بظاہر دو متضاد شخصیات۔۔۔ایک نے فقیرانہ زندگی گزاری، دکھ درد بانٹے اور شاہوں کی طرح دفنایا گیا۔ دوسری جیتے جی بدکار ٹھہری اور مر کر بھی ملعون قرار پائی۔ایک کو پاکستان کے ہر فرد نے بے انتہا چاہا، سراہا، اپنی استعطاعت کے مطابق نوازااور ملکی تاریخ کی واحد غیر متنازع شخصیت کے طور پر یاد رکھا۔ دوسری کا مذاق بنایا، دھتکارا، لعن طعن کی اور متنازع کردار کے طور پر جگ ہنسائی کا سبب سمجھا۔ ایک کی موت پر ہر آنکھ اشکبار، ہر دل سوگوار، دوسری کی موت پرخس کم جہاں پاک۔ تاہم دونوں میں کم از کم دو چیزیں مشترک ہیں۔ اول، دونوں نے سماج کی غلاظتوں کو سمیٹا، ان زخموں پر مرحم رکھاجو نہ ان کے تھے اور نہ انہوں نے لگائے۔ دوم، دونوں ریاست کی ناکامی اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔
ایدھی نے ان بچوں کو اپنا نام دیا جن کو ریاست اور معاشرے نے اپنانے سے انکار کر دیا۔ ان عورتوں کوچھت اور عزت دی جنہیں سب نے آسرا دینے سے انکار کر دیا۔ ان مظلوموں کو مان دیا جنہیں عقائد اور صوبائیت نے نشانہ بنایا۔ ان لاشوں کو کفن دیا جن کی کوئی پہچان نہ تھی۔ مرنے کے بعد بھی ان کو بینائی دی جو صرف خواب دیکھتے تھے۔ قندیل بلوچ کا سفر سوشل میڈیا نہیں بلکہ 17 سالہ فوزیہ عظیم سے شروع ہوا۔ وہ بیاہی گئی، ماں بنی، طلاق لی اور گمنامی، مجبوری، غربت اور شرمساری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی۔ اس کے غیرت مند بھائی، با شعور رشتہ داروں، مذہبی معاشرے اور بااخلاق ریاست میں سے کسی نے اس کا سہارا بننے یا اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ فوزیہ نے قندیل بلوچ بن کر معاشرے کی صرف اس حس کو جگایا جو عورت کا جسم دیکھ کر قوت پکڑتی ہے۔ اس نے اپنا جسم پیش کر کے کسی کو شرم نہیں دلائی البتہ شہوت کا سامان ضرور مہیا کیا۔ اخلاق کے بالائی زینوں پر کھڑا یہ معاشرہ فوزیہ عظیم کے قندیل بلوچ بننے تک کہاں تھا؟ یہ لوگوں کی یاد میں شمعیں تبھی کیوں جلاتا ہے جب قندیل بجھ جاتی ہے؟
ایدھی کی موت پر کچھ ‘علماء حق ‘ نے یہ کہہ کر نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا کہ وہ ملحد ہیں، کافروں اور حرامیوں کو اپنا نام دیتے رہے۔ انہیں میں سے ایک نے کہا کہ لوگ قندیل بلوچ کی موت سے عبرت حاصل کریں کہ ‘علماء دین ‘ کو بدنام کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
بظاہر دو متضاد شخصیات مگر ان کے وجود کا ذمہ دار ایک ہے۔ دونوں نے ان ‘غلاظتوں’ کو خود سے منسوب کیا جس کی ذمہ دار ریاست ہے۔ ریاست جو ماں سی ہوتی ہے، ریاست جو اپنے ہر فرد کی بہتر زندگی کی ذمہ دار ہے، ریاست جو فوزیہ عظیم کے لئے عبدالستار ایدھی ہے۔ ریاست ایسے معاشروں کی تشکیل کرتی ہے جہاں عبدالستار ایدھی اور قندیل بلوچ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم معاشرتی بے حسی پر آہ و بکا سے پہلے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارے ہاں مضبوط ریاستی بیانئے نے ایسے معاشرے کی تشکیل کی ہے جہاں ایدھی پیدا ہوتے رہیں اور قندیل بنتی رہیں گی۔