بات کرنے اور ان کے خلاف لوگوں میں حساسیت پیدا کرنے کے لیے درکار شعور موجود نہیں۔ جس سنگدلانہ انداز میں ٹی وی چینلز پر ان بچوں اور ان کے اہل خانہ کو اس واقعے کے حوالے سے اپنے تاثرات اور احساسات کے اظہار پر مجبور کیا گیا ہے وہ تکلیف دہ حد تک غیرذمہ دارانہ رویہ ہے۔ اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ چند روز میں ہی یہ واقعے ٹی وی چینلز کے نیوز بلیٹن اور ٹاک شوز کے منظرنامےسے اتر جائے گا اور اسے بھلا کر کسی اور مسئلے کو اٹھا لیا جائے گا۔ اس حوالےسے دی نیشن کا کردار تمام دیگر اخبارات اور ٹی وی چینلز کی نسبت بہتر تھا۔ اس معاملے کو بہت سے چینلوں اور سیاسی جماعتوں نے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی تاہم کسی جماعت نے تاحال جنسی جرائم کے تدارک اور بچوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی کوشش شروع نہیں کی۔ کسی سیاسی جماعت نے ان معاشرتی اقدار اور فرسودہ نظریات کے خلاف شعور اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی جو جنسی جرائم کے ارتکاب اور انہیں چھپانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارا مستقبل جنسی استحصال کا شکار ہونے کا شدیداندیشہ ہے۔