Laaltain

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں-پہلی قسط

7 اگست، 2016

[block­quote style=“3”]

جماعت اسلامی کی سیاسی تاریخ اور ارتقاء پر ڈاکٹر عبدلمجید عابد کا یہ مضمون اس سے قبل معروف سہ ماہی ادبی جریدے ‘آج’ میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ لالٹین پر اسے بعض اضافوں کے ساتھ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

[/blockquote]

اس سلسلے کی بقیہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

1857ء کے بعد ہندوستان میں مغل حکومت کا باضابطہ خاتمہ ہوا تو سماجی تبدیلی کا ایک عمل شروع ہوا۔ اس دور میں مسلمان اشرافیہ کے مفادات پر ضرب لگی جس کا نتیجہ دو مختلف تحاریک کی شکل میں واضح ہوا۔ قدامت پرستی کی تحریک دیوبند جبکہ جدیدیت کا علم علی گڑھ سے نمودار ہوا۔ ان دونوں تحاریک کے روح دواں شمالی ہندوستان کے باسی اور مسلمان اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ چھاپہ خانے اور اجتماعی تعلیم کی بدولت شعور کا حصول صرف اشرافیہ کے لئے مخصوص نہ رہا۔ علی گڑھ کے ذریعے سرسید نے مسلم اشرافیہ کو حکومتی بندوبست کا حصہ بننے کا نیا راستہ عطا کیا تو تحریک خلافت کے ذریعے دیوبند کے فارغ التحصیل علماء بھی سیاسی میدان میں اترے۔ ابوالکلام آزاد نے اپنے اخبارات کا آغاز مسلم امہ سے ہمدردی پر مبنی مضامین چھاپ کر کیا اور تحریک خلافت کی فکری بنیاد رکھی۔ تحریک خلافت کے خاکستر سے جمیعت علمائے ہند، مجلس احرار اور بعد ازاں جماعت اسلامی نمودار ہوئیں۔ تقسیم ہند سے قبل اور اس کے بعد جماعت اسلامی کے سیاسی ارتقاء کی کہانی پیش خدمت ہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں سیاسیRel­e­vanceکا جھگڑا شروع ہوا جس میں مسلم لیگ کے سیاست دان، کمیونسٹ پارٹی، جماعت احمدیہ، پاکستان کی مخالفت کرنے والی جماعتیں جیسے مجلس احرار، جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نمایاں کردار تھے۔

 

نوزائیدہ ریاست کی فکری تشکیل اور سیاست میں مذہب کی ملاوٹ کے موضوعات پر جاری بحث میں جماعت کے اکابرین نے ایک مخصوص موقف اختیار کیا اور ابتدائی کشمکش کے بعد وہ موقف ایک موقعے پر سرکاری موقف بن گیا۔
سنہ 1937ء کے انتخابات میں شکست کے بعد مسلم لیگ کے زعماء نے مذہبی نعرے استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی اور ’علماء ومشائخ‘ کی حمایت حاصل کرنے کا آغاز ہوا (اس دور میں مسلم لیگ کی جانب سے شائع ہونے والے ایک اشتہار کی عبارت میں یہ الفاظ شامل تھے: ’مسلم لیگ نیک باطن اور خدا پرست مولویوں کی بہت زیادہ عزت کرتی ہے)۔ اس سلسلے میں سنہ 1945ء کے انتخابات میں پنجاب، یوپی اور صوبہ سرحد میں اسلام کے نام پر ووٹ طلب کئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

 

نوزائیدہ ریاست کی فکری تشکیل اور سیاست میں مذہب کی ملاوٹ کے موضوعات پر جاری بحث میں جماعت کے اکابرین نے ایک مخصوص موقف اختیار کیا اور ابتدائی کشمکش کے بعد وہ موقف ایک موقعے پر سرکاری موقف بن گیا۔ جماعت اسلامی کی یہ تاریخ پاکستانی معاشرے کے چند بنیادی رجحانات اور وقت کے ساتھ انکے ارتقاء کی نشاندہی کرتی ہے۔ بحیثیت سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کا ’سنہری دور‘ سنہ 70ء کے انتخابات سے قبل تھا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کی تاریخ محض زوال اور Hubris کی داستان ہے۔ جہاد کے موضوع پر جماعت کی موشگافیاں ابتدائی دور میں فوج کے نقطہ نظر سے مختلف تھیں لیکن کچھ دہائیاں گزرنے کے بعد دونوں فریقین کا موقف ایک ہو گیا۔ موجود سیاسی بندوبست میں جماعت اسلامی کا پیغام دیگر دیوبندی جماعتیں یا طالبان ہتھیا چکے ہیں اور جماعت کو اپنی اہمیت جتانے کے لئے انتخابی اتحاد یا اشتعال انگیز اخباری بیانات کا راستہ اپنانا پڑتا ہے۔ کراچی میں مہاجر جماعت کے قیام کے بعد جماعت کی سیاسی اہمیت میں نمایاں کمی واضح ہوئی اور اب لوئر دیر کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں جماعت ووٹ حاصل کرنے سے قاصر ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ستمبر سنہ 1903ء میں اورنگ آباد، دکن کے ایک صوفی گھرانے میں ابوالاعلیٰ مودودی کی پیدائش ہوئی۔ ان کے والد سید احمد حسن مودودی نے کچھ وقت علی گڑھ کالج میں بسر کیا اور بعدازاں الہٰ آباد سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ سن 1900ء میں انہوں نے مولوی محی الدین کے ہاتھ پر بیعت کی اور خاندان سمیت دہلی منتقل ہو گئے۔ ابوالاعلیٰ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جہاں انہوں نے فارسی، اردو، منطق، فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ گیارہ برس کی عمر میں انہیں مدرسہ فوقانیہ اورنگ آباد میں داخل کروا یا گیا۔ عربی زبان پر عبور کے باعث انہوں نے گیارہ سال کی عمر میں مصری عالم قاسم امین کی کتاب کا اردو ترجمہ کیا۔ بعدازاں انہوں نے کچھ وقت حیدرآباد دکن کے دارالعلوم میں بسر کیا۔ مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے پر ابولاعلیٰ نے کوچہء صحافت کا رخ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے بڑے بھائی سمیت دہلی میں رہائش اختیار کی اور مختلف رسائل کے لئے مضامین لکھے۔ ان دنوں رولٹ ایکٹ اور تحریک خلافت کے زیر اثر مودودی صاحب نے پنڈت مدن موہن اور گاندھی جی کے حالات زندگی تحریر کئے۔ سنہ 1919ء میں انہوں نے ’تاج‘ نامی کانگرسی رسالے کی ادارت سنبھالی۔ اس کے بعد انہوں نے دو سال جمیعت علمائے ہند کے اخبار ’مسلم‘ کی ادارت کا کام انجام دیا۔ سنہ 1925ء میں انہوں نے جمیعت کے نئے اخبار ’الجمیعت‘ کی ادارت شروع کی اور اس دوران درس نظامی میں داخلہ لیا۔

 

انیس سو چوبیس میں تحریک خلافت کی ناکامی نے مودودی صاحب کو قائل کر دیا کہ قوم پرستی اور جمہوریت ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے موزوں نہیں
سنہ 1924ء میں تحریک خلافت کی ناکامی نے مودودی صاحب کو قائل کر دیا کہ قوم پرستی اور جمہوریت ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے موزوں نہیں (علامہ اقبال بھی آخرکار اسی نتیجے پر پہنچے اور الہٰ آباد کے مشہور خطاب میں بھی انہوں نے یہی موقف اختیار کیا)۔ انہوں نے سنہ 1925ء میں ’اسلام کا چشمہء قدرت‘ نامی سلسلہ مضامین شروع کیا جس میں انہوں نے ماضی کے واقعات کی روشنی میں حال کے مسائل کے حل تجویز کیے۔ سنہ 1932ء میں انہوں نے ’ترجمان القرآن‘ نامی رسالے کا آغاز کیا۔ سنہ 1939ء میں انہوں نے ’متحدہ قومیت اور اسلام‘ اور ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ کے عنوان سے کتابچے تحریر کیے۔ (سنہ 1963ء میں خورشید احمد نے ان کو یکجا کر کے دو جلدوں میں ’تحریک آزادیء ہند اور مسلمان‘ کے نام سے چھاپا۔ اس ’یکجائی‘ کے دوران ان کتابوں میں ردوبدل کی گئی اور فی زمانہ ’متنازعہ‘ باتیں حذف کر دی گئیں)۔

 

سنہ 1937ء میں علامہ اقبال نے پٹھان کوٹ میں ایک دارالعلوم قائم کرنے کا فیصلہ کیا جہاں جدید تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کے نشاط ثانیہ کے لیے کام کیا جا سکے۔ اس ادارے کے سربراہ کی تلاش کا کام اقبال نے اپنے رفیق چوہدری نیاز علی کے ذمے لگایا۔ نیاز علی نے پہلے اشرف علی تھانوی سے رابطہ کیا مگر انکار کا سامنا کرنا پڑا، لہذٰا انہوں نے مودودی صاحب کا نام تجویز کیا۔ اس سلسلے میں مودودی اور اقبال کی بالمشافہ ملاقات ہوئی اور بالآخر مودودی صاحب کو دارالاسلام کے وقف کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سنہ 1939 ء میں نیاز علی سے شدید اختلافات کے بعد مودودی صاحب نے وقف سے استعفیٰ دے دیا(نیاز علی مسلم لیگ کے حامی تھے اور وہ مودودی صاحب کو سیاست میں دخل اندازی سے باز رکھنے میں ناکام ہونے پر دلبرداشتہ ہو گئے تھے)۔ اگست 1941ء میں جماعتِ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ سنہ 41 19ء سے سنہ 1953 ء تک جماعت اور امیر جماعت کے سیاسی نظریات سمجھنے کے لیے ان کی تصنیفات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

 

’تحریک آزادیء ہند‘ کا مقدمہ خورشید احمد (سنہ1953ء میں جمیعت طلبہ اسلام کے ناظم اعلیٰ، بعدازاں پاکستان کی سینیٹ کے رکن) نے لکھا اور سیاست کے متعلق فرقہ مودودیہ کا موقف انہوں نے یوں بیان کیا ہے: ’مسلمان اور غلامی، یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ غلامی کی فضا میں اپنے دین کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اسلام غلبے اور حکمرانی کے لیے آیا ہے، دوسروں کی چاکری اور باطل نظاموں کے تحت جزوی اصلاحات کے لیے نہیں آیا۔ ‘ یہ بیان ظاہر کرتا ہے (اجمل کما ل سے معذرت کے ساتھ) کہ لکھنے والے کو سیاسیات، معاشیات، عمرانیات اور علم تاریخ جیسی مخلوقات کے وجود تک کا علم نہیں اور اس کے نزدیک عقلی سرگرمی محض عقل کے پیچھے لٹھ لے کر پھرتے رہنے کا نام ہے۔

 

مولانا مودودی نے اسلام کو مذہب کی بجائے ’عالمگیر تحریک‘ ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں نت نئی توجیحات پیش کیں۔
‘مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ اول’ میں صاحب کتاب نے کانگرس اور ہندوستانی قوم پرستوں پر چاند ماری کی۔ابتدائی مضامین میں ہندوستانی مسلمانوں کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد آبادی کے ایک بڑے حصے کو اسلامی اعتبار سے جاہل قرار دیا۔ صفحہ نمبر 44 پر لکھا: ’ہمیں اس امر کی کوشش کرنی چاہئے کہ جمہور مسلمانوں کی قیادت کا منصب نہ انگریز کے غلاموں کو حاصل ہو سکے نہ ہندو کے غلاموں کو بلکہ ایسی جماعت کے قبضے میں آ جائے جو ہندوستان کی کامل آزادی کے لئے دوسری ہمسایہ قوموں کے ساتھ اشتراک عمل کرنے پر دل آمادہ ہو، مگر اسلامی مفاد کو کسی حال میں قربان کرنے پر آمادہ نہ ہو‘۔ اس کتاب کی دوسری جلد (جو بعدازاں ’تحریک آزادی اور مسلمان‘ حصہ دوم کے نام سے چھاپی گئی) میں واضح کر دیا کہ وہ جمہوریت اور کمیونزم کے مقابلے میں ’اسلامی نظام‘ (جو آج کل اسلام ازم یا سیاسی اسلام کہلاتا ہے) کو افضل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اس نظام کے متعلق لکھا: ’میں صرف غیر مسلموں کو ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا ہے اور بڑھانا نہیں ہے جو خود اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے۔‘ تیسرے حصے میں مسلم لیگ اور اس کی قیادت پر بالواسطہ تنقید کی گئی۔

 

موصوف نے اسلام کو مذہب کی بجائے ’عالمگیر تحریک‘ ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں نت نئی توجیحات پیش کیں۔ دسمبر سنہ 1939ء میں لکھا: ’اسلام کی رو سے مسلمانوں کی جمیعت صرف وہ ہو سکتی ہے جو غیر الہٰی حکومت کو مٹا کر الہٰی حکومت قائم کرنے اور قانون خداوندی کو حکمراں کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ جو جماعت ایسا نہیں کرتی ،وہ نہ تو اسلامی جماعت ہے نہ اسے مسلمانوں کی جماعت کہنا درست ہے‘ (یہاں اسلام سے مراد ’مودودی صاحب کی فہم کے مطا بق اسلام‘ ہے ۔ جولائی سنہ 1940ء میں انہوں نے ’اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہ عمل‘ نامی مضمون تحریر کر کے اختلاف کا راستہ ہی بند کر دیا)۔ اسلام کے ’مکمل ضابطہ حیات‘ ہونے کا دعویٰ پہلی بار مودودی صاحب نے نہیں کیا لیکن اس دعوے کی بنیاد پر ایک نظریاتی عمارت کی تعمیر میں انکا اہم حصہ ہے۔ اسلامی فکرو عمل کے استاد ڈاکٹر خالد ظہیر کے مطابق یہ دعویٰ پہلی دفعہ بیسویں صدی میں کمیونزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا گیا اور اس کی کوئی تاریخی مثال موجود نہیں۔ اسی طرح اسلام کو مذہب کی بجائے ’دین‘ قرار دینے کا کام بھی انہوں نے اپنے مضمون ’مذہب کا اسلامی تصور‘ میں انجام دیا۔

 

مودودی صاحب نے مذہب کی جو تعبیر کی، اس پر ہم کم علمی کے باعث تنقید کرنے کے اہل نہیں (اور بقول اکبر الہ آبادی: فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں) لیکن اس ضمن میں مولانا وحیدالدین کی تصنیف ’تعبیر کی غلطی‘ اور شیخ محمد اقبال کی کتاب ’جماعت اسلامی پر ایک نظر‘ اہم کاوشات ہے۔ وحیدالدین جماعت کے ابتدائی کارکنان میں شامل تھے اور انکی تنقید کا تسلی بخش جواب مودودی صاحب یا ان کے قریبی ساتھی نہ دے سکے۔تاریخ اور سیاست پر مولانا کی مشق آزمائی البتہ ہماری ناقص رائے میں ناقابل معافی ہے اور اس ضمن میں چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

 

لفظ سیکولر کا ترجمہ ’لادین‘ مشہور کرنے میں بھی مولانا مودودی کا کردار رہا حالانکہ انگریزی زبان کے اس لفظ کا ترجمہ ’غیر مذہبی حکومت‘ مستند ہے یا عربی اصطلاح ’علمانیہ‘ استعمال کی جا سکتی ہے۔
لفظ سیکولر کا ترجمہ ’لادین‘ مشہور کرنے میں بھی مولانا مودودی کا کردار رہا حالانکہ انگریزی زبان کے اس لفظ کا ترجمہ ’غیر مذہبی حکومت‘ مستند ہے یا عربی اصطلاح ’علمانیہ‘ استعمال کی جا سکتی ہے۔ جمہوریت کے بارے میں انکی رائے مندرجہ ذیل ہے:

 

‘یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم اس نظام کے اندر داخل ہو کر اس کو اسلام کی طرف پھیر لیں گے۔ اس کے اندر داخل ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ پہلے اس کے بنیادی نظریے (سلطانیء جمہور) کو تسلیم کیا جائے اور اس کے بنیادی نظریے کو تسلیم کرنا اسلام کے بنیادی نظریے سے انکار کا ہم معنی ہے۔ لہذٰا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ باہر سے اس کے خلاف لڑیں اور اپنی تمام تر کوشش پہلے یہ اصول منوانے میں صرف کریں کہ قانون سازی کتاب الہیٰ کی سند پر مبنی ہونی چاہئے۔‘ انہوں نے دین ودنیا کی علیحدگی کے تصور کو ’جاہلی تصور‘ قرار دیا۔ ( یوں تو سید سلیمان ندوی بھی جمہوریت کے متعلق لگ بھگ یہی رائے رکھتے تھے۔ خطبات اقبال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’جمہوری اداروں کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنا اسلام کی تاریخ سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ قرآن کریم میں ملوکیت کی مذمت اور جمہوریت کی مدحت کہاں ہے۔ ملوکیت قرآن سے ثابت ہے، اسے قابل نفرت قرار دینے کی شرعی توجیح نہیں کی جا سکتی۔ آزادی اور مساوات کو اسلام میں ڈھونڈنا اسلام سے ناواقفیت ہے۔ اسلام اور آزادی دو متضاد نظریات ہیں۔‘)سنہ 1941 ء میں جماعت اسلامی میں داخلے کی شرائط میں یہ شرط بھی شامل تھی:

 

‘اگر آپ کسی مجلس قانون ساز کے رکن ہیں تو اس سے مستعفی ہو جائیں کیونکہ جو مجلس قرآن اور سنت رسول کو اساس اور منبع قانون تسلیم نہ کرے، اسلام کی رو سے اس کو انسانی زندگی کے لیے قوانین بنانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا اور اس کی رکنیت قبول کرنا کسی مسلمان کا کام نہیں۔’

 

مولانا نے اپنی جماعت کے ارکان کو انتخابات میں مسلم لیگ کو ووٹ ڈالنے سے منع کیا۔ حالانکہ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے ’اسلام خطرے میں ہے‘ کا نعرہ بلند کیا تھا اور پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں اسے مذہبی شخصیات کی آشیر واد حاصل تھی۔
ہر احیاء پرست کی مانند جناب کو بھی اپنے نقطہ نظر اور لائحہ عمل کے متعلق صد فیصد درستگی کا گمان تھا اور انکے مطابق جو راستہ انہوں نے چنا، وہ حقیقی اور سچا راستہ تھا(اس رویے کو مولانا وحیدالدین نے ’مولانا مودودی کی مریضانہ ذہنیت‘ قرار دیا)۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے متعلق لکھا: ’مسلم لیگ کے بنیادی تصورات، اس کا نظام ترکیبی، اس کا مزاج، اس کا طریق کار اور اس کے مقاصد سب کچھ وہی ہیں جو قومی اور قوم پرستانہ تحریکوں کے ہوا کرتے ہیں۔ یہ اور بات کہ یہ مسلمانوں کی قومی تحریک ہے اس لیے خوامخواہ اسے بھی اسلامی تحریک سمجھ لیا گیا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تحریک اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل ایک دوسری چیز ہوا کرتی ہے جس کا کوئی شائبہ بھی مسلم لیگ کی قومی تحریک میں نہیں پایا جاتا، اور یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ اسلام اپنے مخصوص طریقہ کار سے جس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے، اس تک آپ ایک قوم پرستانہ تحریک کے ڈھنگ اختیار کر کے پہنچ جائیں۔‘ اسی مضمون میں ایک اور مقام پر لکھا: ’مسلم لیگ کی ساری قوت محرکہ اس وقت مسلمان قوم کے ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے جو زندگی کے جملہ مسائل میں دینی کی بجائے دنیوی نقطہ نظر سے سوچنے اور کام کرنے والا ہے، اسلام کی بجائے مغربی اصول حیات کا معتقد اور مقلد ہے، دینی تعلق کی بجائے قومیت کے تعلق کی بنا پر مسلمانوں کی حمایت و وکالت کر رہا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ گروہ خود علانیہ اسلام کے اصول و احکام کی خلاف ورزی کرنے میں بیباک ہے، بلکہ اس کی راہنمائی و سربراہ کاری کی وجہ سے مسلمانوں میں بالعموم اسلام کے احکام کی خلاف ورزی اور اس خلاف ورزی میں بے باکی بڑھتی جا رہی ہے، ان کی دینی حس مردہ ہو رہی ہے اور ان پر دنیا پرستانہ ذہنیت چھا رہی ہے’۔

 

اکتوبر سنہ 1945ء میں مولانا نے اپنی جماعت کے ارکان کو انتخابات میں مسلم لیگ کو ووٹ ڈالنے سے منع کیا۔ حالانکہ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے ’اسلام خطرے میں ہے‘ کا نعرہ بلند کیا تھا اور پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں اسے مذہبی شخصیات کی آشیر واد حاصل تھی۔

 

ترجمان القرآن میں ایک طویل مضمون بنام ’موجودہ انتخابات اور جماعت اسلامی‘ میں مودودی صاحب نے لکھا:’جنت الحمقاء میں رہنے والے لوگ اپنے خوابوں میں خواہ کتنے ہی سبز باغ دیکھ رہے ہوں، لیکن آزاد پاکستان (اگر فی الواقع وہ بنا بھی تو) لازماً جمہوری لادینی اسٹیٹ کے نظریے پر بنے گا جس میں غیر مسلم اسی طرح برابر شریک ہوں گے جس طرح مسلمان، اور پاکستان میں ان کی تعداد اتنی کم اور ان کی نمائندگی اتنی کمزور نہ ہو گی کہ شریعت اسلامی کو حکومت کا قانون اور قرآن کو اس جمہوری نظام کا دستور بنایا جائے‘۔

 

(جاری ہے)

 

کتابیات
تعبیر کی غلطی، مولانا وحیدالدین خان
تحریک آزادیء ہند اور مسلمان(حصہ اول و دوم)
مولانا مودودی اور میں، اسرار احمد
’قائد اعظم، نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام: ابوالاعلی مودودی کی نظر میں‘، مولانا محمد اشفاق
روداد جماعت اسلامی
تحریک جماعت اسلامی : ایک تحقیقی مطالعہ، اسرار احمد
پاکستان کی سیاسی تاریخ: ترقی اور جمہوریت کو روکنے کے لئے اسلامی نظام کے نعرے، زاہد چوہدری
جماعت اسلامی کی انتخابی جدوجہد
منیر رپورٹ، ترجمہ بشکریہ ماہنامہ ’نیا زمانہ’
مودودی حقائق، محمد صادق قادری
پردہ، ابوالاعلی مودودی
محاصرے کا روزنامچہ، وجاہت مسعود
طلبہ تحریکیں، جلد اول، سلیم منصور خالد
میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، صدیق سالک
مشاہدات، میاں طفیل محمد
پاکستان میں طلباء تحریک، پروفیسر عزیزالدین
جماعت اسلامی پر ایک نظر، شیخ محمد اقبال

Sayyid Abul A’ala Maudu­di & his thought,Masud ul Hasan
The Van­guard of Islam­ic Rev­o­lu­tion, Vali Nasr
Maw­du­di and Mak­ing of Islam­ic Revival­ism, Vali Nasr
Mag­ni­fi­cient Delu­sions, Husain Haqqani
Islam and the sec­u­lar State. Abdul­l­lah An’­naim
The 1974ouster of the heretics: What real­ly hap­pened?
NADEEM F. PARACHA

Image: Khu­da Bux Abro for Dawn.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *