Laaltain

جناب عتیق شبلی صاحب) ایک غیر معروف خاکہ)

12 نومبر، 2015
ہم اگرچہ بزعم خویش ابھی تک بقائمی عہدِ شباب ہی ہیں لیکن یہ بھی بجا ہے کہ بہت حوالوں سے ہم ایک عہدِ رفتہ کے شاہدین کی آخری نسل میں سے ہیں مثلاً چرخہ کاتنے اور پتھر کی چکی پیسنے والی آخری دیہاتنوں کے سپُوت ہیں، خط و کتابت کرنے والی آخری نسل، وہ آخری آخری دیہاتی بچےجو مٹی کے کھلونوں سے کھیلے اور جن کے ختنے گاوں کے میراثیوں کی ماہرانہ قطع و برید کا آخری مظاہرہ تھے۔ تو اسی طرح ہم پرانی روشنی کے استادوں کے زیرِ سایہ تعلیم حاصل کرنے والے بھی شاید آخری طالب علموں میں سے ہیں۔ یہاں پرانی روشنی کے اساتذہ سے مراد وہ “ماشٹر جی” ہیں جو سُہراب (یا فینکس) کی سائیکلوں پر مدرسے آیا کرتے تھے اور ان کے قریب تعلیم و تعلم کے عمل کی معراج یہ تھی کہ تمام طلبا و طالبات دست بستہ ہو کر اساتذہ کی خدمت بجا لائیں اور اس کے عوض اتنی ہی فرمانبرداری سے اساتذہ سے “پاپوش” کا پرساد بھی کھائیں۔
ہم ایک عہدِ رفتہ کے شاہدین کی آخری نسل میں سے ہیں مثلاً چرخہ کاتنے اور پتھر کی چکی پیسنے والی آخری دیہاتنوں کے سپُوت ہیں، خط و کتابت کرنے والی آخری نسل، وہ آخری آخری دیہاتی بچےجو مٹی کے کھلونوں سے کھیلے اور جن کے ختنے گاوں کے میراثیوں کی ماہرانہ قطع و برید کا آخری مظاہرہ تھے۔

 

مرحوم عتیق شبلی ہمارے ایسے ہی قابل احترام استاذِ مکرّم تھے جن سے ہم نے کیا فیض پایا، یہ تو کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ہم ہی شاید بے فیض تھے لیکن ہم نے ان کی نیاز مندی میں بڑا یادگار وقت گزارا۔ آپ کے ابتدائی حالاتِ زندگی پر ہنوز “اکیڈمک” سطح کی تحقیق نہیں ہوئی البتہ پیشہ ورانہ سوانح عمری یہ ہے کہ لگ بھگ نصف صدی قبل میٹرک پاس کر کے فارسی کے استاد مقرر ہوئے۔ جب تک سرکاری مدارس میں فارسی پڑھائی جاتی رہی تب تک فارسی سے نباہ کیا، بعدازاں اردو کے استاد مقرر ہو گئے۔ میانہ قد، توند ذرا سی آگے نکلی ہوئی، باقی جسم نہایت متناسب، سعدی و حافظ کی غزلوں سے نکلے ہوئے فقیہہ لگتے تھے۔ سر پر ایک پراسرار سا عمامہ باندھے رکھتے تھے جسے کبھی سر سے اترا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ لمبی سفید داڑھی جو بہت گھنی نہ تھی اور اس پر پتلی مونچھ کسی خاص اہتمام کے بغیر سجائی گئی تھی۔ چہرے پر ہمہ وقت وہ مسکراہٹ پھیلی رہتی تھی جسے فارسی میں “سرِدندان سفید کردن” کہتے ہیں لیکن دندان شکن بڑھاپے میں وہ مسکراہٹ جاتی رہی۔ آپ کی بلند و باریک آواز ایک گم نام سی مسجد کے ایک غیر معروف سے امام سے ملتی جلتی تھی۔ آپ خود بھی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے علاوہ ایک گم نام سی مسجد کے غیر معروف سے امام تھے۔ فارسی اور اردو کو عربی الحان میں پڑھتے تھے۔
فارسی میں آپ کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ جب اردو کے ادق الفاط کا مطلب پوچھا جاتا تو آپ سب سے پہلے اسے فارسی لفظ قرار دیتے۔ اور پھر اس کا کوئی بھی موزوں مطلب بتا دیتے اور اس پر کبھی کسی طرح کا ملال انہیں نہ ہوا۔ یہ اُنہی اساتذہ کا کمال تھا کہ اپنی حقیقی علمی استعداد کا اندازہ کسی کو نہ ہونے دیتے تھے۔

 

خوش مزاج انسان تھے، قہقہہ لگاتے تو محفل کِشتِ زعفران کر دیتے۔ دروغ بر گردنِ خلق آپ ایرانی ذوق بھی رکھتے تھے جس کی وجہ فارسی ادب یا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ اس حوالےسے چند دلچسپ حکایات بھی زبانِ زدِ خاص و عام تھیں لیکن ان کے مَرے پیچھے خدا جھوٹ نہ بلوائے، ہمیں ایسے شواہد کبھی میسر نہیں آئے۔ عتیق آپ کا قلمی نام تھا اور عوام الناس میں شبلی اس لیے کہلائےکہ آپ کو شبلی کہلانے سے سخت چڑ تھی۔ اس کی وجہ کے باب میں ایک واقعہ مشہور تھا جو نہایت غیر دلچسپ ہے۔

 

میں اور میرا چھوٹا بھائی اسد اکثر سکول سے چھٹی کے بعد ان کے چرنوں میں بیٹھ جایا کرتے تھے اور ان کے ملفوظات سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ اردو کے حوالے آپ کا مطالعہ اتنا ہی وسیع تھا جتنا کہ فارسی میں ہوگا۔ فارسی میں آپ کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ جب اردو کے ادق الفاط کا مطلب پوچھا جاتا تو آپ سب سے پہلے اسے فارسی لفظ قرار دیتے۔ اور پھر اس کا کوئی بھی موزوں مطلب بتا دیتے اور اس پر کبھی کسی طرح کا ملال انہیں نہ ہوا۔ یہ اُنہی اساتذہ کا کمال تھا کہ اپنی حقیقی علمی استعداد کا اندازہ کسی کو نہ ہونے دیتے تھے۔
گاوں اور نواح کے لگ بھگ ہر لڑکے کو اُس کی والدہ کے نام کے حوالے سے جانتے تھے، مثلاً ایک نووارد طالب علم سے مکالمہ کچھ یوں پیش آیا:
“نوجوان کیا نام ہے تمہارا؟”
“استاد جی میرا نام شبیر حسین ہے۔”
” کس قبیلے سے ہو؟”
“جناب مولچند کے آرائیوں میں سے ہوں۔”
“اوہو، اچھا اچھا۔۔راستی بی بی کے بیٹے ہو ناں؟؟”
لیکن مجھ سے میرے قبیلے کا جان کر آپ نے خصوصی رعایت کی۔ پہلے روز جب مجھ سے پوچھا،”کون ہو خوب صورت لڑکے؟؟” عرض کی،”جناب سید ہوں، چک نمر سات، تھل شمالی سے۔۔۔” تو مجھے غور سے دیکھ کر فرمانے لگے،”اچھا، بہت خوب، تمہارا باپ بھی اسی اسکول کا پڑھا ہوا ہے، ہم سب اسے ‘بمب ‘ شاہ کہتے تھے” اور پوری جماعت میں تالی پِٹ گئی۔ چند روز میری خوب چِڑ بنی رہی۔
مشہور تھا کہ آپ کے سرِاقدس کی ہئیت ایسی مضحکہ خیز گولائی میں ہے جسے دیکھ کر کوئی سنجیدہ اور معقول شخص بھی اپنی ہنسی نہیں روک سکتا تھا نیز اسی وجہ سے آپ نے کبھی عمامہ سر سے نہیں اتارا تھا، اللہ ستارالعیوب ہے، ہم نے کبھی دیکھا نہ تھا۔

 

اخلاقیات کا خوب سبق دیتے تھے۔ ایک دفعہ سمجھانے لگے کہ مہذب اور غیر مہذب لوگوں کے طرز کلام میں کیا فرق ہوتا ہے، “اگر میں اسد سے کہوں کہ بیٹا ذرا ہیڈ ماسٹر کے دفتر جائیے ، آپ کے والد صاحب آئے ہیں۔۔ تو یہ مہذب طریقہ ہو گا اور اگر میں پرویز بلوچ سے کہوں کہ دفع ہوجاو ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں تمہاری ماں کا خصم آیا بیٹھا ہے تو یہ۔۔۔”آپ کی بات مکمل بھی نہ ہو پائی تھی کہ پرویز بلوچ نے آخری ڈیسک سے اردو کی کتاب کسی بوم رِنگ کی مانند ایسے دے ماری کہ آپ کا عمامہ سر سے گرتے گرتے بچا۔ اسی طرح ایک روز جمعہ خان بار بار انہیں ستانے کی غرض سے کسی خود ساختہ لفظ کا مطلب پوچھے جارہا تھا جب کہ استاذِ مرحوم ہمیں اقبال کے مردِ مومن کی خصوصیات سمجھانے کے درپے تھے۔ آپ نے کئی دفعہ ٹالنے کی کوشش کی، ایک دفعہ ڈانٹ کر خاموش بھی کروایا کہ یہ لفظ یقیناً درست نہیں ہے لیکن جمعہ خان کی ضد کہ ڈھاک کے وہی تین پات! “استاد جی، یہ ریشمالی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟” استاذِ مکرم زچ ہو کر مڑے،”یہ ایسے دیوث شخص کو کہتے ہیں جو گھر کی مستورات کی کمائی پر پل رہا ہو!” پھر تو جمعہ خان کے چہرے کے رنگوں کا تغیر دیدنی تھا۔ وہ شدید غصے کے عالم میں پیچھے مڑا اور نتھنے پھڑپھڑانے لگا۔ اس نے اور تو کچھ نہ کیا، ان کی نورانی داڑھی کی طرف اشارہ کر کے بولا،”مولوی جی میں تمہاری اس سفید جھالر کا حیاء کر گیا ہوں ورنہ بہت برا پیش آتا!” استاذ مرحوم اپنی غیر محتاط “حسن ظرافت” کی بناء پر ہمیشہ طلبہ میں غیر مقبول رہے۔

 

ایک دفعہ برصغیر کی علمی و مذہبی تحاریک کا ذکر چلا تو آپ سے پوچھا گیا کہ حضور یہ “دیوبند” کس مکتبہ فکر کو کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا،”یہ دراصل فارسی کے الفاظ کا مرکب ہے۔ ‘دیو’ کا مطلب ہے شیطان اور ‘بند’ سے مراد ہے بندھا ہوا، سو دیوبند سے مرادہے بندھا ہوا شیطان۔۔۔”آپ کا یہ فرمانا تھاکہ جماعت کے جو طلباء دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، سیخ پاء ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں بات علاقے کے دیوبندی اکابرین تک تک جا پہنچی، شام سے پہلے ضلعی حکومت کے سرشتہ تعلیم کی خصوصی ہدایت پر آپ کا تبادلہ دوسرے ضلع میں کر دیا گیا۔ یہ سخت سزا تھی کیوں کہ آپ نے تمام عرصہ ملازمت اسی ایک اسکول میں گزارا تھا، دوسرے ضلعے کی ثقافت سے آشنا نہ تھے۔ آپ نے اپنے پیرِطریقت سے رابطہ کیا جو ملک بھر میں ایک جلیل القدر ہستی تصور کیے جاتے تھے اور عمائدِ حکومت بھی ان کا حکم نہ ٹالتے تھے۔ اگلی صبح وزارت تعلیم سے ٹیلی فون آیا اور اردو کے گھنٹے تک آپ دوبارہ اسکول میں موجود تھے۔ “ہاں تو بچو، کل ہم پڑھ رہے تھے ، دیو بند کا مطلب، یعنی بندھا ہوا شیطان” آپ نے اپنا سبق دوبارہ شروع کیا۔ آپ نے کبھی سبق “قضا” نہیں کیا۔

 

شعر کہنے کا ذوق بھی رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ہم چھٹی کے بعد شیشم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے تھے، استاذ مرحوم کرسی پر بیٹھے تھے اور ہم دونوں بھائی، یعنی میں اور اسد ان کے سامنے یسارویمین، گھاس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے تھے۔ آپ نے اپنا ایک شعر سنایا۔ ہمیں معلوم ہی نہ ہو سکاکہ یہ کوئی شعر تھا، کجا یہ کہ ہم اسے ایک اچھے شعر کے طور پر پہچان پاتے۔ دونوں کے کانوں پر ایک ایک چپت رسید کی “حَرَمڑی)حرامن کا سرائیکی ترجمہ جو آپ نے خود اختراع فرمایا تھا( تم لوگوں نے داد کیوں نہیں دی!!!” اور ساتھ ہی مرغا بن جانے کا حکم دیا۔ ہم دونوں کافی دیر تک مرغا بنے “خوش گفتی، دُرسُفتی” (خوب کہا، گویا موتی نکال لائے) کہتے رہے۔

 

مشہور تھا کہ آپ کے سرِاقدس کی ہئیت ایسی مضحکہ خیز گولائی میں ہے جسے دیکھ کر کوئی سنجیدہ اور معقول شخص بھی اپنی ہنسی نہیں روک سکتا تھا نیز اسی وجہ سے آپ نے کبھی عمامہ سر سے نہیں اتارا تھا، اللہ ستارالعیوب ہے، ہم نے کبھی دیکھا نہ تھا۔ امتحانات کے دنوں میں جب اسکول میں شبانہ کیمپ لگتا تھا، اور ہم رات کو اسکول میں ہی رہا کرتے تھے تو ایک رات کلاس کے چند شریر طلباء نے استاذ مرحوم پر سوتے ہوئے سربرہنہ حالت میں چھاپہ مار کارروائی کا فیصلہ کیا۔ ہم نے رات گئے پرانی عمارت کے بڑے ہال میں اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چپکے سے داخل ہوئے، ایک ہی “اشارے” پر امتیاز نے بلب روشن کیا اور اقبال نے استاذ جی کے اوپر سے رضائی کھینچ ڈالی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ استاذ مکرم چارپائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں ، لُنگی باندھ رکھی ہے، قمیص غائب ہے اور سر پر عمامہ اپنی جگہ قائم ہے۔ آنکھوں سے غیض و غضب کے شعلے برس رہے ہیں!! اگلے روز سب کی خوب درگت بنی۔ ہمارا نام ہماری سابقہ نیازمندیوں کی وجہ سے فہرستِ مجرمان سے قلمزد کر دیا گیا تھا، کیوں کہ گاوں کے لوگ تک شاہد تھے کہ اگر ہمیں سرِراہ چلتے ہوئے بھی مرغا بننے کا حکم ہوا تو ہم نے کبھی تامل نہیں کیا۔ اگر حکم ہواکہ ہم نیا مکان تعمیر کروا رہے ہیں، آو ذرا کام میں راج مستری کا ہاتھ بٹاو، عرض کی “جو حکم”۔ اگرچہ اس ضمن میں ہم سے زیادہ خدمات انجام دینے والے طلباء بھی تھے لیکن ہم سے کمال شفقت کا برتاو رہا۔

 

ایک دفعہ کسی نے ان کے بارے میں اڑا دی کہ انہوں نے تشیع کو عین کفر قرار دے دیا ہےجو کہ ہم ان کے شاگرد ہونے کے ناتے جانتے تھے کہ سراسر افتراء تھی۔ بات پھیلی تو گاوں کے ایک شیعہ میراثی نے، جو ان کا سابق شاگرد بھی تھا’ کسی بھری محفل میں ان کے لیے “موذی” کا ضمیر استعمال کر ڈالا۔ بات استاذ محترم تک پہنچی بہت دل گرفتہ ہوئے۔ اگلے روز اسکول سے چھٹی کے بعد ہم حسب معمول شیشم کے پیڑ کے نیچے آپ کے چرنوں میں بیٹھے تھے کہ حکم ہوا “سفید کاغذ اور قلم نکالو” تعمیلِ حکم ہوئی۔ فرمایا ‘شعر لکھو” عرض کی “فرمائیے قبلہ استادِ معظم” آپ نے سعدی شیرازی کا ایک شعر لکھوایا:
“سعدیا! شیرازیا! سبقی مدہ کم ذات را
کم ذات چوں لائق شود، موذی بگو استاد را”

 

پھر مطلب سمجھایا کہ اے سعدی! کم ذات کو سبق نہ پڑھا کیونکہ جب وہ لائق ہو گا تو استاد وک موذی کہے گا۔ ہم نے بھی یہ بھی لکھ لیا۔ اب کلام سعدی جاننے والوں کو اس بات پر اختلاف ہے کہ اصل شعر کے “گردن زند استاد را” کے بجائے انہوں نے جو”موذی بگو استاد را” کا شوشہ فٹ کیا ہے، یہ ادبی بددماغی کے سوا کچھ نہیں لیکن ہمارا حسن ظن کہتا ہے کہ یہ آپ کی صناعیِ ادب کا کمال تھا! کالج کی تعلیم کے لیے ہمیں شہر جانا پڑا تو جب گاوں آنا ہوتا، ہم اسکول میں باالتزام حاضری دیتے رہے اور استاذِ مکرم سے دعا لیتے رہے۔ پھر جب میں سپاہی ہو گیا، اسد اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلا گیا تو یہ اتفاقیہ ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ بے تار کے فونوں کا زمانہ تو تھا نہیں، پلٹن سے ایک دفعہ انہیں خط بھی لکھا لیکن کبھی جواب نہ آیا۔

 

انہی سالوں میں استاد محترم کو گردے کا عارضہ لاحق ہو گیا لیکن ایک عرصے تک علاج کے لیے شہر جانے سے گریزاں رہے۔ جب بالکل ہی صاحب فراش ہوئے تو اقارب انہیں لاہور اٹھا لے گئے اور ایک بڑے ہسپتال میں ان کا علاج شروع کروا دیا، مجھے خبر ہوئی لیکن عیادت کے لیے نہ جا سکا البتہ اسد جو بصورتِ دیگر ازحد بے مروت انسان ہے، استاذ مکرم کے صاحب فراش ہونے کی خبر سن کر بھاگم بھاگ ان کے پاس پہنچا اور دمِ آخر ان کی بالیں پہ موجود تھا۔ خبر ملی کہ جناب عتیق شبلی، ہمارے اردوکے استاد وفات پا گئے، حق مغفرت کرے، سچ مچ ایک آزاد مرد تھا۔ ان کے جانے کا صدمہ اس لیے بھی ہوا کہ پرانے رواجوں کے آخری استادوں میں سے تھے،
اب کہاں لوگ اس طبعیت کے!

 

اب اگرچہ اساتذہ پہلے سے کہیں زیادہ باقاعدگی اور عرق ریزی سے پڑھانے والے ہوا کرتے ہیں، خود بھی استاد ہوں، جانتا ہوں کہ نوجوان پود کے اساتذہ کئی حوالوں سے متقدمین سے بہتر اپنے مضامین میں نتائج دیا کرتے ہیں اور متقدمین سے زیادہ تعلیمی قابلیت کے حامل بھی ہوتے ہیں،
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی!
وہ پرانے لوگ تو خوب مزاج شناس ہوا کرتے تھے۔ جنابِ عتیق نے مجھے ایک لقب دے رکھا تھا “بے موسم کا شلجم” جسے میں فقط آپ کی بددماغی پر محمول کرتا تھا لیکن اب جب اپنی زندگی پر غور کرتا ہوں تو اس زندگی سے یہی شکوہ رہا ہے کہ میں جہاں بھی رہا ہوں، جس مقام پر بھی پہنچا ہوں، حتیٰ کہ جس صدی میں پیدا ہوا ہوں ازحد غلط زمان و مکان میں واقع ہوا ہوں!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *