میں دوڑتا جا رہا تھا، آگے اور پیچھے کی تمام چیزیں دُھوئیں میں سے نکلتی اور اسی میں غائب ہوتی جا رہی تھیں۔میں نے دوڑتے ہوئے ایک چھلانگ لگائی اور ہوا میں بہت اوپر ہوتا چلا گیا، اوپر سب صاف تھا، نیچے مجھے اپنی رہنے کی جگہ، وہاں کے تمام راستے سب کچھ نظر آ رہا تھا۔ میں مزید اوپر گیا تو یہ سب کچھ بہت چھوٹا نظر آنے لگا۔ اس طرح ہوا میں رہتے ہوئے مجھے کوئی ڈر نہیں لگا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ نیچے گرنے تک کا خوف بھی نہیں تھا، میں بہت آرام سے تھا۔
اب میں دوبارہ نیچے آرہا تھا، شائد میرا وزن مجھے نیچے لے جا رہا تھا۔ نیچے وُہی تھا جس کی وجہ سے میں دوڑنے لگا تھا۔ نیچے دھوئیں کے ساتھ اب سیاہی بھی شامل ہو رہی تھی، شائد مجھے ایسا لگ رہا ہوکہ سیاہی ہے لیکن دھواں بہت زیادہ تھا،اور بالکل ویسا ہی جیسا ٹھنڈے دنوں میں ہماری رہنے کی جگہوں میں ہوتا ہے۔ اپنے آس پاس کچھ نظر نہیں آتابلکہ ایسا لگتا ہے کہ کبھی آئے گا بھی نہیں۔میں نیچے بہت تیزی سے آیا اور جیسے ہی میرے پیر نیچے لگے میں نے دوبارہ اوپر اٹھنے کی کوشش کی اور میں حیران بھی ہوا کہ میں پھر اوپر جاتا چلا گیا۔ یہ بہت اچھا لگ رہا تھا، نیچے اب بھی وہی تھا جس کی وجہ سے میں دوڑنے لگا تھا۔
اوپر ہوتے ہوئے میں نے سوچا کہ وہ جگہ دیکھوں جو مجھے کئی بار سوتے میں نظر آتی ہے۔ وہ عجیب سے رنگ کی تعمیر، جو راستے پر چلتے ہوئے دیکھنے سے ایسی لگتی ہے جیسے بہت نیچے، راستے سے ہٹ کر بنی ہوئی ہے، لیکن قریب سے دیکھنے پر ، راستے کے کناروں پر لگی حفاظتی سلاخوں کے پار، جن کا کوئی رنگ نہیں ہے، اُن سلاخوں کے پار دیکھنے پر وہ بالکل راستے کے ساتھ ساتھ ہی بنی لگتی ہے۔ اصل میں راستہ اوپر سے نیچے کی طرف جاتا ہے اور وہ تعمیر بالکل اسی طرح کی ہے جیسے نیچے اترتے ہوئے وہ آپ کے ساتھ ساتھ اترتی رہے۔یہ تعمیر دیکھنے کا خیال آتے ہی میں نے مزید اوپر اُٹھنے کی کوشش کی تاکہ اس کی سمت جان کر اُس کی طرف جا سکوں۔اوپر اتنا اوپر کہ نیچے ہر دیکھی جانے والی چیز اپنی پہچان ختم کر بیٹھی۔ سب رنگ آپس میں مل کر تین باقی رہ گئے۔ مجھے اپنا پڑھا ہوایاد آ گیا۔’ہم دیوتاؤں کے نزدیک کیڑوں کے سے ہیں اور وہ ہمیں اپنی تفریح کی خاطر مارتے رہتے ہیں‘۔اتنا اوپر آکر اس پڑھے ہوئے کو آج میں پوری طرح سمجھ پا رہاتھا۔ کسی چیز کی کوئی شکل باقی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی خاص ضرورت ۔اور جب یہ سب نہیں تھا تو کوئی بھی چیز ہو یا نہ ہو، اور اگر ہوکر باقی نہ رہے، یا نہ ہو اور ہو جائے، کیا ضروری تھا۔ مجھے حیرت ہوئی جب میں یہاں سے، اتنی اونچائی سے، اس تعمیر اور اس کی وہ سلاخیں دیکھ پایا جن کا کوئی رنگ نہیں تھا۔
اب میرا وزن دوبارہ مجھے نیچے لے جا رہا تھا۔ میں اپنی مرضی سے اُس تعمیر کے پاس جا رہا تھا۔ سب رنگ دوبارہ الگ ہونے لگے تھے(جب کہ اوپر وہ صرف تین تھے)، نیچے وہی تھا جس کی وجہ سے میں دوڑنے لگا تھا۔ میں دوڑتا جا رہا تھا اور اس تعمیر کے قریب تھا۔ ایک جگہ جہاں وہ سلاخیں نہیں تھیں وہاں میں اندر داخل ہوا۔ وہ تعمیر گھوم رہی تھی(اوپر سے ایسا نہیں دکھتا تھا)۔ وہاں موجود ہر چیز کا رنگ کوئی نہیں تھا، بالکل ویسا جیسا اُن سلاخوں کا تھا۔ میں تیزی سے ایک کے بعد دوسرے حصے میں جا رہا تھا، دھواں یہاں بھی تھا، بند جگہ ہونے کی وجہ سے کم ہوگا۔ بہت سے حصے تھے، سب ایک جیسے دکھائے جا رہے تھے، اندر جانے کو کچھ نظر نہیں آتا تھا، ایک جگہ کچھ خالی سا تھا، تعمیر نہیں تھی۔ اندر اُس حصے میں اوپر تین گھومنے والے پر تھے، شائد ہوا دینے کے لئے، لیکن وہ جگہ خود گھوم رہی تھی اور پر وں میں کوئی حرکت نہیں تھی، ہوا بہتر تھی، دھواں کم ہوگیا تھا۔ یہاں وقت بھی تھا۔اس لیے ہوگا کہ وقت دکھانے والا ایک آلہ نظر آ رہا تھا، اس کے نیچے لٹکتا ہوا ، نفی میں حرکت کرنے والا حصہ خاموش تھا، غور سے دیکھنے پر وہ جگہ خود دائیں بائیں حرکت کرتی تھی، مگر وہاں سِمت بھی نہیں تھی،یہ حرکت نفی کی حرکت تھی۔ یہاں وہ آنے والا تھا جس سے میں دوڑ رہا تھا۔وہی جگہ جہاں کچھ خالی سا تھا، میں اسی میں دوڑا اور باہر نکل آیا۔دھواں ویسا ہی تھا، باہر آکر اندر بہتر محسوس ہوا، لیکن وہ تعمیر گھوم رہی تھی اور جہاں وہ سلاخیں نہیں تھیں، وہ جگہ اب کہیں اور تھی، بہرحال نفی کی حرکت باہر نہیں تھی۔
اب سامنے ایک سواری دکھائی جا رہی تھی۔ دس حرکت کرنے والے گول وجوداُس سواری کی جسامت بتارہے تھے، اُس کا رنگ چیختا ہوا سا تھا، اندر سے باہر دیکھنے کو کئی جگہیں تھیں، ایک جگہ داخل ہونے کو تھی۔ میں دوڑتا ہوا اُس میں سوار ہو گیا۔
یہاں وہ بھی تھا جو عمر میں مجھ سے کچھ کم تھا لیکن وہیں کا تھا جہاں کا میں تھا۔ میرا اُس کا ظاہر ملتا جُلتا تھا، ہمارے پیدا کرنے والے ایک تھے۔ اسے وہاں دیکھ کر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی (اب ہوتی ہے،اُس کا وہاں کیا کام؟)، اس نے مجھے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا ۔ وہاں بیٹھنے کی بہت سی جگہیں تھیں، وہاں کوئی اور نہیں تھا، یا شائد ہو گا، دکھایا نہ گیا ہو۔ یہاں اب تک وہ بھی نہیں تھا جس سے میں دوڑ رہا تھا۔ سواری کچھ خاص نہیں تھی اندر سے، اتنی بھی نہیں کہ کچھ یاد رہ جاتا۔ حرکت شروع ہو گئی۔ میں وہاں تھا جہاں اندر سے باہر دیکھنے کو جگہ تھی۔ وہ جو وہیں کا تھا جہاں کا میں تھا،کوئی بات نہیں کر رہا تھا، میں چاہ رہا تھا کہ میں کوئی بات کروں لیکن بات کرنے کی جگہ حرکت نہیں کرتی تھی۔ شائد اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ بات کرنے کو وہاں کچھ تھا بھی نہیں، یہ سب کچھ پہلے بھی کئی بار دکھایا گیا تھا۔
جہاں میں بیٹھا تھا وہاں حرکت بہت آہستہ محسوس ہو رہی تھی، مجھے اُلجھن ہونے لگی۔ میں نے برابر میں دیکھا، وہ مطمئن تھا۔ شائد اُس کی طرف حرکت تیز تھی۔ لیکن یہ ممکن نہیں تھا، ایک ہی حرکت کرتی ہوئی سواری میں موجود ہوتے ہوئے اُس کی اور میر ی حرکت میں فرق کیسے ہو سکتا تھا۔ اُس کو دیکھ کر بہرحال یہ لگتا تھا کہ وہ مطمئن ہے۔ میں باہر دیکھنے کو مُڑا، باہر سب کچھ آگے کی طرف دوڑ رہا تھا، تمام رنگ جو الگ الگ تھے، آگے کو دوڑ رہے تھے۔ میں مطمئن ہو کر بیٹھ گیا(اس وقت رنگ اور چیزیں پیچھے کی طرف دوڑنے کے بجائے آگے کو دوڑ رہے تھے، اور میں مطمئن تھا، اب سوچ کر کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے وہ بھی اس وقت ایسا ہی مطمئن ہویا شاید اُس کی طرف حرکت اتنی تیز ہو کہ اُسے اندازہ ہی نہ ہو، کچھ بھی ممکن تھا)۔ میں مطمئن ہو کر آرام سے لیٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی۔
یہاں میں پھر دوڑ رہا تھا۔اور یہاں وہی تھا جس کی وجہ سے میں دوڑنے لگا تھا۔میں دوبارہ چھلانگ لگا کر ہوا میں بہت اوپر ہوتا چلا گیا، اوپر سب صاف تھا، نیچے مجھے اپنی رہنے کی جگہ، وہاں کے تمام راستے سب کچھ نظر آ رہا تھا۔اب کے میں کوشش کر رہا تھا کہ میں نیچے نہ آپاؤں۔ میں ایک رفتار میں سیدھا، وہیں، رہنا چاہ رہا تھا جہاں میں موجود تھا۔خبر نہیں کیسے، مگر یہ ممکن ہو گیا۔ اب اچانک نیچے سب کچھ صاف نظر آ رہا تھا۔ دھواں غائب ہو گیا تھا۔سیاہی تھی لیکن سب چیزیں دکھائی دے رہیں تھیں۔ وہ جگہ جہاں میں نے لفظ جاننا سیکھے وہ نظر آ رہی تھی، رنگ پر سیاہی غالب تھی۔ وہ جگہ جہاں میں اپنے ماں جایوں کے ساتھ گھومتا تھا، جہاں خوب صورت سبز میدان تھے، جہاں ہیبت ناک اونچائیاں تھیں اور اُن میں سے گزرنے کے لیے راستے تھے، جہاں خداؤں کے گھر تھے، جہاں خداؤں کے پیاروں کی یاد منائی جاتی تھی، رنگ پر سیاہی غالب تھی۔ جہاں میرے جیسے اور بہت سے، میرے ساتھ بے مقصد گھومتے تھے، روشنی ہونے سے پہلے بغیر کسی خوف کے نکلتے تھے، روشنی ہونے کے دیر بعد لوٹتے تھے، کوئی مقصد ہونا باہر جانے کے لیے ضروری نہیں ہوتا تھا،اندھیرے کے بعد بھی خداؤں کے پیارے بندوں کے رہنے کی جگہیں کھلی رہتی تھیں، سب نظر آ رہا تھا۔ جہاں اندھیرے کے بعد میں اور میرے جیسے اور بہت سے، صرف بولنے بیٹھا کرتے تھے۔ وہ جگہ جہاں مجھے پیدا کرنے والے صرف کھیلنے لے جایا کرتے تھے (جہاں میں اُن کونہیں لے جا سکتا جو مجھ سے پیدا ہوئے ہیں یا ہوں گے)، وہ جگہ جہاں بہت سے سبز وجود جھومتے تھے اور کئی دوسرے رنگ اُن میں آکر مل جاتے تھے، وہ جگہ جہاں نیلا رنگ نمایاں تھا، جہاں موسم کی سختی کم کرنے میرے جیسے اور بہت سے آجایا کرتے تھے، سب مل کر اُس موسم کا زرد اوراچھے مزے کا پھل کھایا کرتے تھے۔ رنگ ان دنوں صرف تین نہیں تھے، ایک دوسرے سے مل کر اتنے ہو جاتے تھے کہ شمار ممکن نہیں تھا۔ جہاں ایزد بخش، مختلف چھوٹی چیزیں پیسوں کے بدلے میں دینے والابیٹھتا تھا، وہ جگہ بھی نظر آرہی تھی، ایزد بخش نہیں تھا۔ سیاہی بڑھنے لگی تھی، اب سیاہی اتنی بڑھ گئی تھی کہ مجھے نیچے، جس کی وجہ سے میں دوڑ رہا تھا، وہ بھی نہیں دکھتا تھا۔ میں اوپر تھک چکا تھا، اب کچھ دکھتا بھی نہیں تھا، میرا وزن مجھے مسلسل بہت کم رفتار سے نیچے دھکیل رہا تھا۔ جیسے ہی میرے پیر نیچے لگے مجھے لگا کہ جس کی وجہ سے میں دوڑ رہا تھا، میرے سامنے ہے۔
میری نیند ختم ہو گئی۔ میں نے برابر میں دیکھا، وہ مجھے دیکھ رہا تھا، وہ جو وہیں کا تھا جہاں کا میں تھا، اسی سواری میں ہم دونوں وہیں تھے جہاں مجھے نیند آ گئی تھی۔ لیکن اُس کے سر کے بال بہت زیادہ بڑھ گئے تھے، اور سفیدی اُن میں بہت زیادہ تھی، اس کے وجود کی لکیریں ایسے تھیں جیسے وہ عمر میں مجھ سے بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ وہ مجھے ابھی تک دیکھ رہا تھا، شائد میرے بالوں کی سفیدی غائب ہو گئی ہو اور میرے وجود کی لکیریں تن گئی ہوں۔ یہ میرا خیال تھا۔ شائد اُس کی طرف حرکت تیز تھی اور میری طرف رنگ اور چیزیں پیچھے کی طرف دوڑنے کے بجائے آگے کو دوڑ رہے تھے۔ لیکن یہ ممکن نہیں تھا، ایک ہی حرکت کرتی ہوئی سواری میں موجود ہوتے ہوئے اُس کی اور میر ی حرکت میں فرق کیسے ہو سکتا تھا۔ اُس کو دیکھ کر بہرحال یہ لگتا تھا کہ وہ مطمئن نہیں ہے۔ میں نیند میں نہیں تھا لیکن معلوم نہیں کیوں سب ایسا ہی لگ رہا تھا۔
سواری رک گئی۔ باہر دھوئیں میں ویسی بہت سی سواریاں دکھائی جا رہی تھیں۔ وہ جو وہیں کا تھا جہاں کا میں تھا وہ مجھ سے مل کر بے سمت چلا گیا۔ یہاں وہی تھا جس کی وجہ سے میں دوڑنے لگا تھا، میں دوڑتا جا رہا تھا، آگے اور پیچھے کی تمام چیزیں دُھوئیں میں سے نکلتی اور اسی میں غائب ہوتی جا رہی تھیں لیکن میں چھلانگ نہیں لگا سکتا تھا، یہ اختیار اب لے لیا گیا تھا۔ میں تھک گیا تھا، میں دوڑتے ہوئے بالکل رک گیا، گھوم کر دیکھا، جس کی وجہ سے میں اندھا دھند دوڑ رہا تھا، وہ اب میرے سامنے تھا۔ وہ میرے جیسے اور بہت سوں جیسا تھا۔ اس کے سر کے بالوں کے بجائے چہرے کے بال بہت زیادہ تھے (شائد سر کے بال نہیں تھے) اور سیاہی غالب تھی، وہ مجھے گرا کر مجھ پر چڑھ بیٹھا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے میرا دم گھونٹ رہا تھا۔ میں چیخ نہیں پاتا تھا، مجھے جھٹکے لگنے شروع ہو گئے۔ وہ تعمیر گھوم رہی تھی۔ یہ حرکت نفی کی حرکت تھی۔ سب رنگ آپس میں مل کر تین بچ گئے۔ اگر ہو کر باقی نہ رہے یا نہ ہو اور ہو جائے، کیا ضروری تھا۔ اُس کا رنگ چیختا ہوا سا تھا۔ بات کرنے کی جگہ حرکت نہیں کرتی تھی۔ وہ جگہ جہاں میں اپنے ماں جایوں کے ساتھ گھومتا تھا۔ ایزد بخش نہیں تھا۔ سیاہی بڑھتی جا رہی تھی۔
(در این حالت بھترین روش برای خلاصی از حالت فلج، تمرکز روی حرکت اعضای بدن است. سعی کنید دست ھا و پاھا و انگشتان خود را تکان دھید و حتی پلک بزنید. اگر قادر بہ حرکت بدن خود نیستید، این کار را در ذہن خود القا کنید. تصور کنید کہ سرتان یا بخشی از بدنتان را تکان می دھید. این کار مغز شما را برای فرستادن پیام ھای عصبی فعال می کند. بہ طور کلی سعی کنید وضعیت خروج از بدن را در وجود خود القا کنیدُ۔)
Image: Jordi collell