فوجی چوکیوں سے گزرتے عام آدمی کوجامہ تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے مگر تربیت یافتہ مسلح دہشت گرد نگرانی پر کھڑے سپاہیوں کی آنکھوں میں آسانی سے دھول جھونک کر اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔
چند روز قبل پشاور شہر سے ملحق بڈھ بیر میں واقع پاک فضائیہ کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ آئی ایس پی آر کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں فوجیوں اور عام شہریوں سمیت تیس سے زائدافراد ہلاک ہوئے تاہم آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تعداد کا پتہ نہیں چل سکا ۔جس طرح دوسرے عسکری مقامات جیسے مہران بیس،جی ایچ کیو ،آرمی پبلک سکول،پشاورائیرپورٹ وغیرہ پر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی مکمل تعداد سے آج تک عوام بے خبر ہیں۔ بڈھ بیر میں واقع پاک فضائیہ کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں کا حملہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ نہیں اور شائد آخری بھی نہ ہو اس سے قبل پشاور ائیر پورٹ،بے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ کراچی ،مہران بیس کراچی،جی ایچ کیوراولپنڈی،آرمی پبلک سکول پشاور سمیت بیسیوں عسکری تنصیبات اور حساس اداروں پر حملے ہوچکے ہیں ،جس میں ابھی تک سینکڑوں افرادناکردہ گناہوں کی پاداش میں ابدی نیند سوگئے ہیں۔
بڈھ بیر حملے کے بعد پاکستان کا موقف
بڈھ بیر کے ائیر بیس پر حملے کے صرف چند گھنٹوں بعد آئی ایس پی آر کا بیان سامنے آیا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افعانستا ن میں کی گئی جب کہ دہشت گردوں کو مقامی آبادی کی حمایت اورمدد حاصل تھی ۔شکر ہے اس بات کا تو پتہ چل ہی گیا کہ بڈھ بیر ائیر بیس پر حملہ کرنے والے “نامعلوم دہشت گرد”نہیں بلکہ معلوم دہشت گردہیں جنہوں نے “نامعلوم مقام “کی بجائے معلوم جگہ یعنی افعانستان سے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی ۔لیکن چند بنیادی سوالات ہنوز جواب طلب ہیں ۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ سیکیورٹی ادارے ،خفیہ ایجنسیزاور حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے محض بیرونی مداخلت کا شوشہ چھوڑ کر اصل مسائل پر سے عوام کی توجہ ہٹا رہی ہے
چند بنیادی سوالات
پہلا سوال یہ ہے کہ اگر اس حملے کی منصوبہ بندی افعانستان میں ہوئی تھی تو دہشت گرد افعانستان سے روانہ ہوکرپاک افعان سرحد عبور کرکے قبائلی علاقوں میں سے ہوتے ہوئے بڈھ بیر کس طرح پہنچے؟ وہ بھاری بھر کم اسلحہ جو اس حملے میں استعمال ہوا کس طرح یہاں تک پہنچایا گیا؟ کیا بڈھ بیر کے آس پاس کوئی فوجی یا پولیس چوکی موجود نہیں تھی ؟ اتنے ہتھیاروں اور بارودی مواد کے ساتھ دہشت گرد وں کا اس علاقے تک پہنچنا بہت کچھ سوچنے پر مجبورکرتا ہے ۔کیونکہ فوجی چوکیوں کے قریب سے گزرتے وقت جن اذیتوں سے عام آدمی گزرتاہے وہ کسی بھی عام شہری سے پوشیدہ نہیں۔ فوجی چوکیوں سے گزرتے عام آدمی کوجامہ تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے مگر تربیت یافتہ مسلح دہشت گرد نگرانی پر کھڑے سپاہیوں کی آنکھوں میں آسانی سے دھول جھونک کر اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔
دوسرااور زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ افعانستان میں بڈھ بیر پر حملے کی منصوبہ بندی کے بعد وہ لوگ مقامی سہولت کاروں کی مدد سے پاکستان میں اتنی بڑی کارروائی کرنے کو پہنچ گئے لیکن سول و فوجی انٹیلی جنس ادارے بے خبر رہے۔ ایسے حملے چند دن یا ایک ہفتے کی تیاری سے نہیں کیے جا سکتے ان کے لیے طویل منصوبہ بندی اور بھاری وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ دہشت گرد مہینوں افعانستان میں بیٹھ کر پشاور میں واقع بڈھ بیر کے ہوائی بیس پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے رہے اور ان کے سہولت کار پاکستان میں انہیں معلومات فراہم کرتے رہے لیکن ہمارے ادارے بے خبر رہے۔
دوسرااور زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ افعانستان میں بڈھ بیر پر حملے کی منصوبہ بندی کے بعد وہ لوگ مقامی سہولت کاروں کی مدد سے پاکستان میں اتنی بڑی کارروائی کرنے کو پہنچ گئے لیکن سول و فوجی انٹیلی جنس ادارے بے خبر رہے۔ ایسے حملے چند دن یا ایک ہفتے کی تیاری سے نہیں کیے جا سکتے ان کے لیے طویل منصوبہ بندی اور بھاری وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ دہشت گرد مہینوں افعانستان میں بیٹھ کر پشاور میں واقع بڈھ بیر کے ہوائی بیس پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے رہے اور ان کے سہولت کار پاکستان میں انہیں معلومات فراہم کرتے رہے لیکن ہمارے ادارے بے خبر رہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان، یہاں کی حکومت، سیکیورٹی اداروں اور عوام میں واضح تبدیلی آچکی ہے۔ اب لوگ خوف کے عالم سے نکل کرآزادی سے بات کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف کھل کر بولنے کی جرات کررہے ہیں جو کہ ایک مثبت تبدیلی کا مظہر ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ بڈھ بیرائیربیس پر حملے کے صرف چند گھنٹوں بعد آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جرنیل عاصم سلیم باجوہ کا بیان سامنے آیا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افعانستان میں ہوئی تھی جان کی آمان ہو تو کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ حملے کے بعد اس قدر جلد کس طرح سے یہ تعین کر لیا گیا کہ یہ حملہ افغانستان سے آنے والوں نے کیا ہے؟ حملے سے قبل تو اس کی ذراسی بوبھی کسی مقتدر ادارے کو محسوس نہ ہوئی لیکن حملے کے چند ساعت بعد کیا آسمانی طاقتوں یا فرشتوں نے بتایا کہ اس حملے کی منصوبہ افعانستان میں ہوئی تھی؟کہیں ایسا تو نہیں کہ سیکیورٹی ادارے ،خفیہ ایجنسیزاور حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے محض بیرونی مداخلت کا شوشہ چھوڑ کر اصل مسائل پر سے عوام کی توجہ ہٹا رہی ہے؟
افعانستان کا ردِ عمل
بڈھ بیر حملے کے فوراََ بعد جونہی پاکستان نے اس حملے کی منصوبہ بندی کا الزام افعانستان میں مقیم طالبان کو ٹھہرایا تو افعان حکومت نے فوراََ جوابی وارکرکے ان الزامات کی تردید کردی۔ ماضی کے تجربے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر افعانستان میں کچھ ہوجائے تو افعان حکومت اپنی ناکامی کوچھپانے کے لئے اس کاالزام پاکستان پر عائد کرتی ہے۔ اسی طرھ پاکستان ہر خرابی ،ناکامی یا تباہی کی ذمہ داری یہود وہنود ،را ،موساد،سی آئی اے ،بھارت امریکہ یا پھر افعانستان پر ڈال کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالتا آیا ہے۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ افغانستان میں مقیم طالبان پاکستان میں جبکہ پاکستان میں موجود طالبان افغانستان میں حملے کررہے ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ یہی حملے ہیں۔
دونوں ممالک کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہورہی ہے
بنیادی اورسب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سرزمین ’’تزویراتی گہرائی ‘‘کے نام پر افعانستان کے خلاف اور افعانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوتی رہی ہے؟ پاکستان کے مقتدر اداروں کی کئی برسوں سے یہ پالیسی رہی کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر اچھے اور برے طالبان کی تفریق کرتے آئے ہیں۔ ان کے مطابق اچھے طالبان وہ تھے جو افعانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس برے طالبان وہ تھے جو پاکستان کے خلاف دہشتگردی میں مصروف تھے۔ دوسرے اور آسان لفظوں میں پاکستان کے سیکیورٹی اور خفیہ اداروں کے نظریے کے مطابق افعان طالبان اچھے جبکہ تحریکِ طالبان پاکستان برے طالبان پر مشتمل تھی ۔
ماضی میں پاکستانی ادارے حقانی نیٹ ورک کی مدد بھی کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ ایک ڈیڑھ برس کے دوران پاکستان کے مقتدر اداروں اور کسی حدتک سویلین حکمرانوں کے ذہنوں میں واضح تبدیلی آچکی ہے اب کہیں اچھے یا برے طالبان یا “تزویراتی گہرائی” کی گونج سنائی نہیں دے رہی ہے ۔قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن زوروشور سے جاری ہے ۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان ،یہاں کی حکومت،سیکیورٹی اداروں اور عوام میں واضح تبدیلی آچکی ہے۔اب لوگ خوف کے عالم سے نکل کر آزادی سے بات کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف کھل کر بولنے کی جرات کررہے ہیں جو کہ ایک مثبت تبدیلی کا مظہر ہے ۔
دوسری طرف افغان حکومت کی پالیسی واضح نہیں ۔2009ء کے دوران مالاکنڈ اور سوات میں فوجی آپریشن کے بعد طالبان قیادت یہاں سے بھاگ کر افغان صوبے کنڑ اور نورستان میں روپوش ہوگئی جو وہاں بیٹھ کر پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ دیر ،چترال اور باجوڑ میں پاکستانی چیک پوسٹوں پر کئی خون ریز حملوں کی منصوبہ بندی کنڑ اور نورستان میں ہوئی ،اور حملہ آورتباہ کن حملوں کے بعد دوبارہ افعانستان چلے گئے ۔افغان حکومت اور افغان سیکیورٹی اداروں نے ان حملوں کو روکنے پاپھر پاکستان کے مطلوبہ دہشت گردوں کو حوالے کرنے کے لئے ابھی تک کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔
ماضی میں پاکستانی ادارے حقانی نیٹ ورک کی مدد بھی کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ ایک ڈیڑھ برس کے دوران پاکستان کے مقتدر اداروں اور کسی حدتک سویلین حکمرانوں کے ذہنوں میں واضح تبدیلی آچکی ہے اب کہیں اچھے یا برے طالبان یا “تزویراتی گہرائی” کی گونج سنائی نہیں دے رہی ہے ۔قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن زوروشور سے جاری ہے ۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان ،یہاں کی حکومت،سیکیورٹی اداروں اور عوام میں واضح تبدیلی آچکی ہے۔اب لوگ خوف کے عالم سے نکل کر آزادی سے بات کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف کھل کر بولنے کی جرات کررہے ہیں جو کہ ایک مثبت تبدیلی کا مظہر ہے ۔
دوسری طرف افغان حکومت کی پالیسی واضح نہیں ۔2009ء کے دوران مالاکنڈ اور سوات میں فوجی آپریشن کے بعد طالبان قیادت یہاں سے بھاگ کر افغان صوبے کنڑ اور نورستان میں روپوش ہوگئی جو وہاں بیٹھ کر پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ دیر ،چترال اور باجوڑ میں پاکستانی چیک پوسٹوں پر کئی خون ریز حملوں کی منصوبہ بندی کنڑ اور نورستان میں ہوئی ،اور حملہ آورتباہ کن حملوں کے بعد دوبارہ افعانستان چلے گئے ۔افغان حکومت اور افغان سیکیورٹی اداروں نے ان حملوں کو روکنے پاپھر پاکستان کے مطلوبہ دہشت گردوں کو حوالے کرنے کے لئے ابھی تک کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔
وقت کی ضرورت
آج سب سے زیادہ ضرورت افعانستان اور پاکستان کی جانب سے دہشت گردی پر مشترکہ موقف اور حکمت عملی اپنانے کی ہے۔ دونوں ممالک کواپنی اندرونی کمزوریوں پر نظر ڈالنا ہوگی اور سیکیورٹی اداروں میں تعاون بڑھانا ہو گا۔ جو تخریب کاری یا دہشت گردی دونوں ممالک میں ہورہی ہے اس کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرناہوگا۔ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے دونوں ممالک کے درمیان دوریاں بڑھیں گی جس کا براہِ راست فائدہ طالبان دہشت گردوں کو ہوگا ۔ دونوں ممالک کی منتخب حکومتوں اور سیکیورٹی اداروں کے مابین اعتماد بحال کرنے اورسرحد پار حملوں کی روک تھام کے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہو سکے گا۔