[blockquote style=”3″]
نورالہدیٰ شاہ کی یہ نظم معروف ادبی جریدے ‘تسطیر’ میں شائع ہو چکی ہے، لالٹین قارئین کے لیے اسے مدیر تسطیر نصیر احمد ناصر کی اجازت سے شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
تسطیر میں شائع ہونے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
بھکارن
بدلتے زمانے کے چوراہے پر گڑی ہوں
فاسٹ فارورڈ منظر کے بیچ کھڑی ہوں
تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے مگر
دل رکھنے کی جگہ ڈھونڈ رہی ہوں
عشقِ خاکستر کا جسم کندھے پر لادے
راہگیرانِ شہر سے بھیک مانگ رہی ہوں
عشق اپنے آخری دموں پر ہے شہر والو
دل سوکھ کر کانٹا ہو چکے ہیں شہر والو
اب کے برس قحط سوزِ دل بھی نگل چکا ہے
ہر قطرہ، ہر آنکھ کا کنکر بن چکا ہے
محبت میّسر نہیں اب کسی بھی دوا خانے میں
ہر شفا خانے کا شٹر گر چکا ہے
طبیبِ دل چُن چُن کر مار دیے گئے ہیں
جو بچ رہ گئے ہیں، تاریک غاروں میں دبے پڑے ہیں
بس نقلی نوٹ کی سی اک نگاہِ محبت عطا ہو جائے
جو کسی سستے سے ڈھابے پر ہی چل جائے
مرتے عشق کو گدلے پانی کا اک قطرہ مل جائے
مرتے عشق کا حلق بس ذرا سا تَر ہو جائے
فاسٹ فارورڈ منظر کے بیچ کھڑی ہوں
تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے مگر
دل رکھنے کی جگہ ڈھونڈ رہی ہوں
عشقِ خاکستر کا جسم کندھے پر لادے
راہگیرانِ شہر سے بھیک مانگ رہی ہوں
عشق اپنے آخری دموں پر ہے شہر والو
دل سوکھ کر کانٹا ہو چکے ہیں شہر والو
اب کے برس قحط سوزِ دل بھی نگل چکا ہے
ہر قطرہ، ہر آنکھ کا کنکر بن چکا ہے
محبت میّسر نہیں اب کسی بھی دوا خانے میں
ہر شفا خانے کا شٹر گر چکا ہے
طبیبِ دل چُن چُن کر مار دیے گئے ہیں
جو بچ رہ گئے ہیں، تاریک غاروں میں دبے پڑے ہیں
بس نقلی نوٹ کی سی اک نگاہِ محبت عطا ہو جائے
جو کسی سستے سے ڈھابے پر ہی چل جائے
مرتے عشق کو گدلے پانی کا اک قطرہ مل جائے
مرتے عشق کا حلق بس ذرا سا تَر ہو جائے