Laaltain

بنجارا

17 اگست، 2015
بنجارے نے کاندھے سے مکان اتارا اور زمین پر بچھا دیا۔
” تیرہ سو چھیالیس “۔
خودکلامی کرتے ہوئے اس نے اپنے گھر کا نمبر دہرایا۔ یہ تیرہ سو چھیالیسواں مکان تھا، جسے وہ بڑے شوق سے “گھر ” کہتا تھا۔ چھوٹے لوگ، چھوٹی سوچ، ایک دن کے مکان کو گھر کہہ کے خوش ہونا خود فریبی تھی، مگر وہ اسی فریب میں ہی خوش تھا۔ خوشی کون سا آسمانوں سے اترتی ہے، یہ تو بس دل سے پھوٹ کے اردگرد کو بدل دیتی ہے۔
رات ہوئی تو دن بھر کی تھکن کو اس نے خیال کی ایک چادر میں چھپایا اور اسے یوں اوڑھ لیا گویا سلیمانی ٹوپی پہن کے وہ ان شکنوں سے اوجھل ہو جائے گا، جو اس چادر میں جا بجا پڑی ہوئی تھیں۔ سارادن جسم کی پوجا کرنے والے اپنی بھٹکتی روحوں کو تھپکیاں دے کے سلانے میں مشغول ہوئے اور نجات کے طالب مصلے پر لمبے لمبے قیام و سجود کرنے لگے۔ روح کو بہلانے والے ملا نے کالی کتاب کھولی اور کسی کی تلاش کو اپنی تلاش بنا کر کسی کو ڈھونڈنے لگا۔ مجاہد نے اپنی جیکٹ اتار کے پرے رکھی اور حور کے بارے میں سوچتے سوچتے اپنا اسلحہ چمکانے لگا۔ حور نے بھی اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں سرمہ ڈالا، اور سونے کی مسہری پہ بیٹھ کر کسی کی محبت میں ، کسی اور کی محبت کے لیے خود کو تیار کرنے لگی۔ “سرخے” اپنی لال کتاب میں سر دے کے دنیا کو جنت بنانے لگے۔ خدا کے پیاروں کے ہاتھوں دھتکارے ہوئے بنجارے نے قمیض کی لمبی جیب میں ہاتھ مارا اور بولا:
بنجارے نے کاندھے سے مکان اتارا اور زمین پر بچھا دیا۔
تیرہ سو چھیالیس “۔ ”
خودکلامی کرتے ہوئے اس نے اپنے گھر کا نمبر دہرایا۔ یہ تیرہ سو چھیالیسواں مکان تھا، جسے وہ بڑے شوق سے “گھر ” کہتا تھا
”لال والا آج ، کالے والا کل اور پرسوں جمعہ ہے نا، تو اس کی باری پرسوں جو کوئی مورت نہیں بنانے دیتا۔۔۔“یہ کہہ کر اس نے لال والی مورتی جیب سے نکالی، پھونک مار کے صاف کی، آستین سے رگڑ کے مزید چمکائی اور عقیدت سے چوم کے سامنے رکھی۔ ” آج تیری باری ہے، تو سندھیا ندی کے اس طرف کے انسانوں کا رازق ہے اور باقی سب سے نفرت کرتا ہے۔ کل والا بس پہاڑ والوں کا ہے اور پرسوں والا صرف ملا کا رب۔۔ تو میرے والا کون ہے؟؟؟”
بنجارے نے آہ بھری، تھوڑا سا رویا، کچھ تسلیوں سے خود کو بہلایا اور جب تک نیند کی دیوی اسے اس کے گمشدہ دیوتا سے دور نہیں لے گئی ، وہ دیر تک خودکلامی کرتا رہا۔
لا مکاں کے مکیں کو کھوجتا یہ مسافر روز ایک نیا مکان بناتا تھا۔ پھر اس میں ایک معبد سجاتا اور ایک معبود تراشتا تھا۔ سوچ کی پوٹلی کو تہہ در تہہ کھول کر اس میں سے ان کے محاسن اجاگر کرتا، صبح ہوتی تو اس کو اپنا آقا مان کے لوگوں سے توثیق کرانے کی کوشش کرتا۔ مگر ایک بدبو دار ، بے گھر مسافر کی کون سنتا، وہ کسی کو کیا دے سکتا تھا۔۔۔ ہر طرف سے مار، دھتکار حصے میں آتی۔ روز ایک نیا زخم پھوٹتا؛ ایک دل پر، ایک جسم پر۔۔۔ ہاں البتہ کسی مندر سے کچھ چبانے کو مل جاتا اور کسی سبیل سے پینے کو، مگر اس کی طلب یہ تو نہ تھی۔ جو مطلوب تھا، وہ مورتیوں اور مندروں سے بہت دور جا چکا تھا۔ در در ٹھوکر کھاتا یہ مسافر تو جاتی شام کے جھٹ پٹے میں اگلی بستی میں قیام سے پہلے سوچ لیتا کہ یہ خدا بھی معبود نہیں۔ آج اک نیا تراشوں گا۔ اور پھر پچھلی رات کا وہی تاریک منظر اس کے مکان میں سایہ فگن ہو کر اس کی حالت پر قہقے لگاتا اور وہ بے بسی میں خون کے گھونٹ پی کر آنسو بہاتا رہا۔
یونہی کئی موسم بیت گئے، درختوں کے پتے جھڑ جھڑ کر نئے آتے رہے، پرندے بوڑھے ہو کر مر گئے اور کئی دریا سوکھ کر خشک ہو گئے۔ جھیلوں اور سمندروں میں ہلکورے لیتا نیلگوں پانی کم ہوتا دکھائی دینے لگا اور زمین پہ سبزہ زار صحرا ہوگئے۔ مندر و مسجد والے اپنے خدا خانے سجاتے چمکاتے رہے اور بنجاروں کے مکان سدا کے خالی تھے ، سو رہے۔ کوئی محبت کی آرزو میں ختم ہوا اور کوئی محبت بانٹتے بانٹتے۔ کوئی دھمال ڈالتے مرا تو کوئی دانائی کے چار راز سیکھ کے اندھے پجاریوں کو درس دیتا، مگر حقیقت کے متلاشی تو فنا کی گھاٹ میں اترتے سمے تک پیاس سے بلبلاتے رہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *