Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

جبلتیں اور اخلاقی ضابطے

test-ghori

test-ghori

01 اپریل, 2016

[blockquote style=”3″]

یہ تحریر سماجی دانشور سعید ابراہیم کی آنے والی کتاب ‘سیکس اور سماج’ سے لیے گئے ایک اقتباس پر مبنی ہے۔

[/blockquote]

ہم نے انسانی جبلتوں کے اظہار کو دبانے کے لیے جہاں جہاں بے دلیل اخلاقی ضابطوں کے بھاری ڈھکن رکھے، وہاں وہاں تخریب اور بدکرداری کے گٹر اُبل پڑے۔
جبلتیں وہ جِنّ ہیں جن کی سیرابی اور آسودگی معاشرے کو امن، آسودگی اور خوشی کا گہوارہ بنا سکتی ہے مگر محدود سوچ کے حامل افراد اس جِنّ کی طاقت سے خوف زدہ ہو کر ایسے اخلاقی ظابطے اختراع کرنے میں لگے رہے جن سے اس جِنّ کو بوتل میں بند کیا جا سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ ایسا کرنے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ المیہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس جِنّ سے تعمیری کام لینے کی بجائے اسے تخریبی بنا دیا۔ غور کریں تو ہمارا حالیہ سماج اس کی واضح مثال ہے۔ ہم نے انسانی جبلتوں کے اظہار کو دبانے کے لیے جہاں جہاں بے دلیل اخلاقی ضابطوں کے بھاری ڈھکن رکھے، وہاں وہاں تخریب اور بدکرداری کے گٹر اُبل پڑے۔ جب یہ ضابطے ناکارہ ثابت ہوئے تو اس ناکامی کا تجزیہ کرنے کی بجائے یہ بیان تواتر سے دہرایا جانے لگا کہ جناب یہ سب مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اگر کوئی پوچھ لے کہ محترم مذہب سے دوری کی کیا وجوہات ہیں تو ٹھک سے گھڑا گھڑایا جواب حاضر کہ یہ سب یہود وہنود اور نصاریٰ کی سازش ہے۔ اس سازش کی تشریح مانگو تو بتایا جاتا ہے کہ وہ ہم پر اپنا کلچر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ ہماری مشرقی اقدار کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے ہاں کوئی ایسی اسلامی نظریاتی کونسل نہیں جہاں ریاست سے تنخواہیں اور مراعات لینے والے نام نہاد علماء ریاست کو اپنی من مانی مذہبی تشریح سے عورتوں کے حق میں بنائے جانے والے قوانین کو رد کرنے پر مجبور کرتے ہوں۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ جو اقوام ہمیں اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی ہیں کیا ان کے معاشرے قانون اور اخلاقی اقدار سے خالی ہیں؟ کیا ان کا نظامِ معاشرت انسان کش ہے؟ کیا ان کے ہاں جنگل کا قانون رائج ہے؟ کیا وہاں انصاف کی بولی لگتی ہے؟ کیا وہاں لوگ سال ہا سال کورٹ کچہریوں میں دھکے کھاتے ہیں؟ کیا وہاں لوگ تعلیم اور علاج سے محروم رہتے ہیں؟ کیا وہاں ہوٹلوں اور ورکشاپوں پر ’چھوٹے‘ پائے جاتے ہیں جنہیں خود ان کے ہی مالکان اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بھی بناتے ہیں؟ کیا وہاں ایسے جنسی درندوں کی بہتات ہے جو تین تین برس کے بچوں اور بچیوں کو اپنی ہوس کا شکار بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیتے ہوں؟ کیا وہاں معصوم گھریلو ملازم بچیوں کو گرم استریوں سے داغا جاتا ہے؟ کیا وہاں عورتیں گھر سے نکلتے ہوئے خوف کھاتی ہیں؟ کیا وہاں شادی کے لئے مذہب، فرقہ، ذات برادری اور رنگ نسل کی کوئی شرط عائد کی جاتی ہے؟ کیا وہاں اولاد کو ان کی مرضی کے بغیر زبردستی بیاہنے کا رواج ہے؟ کیا وہاں لڑکیاں جہیز بناتے بناتے بوڑھی ہو جاتی ہیں؟ کیا وہاں بیٹا پیدا ہونے کی امید میں سات سات بیٹیاں پیدا کی جاتی ہیں؟ کیا وہاں بیٹا پیدا نہ کرنے کے ’جرم‘ میں عورت کو طلاق دے دی جاتی ہے؟ کیا وہاں طلاق یافتہ بیوی کے ساتھ دوبارہ نکاح کے لیے اسے کسی اور مرد کے ساتھ حلالہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے؟ کیا وہاں مرضی کی شادی کرنے پر جوڑے کو قتل کردیا جاتا ہے؟ کیا وہاں عام گلی محلوں میں رہ کر جسم بیچنے کا دھندہ کرنا ممکن ہے؟ کیا وہاں سرکاری دفاتر میں کام چوری کا امکان ہے؟ کیا وہاں کی پولیس پرامن شہریوں کے لیے خوف کی علامت ہے؟ کیا وہاں بچوں کی ویکسی نیشن اور پولیو کے قطرے پلانے والوں کو گولی مار دی جاتی ہے؟ کیا وہاں ہسپتالوں سے نومولود بچوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے؟ کیا وہاں قدرتی آفات میں پھنسی عورتوں کے کانوں سے زیور نوچ لیے جاتے ہیں؟ سونے کی چوڑیوں کے حصول کے لیے بازو کاٹ لیے جاتے ہیں؟ کیا آفت زدہ علاقوں سے بچوں اور لڑکیوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے؟ کیا وہاں لڑکیوں کے سکولوں کو جلا دیا جاتا ہے؟ نہیں وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کہیں کچھ ہوتا بھی ہے تو قانون فوراً حرکت میں آ جاتا ہے۔

یہ ہماری ناکامی اور بدقسمتی ہے کہ ان معاشروں پر کوئی بھی ایسا گھناؤنا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے عقل اور تجربے کو اپنا رہنما مان لیا ہے۔ وہ اپنے عوام کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ہمہ وقت اپنے قوانین میں مثبت تبدیلیوں کے لیے تیار رہتے ہیں۔ان کے ہاں کوئی ایسے مذہبی گروہ نہیں پائے جاتے جو بلیک میلنگ کے ذریعے حکومت کو قانون سازی سے روک سکیں۔ ان کے ہاں کوئی ایسی اسلامی نظریاتی کونسل نہیں جہاں ریاست سے تنخواہیں اور مراعات لینے والے نام نہاد علماء ریاست کو اپنی من مانی مذہبی تشریح سے عورتوں کے حق میں بنائے جانے والے قوانین کو رد کرنے پر مجبور کرتے ہوں۔ انہوں نے علم، عقل اور تجربے سے سیکھتے ہوئے اپنے معاشروں کو ہمارے مقابلے میں کم و بیش جنت بنالیا ہے۔ انہوں نے فرد کو اس شرط پر آزادی دے دی ہے کہ اس کی آزادی کسی دوسرے فرد کی آزادی کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔