Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

آشیانہ میرا خواب نمانہ

test-ghori

test-ghori

14 ستمبر, 2015
کبھی یہ اتفاق آپ کے ساتھ بھی ہوا ہے کہ امتحان سر پر ہوں اور آپ کو رول نمبر سلپ نہ ملی ہو اور ملے بھی تو امتحان ہو چکنے کے بعد؟ ملازمت کی درخواست دی ہو اور انٹرویو لیٹر تاریخ نکل جانے کے بعدآپ کا منہ چڑانے آ پہنچے؟
بچپن سے آج تک میں نے ہر پریشانی کو کسی نہ کسی طرح حل کیا ہے لیکن ایک سیدھی سی بات میرے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔بڑی سوچ بچار کے باوجود میں کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں۔اسے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں شائد آپ ہی کسی نتیجے پر پہنچنے میں میری مدد کر سکیں۔ کیاکبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ آپ کو اپنی ڈاک نہ ملی ہواور اگر ملی بھی ہو تو اتنی تاخیر سے کہ وہ آپ کے لیے کارآمد نہ رہے؟ کبھی یہ اتفاق آپ کے ساتھ بھی ہوا ہے کہ امتحان سر پر ہوں اور آپ کو رول نمبر سلپ نہ ملی ہو اور ملے بھی تو امتحان ہو چکنے کے بعد؟ ملازمت کی درخواست دی ہو اور انٹرویو لیٹر تاریخ نکل جانے کے بعدآپ کا منہ چڑانے آ پہنچے؟قومی شناختی کارڈ ہونے کے باوجوداپنی شناخت کرانے میں ناکام رہے ہوں؟ آپ کے ساتھ یقیناً ایسا نہیں ہوا ہو گا لیکن میرے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔
میں ایک کرایہ دار ہوں۔ابا جان بتاتے ہیں کہ ان کے دادا جان بتاتے تھے کہ ان کے بڑے بھی کرایے کے مکان میں رہا کرتے تھے۔ مطلب ہم جدی پشتی کرایہ دار ہیں۔ میں پیدا گوجرانوالا میں ہوا، بارہ سال ملتان میں گزارے،ایک چکر کوئٹہ کا بھی لگا چکا ہوں اور گزشتہ آٹھ سالوں سے لاہور میں مقیم ہوں۔ دنیا میں آنکھ کھولنے سے لےکر اب تک میں نے اپنی عمر سے دوگنے مکان بدلے۔ وجہ۔۔۔ نصیب ۔ مالک مکان غریب کو کرایہ وقت پرنہ ملتا تھااور میرے ابا کو مزدوری۔ خاندانی بے روزگاری کا یہی سلسلہ میرے جوان ہونے کے بعدبھی قائم ہے۔ ہماری غربت ہمارے اپنے لیے تو پریشانی کا باعث ہے ہی ہمارے مکان مالک بھی اس کے اثرات کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکے۔نتیجتاً مختصر قیام کے بعد ہمیں ہر مکان کو خیرباد کہنا پڑا۔
پہلی بارشناختی کارڈ بنوانے گیا تو کافی دیر سوچتا رہا کہ فارم میں مستقل پتے کے خانے میں کیا لکھوں۔ ساتھ بیٹھے ایک بھائی سے مشورہ کر کے بالآخر دونوں جگہ موجودہ مکان کا پتہ لکھ دیا لیکن شناختی کارڈ بن کر آیا بھی نہیں تھا کہ مکان چھوڑنا پڑا۔
مجھے کوئی روزگار دے بھی تو کیسے؟ میری سی۔وی کسی بھی آجر کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہے ۔ نوکری دینے والا بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ جس کے ریکارڈ میں تسلسل نہیں اس کی طبیعیت و مزاج شریف کیسے ہوں گے۔ خاکسارکاایک سرٹیفیکٹ ملتان سے ہے تو دوسرالاہور سے ۔ ایک ڈگری یہاں سے تو دوسری وہاں سے۔ ڈومیسائل پر پتہ اور ہے، شناختی کارڈ پر اور۔۔۔اور ڈرائیونگ لائسنس پر اور۔۔قومی شناختی کارڈ پر نہ صرف عارضی و مستقل پتے ایک دوسرے سے متصادم ہیں بلکہ خط و کتابت کا پتہ بھی دونوں پتوں سے مختلف ہے یعنی بندہ ایک پتے ہزار۔ ایک کرایہ دار سے پوچھیئے اپنا گھر نہ ہو تو غریب کرایہ دار کے اتنے پتے نہ ہوں تو اور کیا ہو۔ لیکن میرے اتنے سارے پتوں سے اگر کوئی کنفیوژ ہوجائے تواس میں مجھ گناہگار کا کیا دوش۔
بے چارے کرایہ دار کا کیا مستقل پتہ۔ کرایہ دار سے عارضی اور مستقل پتے کا سوال کرنا ہی سراسر زیادتی ہے۔ پہلی بارشناختی کارڈ بنوانے گیا تو کافی دیر سوچتا رہا کہ فارم میں مستقل پتے کے خانے میں کیا لکھوں۔ ساتھ بیٹھے ایک بھائی سے مشورہ کر کے بالآخر دونوں جگہ موجودہ مکان کا پتہ لکھ دیا لیکن شناختی کارڈ بن کر آیا بھی نہیں تھا کہ مکان چھوڑنا پڑا۔ میں پھر لا پتہ ۔ گزارا ہوتا رہتا اگر ایک دن ناکے پر پولیس نے شناخت کرانے کو نہ کہا ہوتا ۔پوچھا “کہاں جا رہے ہو”؟
بتایا” گھر”
پوچھا” کہاں ہے؟”
بتایا” فلاں جگہ”
کہا” شناختی کارڈ دکھاؤ”
دکھایا تو پھنس گیا۔ کانسٹیبل اپنے افسر سے بولا،”سر مشکوک آدمی ہے ۔ رہتا کہیں ہے شناختی کارڈ پر پتہ کہیں کا ہے”۔ رات تھانے میں سوانح عمری سنانے میں گزری۔ کرایہ دار ہونے کا حوالہ دیا تب کہیں خلاصی ہوئی اور وہ بھی اس شرط پر کہ چھوٹتے ہی پتے میں ترمیم کراؤں گا۔ چھوٹتے ہی نادرادفتر ترمیم کرانے اج پہنچا۔ جتنے عرصے میں ترمیم شدہ کارڈ گھر آیا تب تک مکان پھر تبدیل ہو چکا تھا۔سائنس اور میں پھر پریشان۔ عمر بیت چلی انہی رولوں میں پریہ رولے ختم نہیں ہوئے پر میںاب مکان تبدیل کرنے میں کافی ماہرہو گیا ہوں۔
ایک دوست نے گھر کا پتہ پوچھا۔ اسے بتایا تو دوسرے نے احتجاج کیا کہ تو نے مجھے تو اور پتہ بتایا تھااسے اور بتا رہا ہے ۔جھوٹا۔ بعد میں واضح ہوا کہ اس گھر کو چھوڑے تو تین گھر ہو گئے۔
کبھی دوستوں سے ملاقات ہو جائے اور مل بیٹھنے کا موقع مل جائے تو بھی خفت کا کوئی نہ کوئی پہلو نکل آتاہے۔ ایک دوست نے گھر کا پتہ پوچھا۔ اسے بتایا تو دوسرے نے احتجاج کیا کہ تو نے مجھے تو اور پتہ بتایا تھااسے اور بتا رہا ہے ۔جھوٹا۔ بعد میں واضح ہوا کہ اس گھر کو چھوڑے تو تین گھر ہو گئے۔ مطلب اس کے بعد بھی خاکسار دو مکان بدل چکا ہے۔ایک بار دوست کی کال آئی کہ وہ میرے گھر مجھے ملنے باہر آیا ہوا ہے۔ میں باہر نکلا۔ لیکن وہ مجھے نہ ملا اور نہ میں اسے ۔ وہ کہے وہ میرے گھر کے باہر کھڑا ہے میں کہوں میں بھی باہر کھڑا ہوں۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ میرے پرانے مکان کے سامنے کھڑا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ ایک الگ المیہ ہے۔
لیکن اس بارتو مجھے اپنے سارے مسئلے حل ہوتے نظر آئے۔اخبار میں حکومت کی طرف سے کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے ہاؤسنگ سکیم کا اشتہار پڑھا۔سوچا اب تو پتہ مستقل ہو ہی جائے گا۔ تفصیلات پڑھیں تو ڈاؤن پیمنٹ اور دیگر معاملات پڑھ کر ہوش اڑ گئے۔جتنی رقم شروع میں ادا کرنی تھی اتنی رقم اکٹھی تو میں نے زندگی میں کبھی نہ دیکھی تھی۔ مکان تو نہیں خیر ہاؤسنگ سکیم کا فارم میرے پاس آ گیا۔ وہ تو بعد میں مجھے عقل آئی جب قرعہ اندازی میں میرے مکان مالک کا گھر نکلا کہ پتہ مستقل کرنا اتنا آسان نہیں۔مستقل لوگوں کا ہی مستقل پتہ ہوتا ہے۔میں نے فیصلہ کیا ہے اس مکان مالک سے معاہدہ کر لوں کہ وہ مجھے تب تک یہاں رہنے کی مہلت دے جب تک کہ میں اگلی سکیم شروع ہونے سے پہلے ڈاؤن پیمنٹ کے لیے رقم نہ اکٹھی کر لوں۔ پھر خیال آیارقم جمع کرنے کے لیے تو نوکری ضروری ہے۔
کیا خوبصورت اتفاق ہے۔ان دنوں میری پسند کی ایک اسامی بھی خالی ہے۔امتحان کی تیاری بھی خوب کر رہا ہوں۔ موجودہ پتے کے مطابق ڈومیسائل بھی بنوا لیا ہے۔ طویل عرصہ تگ و دو کے بعد نوکری حاصل کر لینے والے ایک دوست سے سی۔وی بھی تیار کروا لی ہے۔موجودہ پتے یا خط و کتابت کے پتے کے مطابق شناختی کارڈ بھی بننے کے لیے نادرا آفس دے آیا ہوں۔ سب اچھا چل رہا تھا کہ بس۔۔۔۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے مالک مکان نےنوٹس دے گیا ہے مکان خالی کرنے کا۔ اب اپ ہی بتائیے کہ میں مکان مالک سے مہلت مانگوں یا ذہن سے اپنا پتہ مستقل کرنے کا خیال نکال دوں۔