بہت ہو چکی تن کی نِندا
بہت لوگ کرتے رہے ہیں بدن کی مذمت
مری گل بدن
آج تیرے لبوں سے بدن کا قصیدہ جو پھوٹا
مشیت کے ٹانکے ادھڑنے لگے ہیں
ندامت کے پرزے بکھرنے لگے ہیں
اچنبھا! اچنبھا
لبِ تشنہ خو سےبدن کی حمایت میں بھیگے ہوۓ لفظ گرنے لگے ہیں
مری لالہ رخ! میں تو کہتا رہا
آنکھ پر بے یقینی کہاں تک چلے گی
تجھے دیکھتا ہوں تو تیرا بدن ہی نظر کو سجاتا ہے
اے سرو قامت!نظر کے ورق پر ترے انگ کا رنگ ہے
کوئی رنگیں فسانہ نہیں
یہ ترے جسم کا سچا سچ ہے
تخیل کی بیمار صنعت سے نکلا خیالی سراپا نہیں ہے
کہ جو سوچنے کو حسیں ہے، چھوؤ تو نہیں ہے
یہی ہے، یہی ہے، حقیقت یہی ہے
کہ جو دیکھتا ہوں میں وہ دیکھتا ہوں
فلک کی سکونت کسے چاہئیے ہے
انھی گنبدوں کو ذرا دائیں بائیں کرو
درمیاں کچھ جگہ ہے
یہیں میں سکونت کروں گا
مہک اے گلِ خوب رو!
آ! مری چھاتیوں پر پڑا رہ
مرے تن کے باغوں میں رہ لے
مہک لے بہک لے
کہاں جائے گا
کچھ نہیں، کچھ نہیں
آنکھ کی کھیتیوں سے پرے کچھ نہیں ہے
ارے کچھ نہیں ہے
Image: Robin Wight